سیاسی و سماجی

آئین مخالف قانون :طلباء کی تحریک کو انجام تک پہنچائیں!

شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاج کے دوران مرکزی حکومت نے ایک اور کارڈ عوام کےسامنے پھینکا ہے۔ جیسے ہی این پی آر کو کابینہ کی میٹنگ میں منظوری ملی اس کے خلاف بھی ملک بھر میں احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ حکومت نے اپنی ناکامی کو چھپانے کےلیے ہی شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کا شوشہ چھوڑا تھا اور جلد بازی میں شہریت ترمیمی ایکٹ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کرالیا تھا۔ عوام نے اس کی شدید مخالفت کی اور اب تک کررہے ہیں ۔ اس قانون کے پاس ہوجانے پر عالمی پیمانے پر بھی ہندوستان کی بدنامی ہورہی ہے ، ۶۰ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی اس پر حکومت ہند کو گھیرا ہے اور عالم اسلام کے عالموں، محدثوں کی تنظیم نے بھی حکومت ہند کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس سے باز رہے۔ ملائشیا کے ماثر محمد اور ترکی کے رجب طیب اردگان نے بھی حکومت ہند کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے ۔ مغربی ممالک کے بھی سیکولر ذہن عوام اور لیڈران اس کے خلاف ہیں؛ لیکن حکومت ہند اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور اس قانون کواب تک واپس نہیں لیا ہے۔ اس قانون کے خلاف مظاہرہ کے دوران ملک بھر میں ایک درجن سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں۔ املاک کے تباہ کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے، بے جا گرفتاریوں سے اس تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، پولس وردی میں ملبوس رکشک راکشش بن کر ابھر رہے ہیں۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اس قانون کو واپس لے لیا جاتا؛ تاکہ عام شہری سکون کی سانس لیتے ۔ لیکن حکومت کی منشاء کچھ اور ہی ہے اور وہ ہزاروں مخالفت کے باوجود اپنے ایجنڈے پر قائم ہے اور شاید قائم ہی رہے انہیں فرق نہیں پڑنے والا کہ اموات ہورہی ہیں، لوگ بے موت مارے جارہے ہیں، املاک تباہ ہورہی ہیں، ملک کی معیشت جو کہ بالکل گر چکی ہے اب گڈھے میں جارہی ہے، حکومت نے سوچا تھا کہ ملک کےعوام جس طرح نوٹ بندی، ۱۵؍ ۱۵؍ لاکھ کاجھانسا ، آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے، طلاق ثلاثہ بل اور رام مندر قضیے پر خاموش رہے اسی طرح اسے بھی قبول کرلیں گے؛ لیکن عوام حکومتی منشاء کےبرعکس آئین ودستور کی بقاء کےلیے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اور ان کی تحریک میں شدت آتی جارہی ہے۔ ان کی تحریک کو کمزور کرنے کےلیے ان کے پرامن جلوس پر پتھرائو کیے جارہے ہیں، پولس کا ناجائز استعمال کیاجارہا ہے، آر ایس ایس کے غنڈوں کو مارنے پیٹنے گولی چلانے کا روزگار دیا گیا ہے پھلواری شریف میں پرامن مظاہرے پر گولیاں کس نے چلائی؟ مغربی بنگال میں ٹوپی لنگی پہن کر آگ کون لگا رہا تھا؟ دہلی میں کھڑی بس میں کچھ کون انڈیل رہا تھا؟ جبکہ اس بس میں آگ بھی نہیں لگی تھی تو پھر اس میں کچھ ڈالنے کا مقصد کیا تھا؟ دریاگنج دہلی، لکھنو، علی گڑھ، بھاگلپور، مظفر نگر وغیرہ سے ایسی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جس میں پولس کی وردی میں ملبوس افراد کو دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح عوامی املاک کو تباہ کررہے رہیں، یونیورسٹی میں کھڑی بائیک کو کس طرح توڑ پھوڑ کا شکار بنا رہے ہیں، احتجاج سے قبل ہی کس طرح یہ پولس والے پتھر اکٹھا کررہے ہیں۔ کوئی تھری اسٹار وردی میں بنا بیچ کے گھوم رہا ہے ۔ آخر کون لوگ ہیں یہ جو تشدد کررہے ہیں، اور ان کے تشدد کی آڑ لے کر مسلمانوں پر فائرنگ کی جارہی ہے اور اس تحریک کو ہندو مسلم بناکر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اترپردیش گجرات ماڈل کی طرف قدم بڑھا چکا ہے وہاں مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے جبکہ اگر ان کے پرامن مظاہرے کو بھگوائیوں کے ذریعے تشدد کی نذر نہ کیاجاتا تو یہ سب نہیں ہوتا؛ لیکن حکومت ان کی ہے وہ عوام کو ڈرانے خوفزدہ کرنے کےلیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں، پھر بھی درجن بھر سے زائد شہادتوں کے بعد ان کی تحریک مزید زور پکڑ رہی ہے ، عوام کے جوش، یونیورسٹی وکالج کے طلباء کے عزم مصمم کو دیکھ کر یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ تحریک اس وقت تک جاری ہی رہے گی جب تک کہ حکومت اسے کالعدم نہ قرار دے۔ اسی تحریک، اسی جوش وجذبے کو سرد کرنے کےلیے حکومت نے اپنے چمچوں کا استعمال کیا جو سی اے اے اور این آر سی کی حمایت میں حکومت کی بولی بولتے نظر آئے لیکن سیکولرازم پسند عوام نے اسے بھی ٹھکرا دیا اور اپنی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب حکومت اس تحریک کو ایک بار پھر کمزور کرنے کے لیے این پی آر( نیشنل پاپولیشن رجسٹر) کا سہارا لیا ہے۔ ویسے تو ملک بھر میں ہر دہائی میں ایک بار مردم شماری ہوتی تھی لیکن اب جو ہونے والی ہے وہ این آر سی کا پہلا زینہ ہے۔ اس میں کچھ نکات مزید بڑھائے گئے ہیں جس سے حکومت کی چال کو سمجھا جاسکتا ہے۔اس بار آدھار نمبر، موبائل نمبر، والدین کی تاریخ پیدائش وجائے پیدائش، پاسپورٹ نمبر، ووٹر آئی، پین نمبر، ڈرائیورنگ لائسنس کا اضافہ کیاگیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ حکومت این پی آر کے ذریعے این آر سی کی طرف بڑھ رہی ہے اگر صاف لفظوں میں کہا جائے کہ این پی آر ہی این آر سی ہے تو بالکل بھی غلط نہیں ہوگا ۔ عوام کوچاہئے کہ وہ اپنی تحریک میں این پی آر کا بھی اضافہ کرلیں اور اس کے خلاف بھی مسلسل پرامن طور پر صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں ۔ یہ حکومت ملک کے عوام کو چین سے بیٹھنے نہیں دیناچاہتی ہے خود تو ان پڑھ سرکار ہے عوام کو بھی پڑھنے نہیں دیناچاہتی ہے۔ جاہل کبھی نہیں چاہے گا کہ کبھی پڑھے لکھے سے واسطہ پڑے؛ اس لیے جو لوگ پڑھ رہے ہیں حکومت سب سے بڑی ان کی مخالف ہے جامعہ، اے ایم یو، جے این یو، بی ایچ یو، دیگر یونیورسٹیوں کے طلبا نے تحریک شروع کردی ہے اب اسے انجام تک پہنچائیں اور حکومت ہند کو مجبور کریں کہ وہ شہریوں کی خوشحالی کےلیے قانون بنائے، اپنے ہی ملک کے باشندوں کو پریشان کرنے کےلیے نہیں، ان کی جمع پونجی ختم کرنے کےلیے نہیں، انہیں سکھ اور چین سے رہنے دیں۔ ان کے پرامن احتجاج پر پتھر نہ برسائیں، انہیں گولیوں کا نشانہ نہ بنائیں؛ بلکہ ان کے مطالبات کو سنا جائے اور ہر اس فعل سےباز رہا جائے جس سے ملک کی اکھنڈتا کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ حکومت کے تمام منصوبے، اسکیم ملک کو توڑنے والے ہیں ،ملک عزیز کے عوام کبھی اس خواب کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×