سیاسی و سماجی

’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے ‘

۲۶ جنوری یوم آئین اس بار اس لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ آئین و دستور بچانے والے آئین ہند کی حفاظت کرنے والے سڑکوں پر بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان فرقہ پرستوں سے لڑ رہے ہیں جو آئین کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کو سلب کرنا چاہتے ہیں جو بھید بھاو، لڑاو حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، ان کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج ہے، خواتین کی بڑی تعداد سڑکوں پر اتر کر اپنے مذہبی و آئینی حقوق کا مطالبہ کررہی ہے وہ حکومت جو کل تک خود کو مسلم خواتین کا مسیحا بتاتی تھی جو کل تک انہیں انصاف دینے کی بات کرتی تھی وہی آج اپنی پولس، کرائے کے غنڈوں سے ان خواتین کو ڈرا رہی ہے، انہیں احتجاج کے جمہوری حق سے روک رہی ہے ان کے کمبل چرائے جارہے ہیں، ان کا کھانا پانی لوٹا جارہا ہے؛ لیکن پھر بھی خواتین محاذ پر ڈتی ہوئی ہیں اور سپریم کورٹ کی مرکز کو چار ہفتوں کی مہلت کو ان مظاہرین نے اپنے لیے بھی مہلت سمجھ لیا ہے، جس دن سے چار ہفتوں کا وقت سپریم کورٹ نے مرکز کو جواب داخل کرنے کے لیے دیا ہے اس دن سے ان جیالی اور باہمت خواتین کے عزم و ہمت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، پوری شدت سے اب اٹھ کھڑی ہوئی ہیں، ظلم و نا انصافی کے خلاف آئین و حقوق کی بازیابی کے لیے انہوں نے اب ٹھان لی ہے کہ پورے ملک کو شاہین باغ میں تبدیل کردیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے ہم نہیں اٹھیں گے ، ہم ڈٹے رہیں گے ، ہم کاغذ نہیں دکھائیں ، ہم لڑتے رہیں گے اور ایک انچ پیچھے نہ ہٹنے والوں کا غرور خاک میں ملادیں گے۔ ہماری پشتوں کو مظالم یاد کرانے والے بزدلوں کو منہ توڑ جواب دیں گے ۔۔۔آزادی کا نعرہ لگانے پر ملک سے غداری کا مقدمہ ٹھونکنے کی دھمکی دینے والوں سے ملک کو آزاد کراکر رہیں گے ۔۔۔ان کی آئین مخالف مذہب مخالف اور نفرت بھری پالیسیوں سے ملک کو آزاد کراتے ہوئے ان متکبروں کو انجام تک پہنچائیں گے ۔۔۔کیونکہ ہم اکیلے نہیں آئین ہند کی بقا کےلیے ہمارے شانہ بشانہ ہندو بھی ہیں ، سکھ بھی ہیں ،عیسائی بھی ہیں، دلت بھی، ہم آئین پر ہی چلیں گے ۔۔۔منوسمرتی ہمیں قبول نہیں اور ان منوسمرتی نافذ کرنے والوں کو ہم قصہ پارینہ بنادیں گے۔
وہ لوگ جو اپنی ماوں بہنوں اور خود سیاسی و دیگر ریلیوں میں پیسہ لے کر شریک ہوتے ہیں وہ خود پر اپنے پر قیاس کرکے سمجھ رہے تھے کہ یہ خواتین بھی پانچ سو ہزار لے کر احتجاج کررہی ہیں جس دن پیسے ختم احتجاج ختم؛ لیکن انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ ضمیر فروش چند ٹکوں کے خاطر ایمان کا سودا کرتے ہیں باضمیر اپنی نسلیں قربان کردیتے ہیں؛ لیکن سودا نہیں کرتے، وہ اخیر تک لڑتے ہیں اور دونوں صورت میں کامیابی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے اگر پیسے لے کر احتجاج میں شریک ہوتیں تو آج ملک کا منظر نامہ یہ نہیں رہتا، پورا ملک جامعہ جے این یو اے ایم یو شاہین باغ کی آواز پر لبیک نہ کہتا لیکن ایسا نہیں ہے آج پورا ملک سیاہ قانون کے خلاف متحد ہے اور اتحاد کے ساتھ ہی ملک و آئین کو بچائیں گے ان کے اتحاد سے فرقہ پرست بوکھلائے ہوئے ہیں مظاہرین کو نت نئے طریقوں سے بدنام کرنے اور نام نہاد مذہبی پاکھنڈیوں کے ذریعے ان کو پست ہمت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے فتوے دیے جارہے ہیں سیاہ قانون کو سفید کیا جارہا ہے؛ لیکن وہ لوگ جن کے آباء و اجداد نے ملک کو انگریزوں سے آزاد کرایا تھا انہیں یہ پتہ ہے کہ اس طرح کی حرکتیں کرنے والے کون لوگ ہیں یہ فتوی باز کون ہیں انگریزوں کی ذریت کے حامی کون ہیں غلط کو صحیح کہنے والے کون ہیں سیاہ کو سفید قرار دینے والے ابن الوقت کون ہیں ان ابن الوقتوں کی حقیقتوں سے ملک کا ہوشمند شہری باخبر ہیںوہ جانتے ہیں ابن الوقتوں کے آباء نے انگریزوں سے وفاداری نبھائی تھی اب ان کی اولادیں چوروں سے وفاداری نبھارہی ہیں؛ اس لیے انہیں ان فتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بے جا الزامات سے ان کی ہمتیں پست نہیں ہونگی ، جتنے بھی مکر کرنے ہیں کرلو یہ جو محاذ پر ڈٹے ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ خدا خیرالماکرین ہے اور وہ ایسی تدبیریں کرے گا کہ تمہاری ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جائیں گی، وہ خواب جو ملک کو توڑنے ، بانٹنے ، نفرت و تعصب کی آگ میں جھونکنے کا ہے وہ کبھی پورا نہیں ہوگا، اس ملک کی سرشت میں یہ شامل ہی نہیں ہے کہ یہاں نفرت و تعصب کو پناہ ملے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×