سیاسی و سماجی

لہو نہ ہو تو قلم ترجماں نہیں ہوتا

دورِ حاضر کی صحافت نے وہ گل کھلائے ہیں کہ وہ کی تاریخی اوراق میں درج اصولِ صحافت سے منہ چرانے لگی ہے، الکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ ہر ایک کی مسند پر ایسے بے تاج بادشاہوں کا قبضہ ہے کہ وہ تاجِ قلم کی عظمت وعصمت سے صرف نا آشنا ہی نہیں؛ بلکہ اس کے سوداگر بن چکے ہیں.
کاش وہ اس مسند پر بیٹھنے سے پہلے صحافت کے اصول، اس کی تاریخ، عہد ماضی کے نامور صحافیوں اور قلمکاروں سے کتابی رشتہ استوار کرتے، کاش انہیں معلوم ہوتا کہ صحافت ضمیر کی سوداگری کا نام نہیں.
بلا تحقیق وجستجو، صرف چیخنے چلانے اور قلم کی روشنائی ضائع کرنا بھی صحافت نہیں کہلاتا، حقائق اور مسائل سے پرے ہٹ کر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہہ دینا بھی صحافت نہیں، دھوپ میں تپنے والے انگنت مسائل سے دوچار لاچار افراد پر ائیر کنڈیشند کمروں میں بیٹھ کر انگلی اٹھانا بھی صحافت کا نام نہیں.
آج کے اس دور میں ہمارا ملک جن مسائل سے جوجھ رہاہے ان میں سے ایک انتہائی اہم مسئلہ غیر اصولی صحافت کا بھی ہے، افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری حکومت کہے جانے والے اس ملک کا ایک ستون منہدم ہوچکا ہے اور  حکومت دانستہ یا نادانستہ طور پر غفلت کی شکار ہے، کیا جمہوریت کی حفاظت میں صحافت کی حفاظت شامل نہیں؟
کاش! اس آزاد دیش میں صحافیوں اور قلمکاروں کو اپنے مافی الضمیر کے برملا اعلان واظہار کا موقع میسر ہوتا، انہیں دھمکیاں ملنا، ان کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرنا موقع میسر نہ ہونے کی دلیل ہے؛ لیکن ساتھ ہی اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ انتظامی طور پر کسی بھی صحافی اور قلم کار کو موقع میسر ہو یانہ ہر صحافی اور قلم کار کو اپنے طور پر بااصول اور غیرت مند ہونا چاہیے!
دھمکیوں اور ڈراؤنے خوابوں سے خوف نہ کھاکر اپنا قبلہ درست کرنے پر توجہ کرنی چاہیے!
حقائق کے اعلان اور مسائل کے اظہار کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے!
کاش آج کی صحافتی دنیا شورش کاشمیری جیسے؛ باغیرت صحافیوں کی طرح بے خوف وخطر آتش نمرود میں کودتے ہوئے انہیں کی زبان میں یہ اعلان کرتی کہ :

"میں قلم کو ہمیشہ ضمیر کی آواز پر اٹھاتا ہوں؛ لہذا کسی لفظ پر اس لحاظ سے ندامت نہیں ہوتی کہ اس میں کوئی مخفی اشارہ ہے یا اس پر کسی اور کی چھاپ لگی ہوئی ہے،. کسی ماں نے آج تک وہ بچہ ہی نہیں جنا جو میرے قلم وزبان کو خرید سکے، میرے نزدیک قلم فروشی عصمت فروشی سے کم نہیں؛ بلکہ اس سے قبیح اور مکروہ ہے، قدرت نے قلم اس لیے نہیں دیا کہ بیچا جائے، اس سے بہتر ہے کہ ہاتھ شل ہوجائیں، زبان اس لیے نہیں بخشی کہ مرہونِ غیر ہو، ایسی زبان پر فالج گرجائے تو خدا کا احسان ہے، میں نے جو کچھ لکھا وہی لکھا جو خود محسوس کیا، میں زبان وبیان میں ٹھوکر کھاسکتا ہوں لیکن ضمیر مطمئن رہتا ہے کہ آواز اس کی اپنی ہوتی ہے، وہ لوگ جو قلم کا کاروبار کرتے ہیں میں انہیں شرالدواب عنداللہ سمجھتا ہوں، میرے نزدیک وہ تمام ادیب، شاعر، صحافی، واعظ، مقرر اور خطیب بالاخانوں کی مخلوق ہیں جنہوں نے جوہرِ قلم اور جوہرِ زبان کو بازار کی جنس بنادیا ہے اور جن کا خیال ہے کہ انہیں درباروں کی چوکھٹ پر بھی پیش کیاجاسکتا ہے، اسی کا نام عبرت ہے”.
یہ شورش کاشمیری کی قلم سے نکلنے والے وہ موتی ہیں جن سے ان کی صحافتی زندگی چمک دار بنی، شورش کی سوانح سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کی صحافتی زندگی کا عملی میدان ہفت روزہ”” چٹان”” تھا، جو ان کا اپنا جاری کردہ تھا، چٹان کے بیس سال مکمل ہونے پر شورش اس کا وجہ امتیاز بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
"پہلے دن بھی اس کا طغرائے امتیاز یہی تھا کہ جس بات کو حق سمجھو اس کو بے کم وکاست کہہ ڈالو، آج بھی اس کا شیوہ افتخار یہی ہے کہ حق کا ساتھ دو، چاہے مسجد کے فرش پر ہو یا میکدے کی چوکھٹ پر، ہم اجتماعی طور پر ذاتی حیثیت سے جو محسوس کرتے ہیں وہ حوالہ قلم کرتے ہیں، کوشش یہی ہے کہ کلمۃ الحق کی پشتیبانی ہو، اس کے لیے ہم نے ماضئ مرحوم سے لے کر اب تک بےشمار صعوبتیں اٹھائی ہیں اور جو کچھ حاصل کیا وہ قوتِ بازو سے حاصل کیا، اس پر آج تک کسی دوسرے کے انعام واحسان کی مہر نہیں لگی، صرف اللہ تعالیٰ کا کرم شریکِ حال رہا ہے، چٹان کسی تنظیم کا پرچہ نہیں نہ مستعمل معنوں میں وہ کسی مکتبِ خیال کا نمائندہ ہے یا اس کے حلقہ بگوشوں میں ہے، وہ ایک آزاد خیال ہفتہ وار ہے جس کا دل لوگوں کے دلوں کی اجتماعی دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکتا ہے، اس کا ہمیشہ ہی یہ شعار رہا ہے کہ سیاسی مجاوروں، ادبی نٹ کھٹوں، شرعی جیب تراشوں اور مجلسی لقندروں کا پردہ چاک کیا جائے، قیمت خواہ اس کی کچھ ہی ادا کرنی پڑے، جب تک ان لوگوں کا وجود باقی ہے اورچٹان بفضل تعالی زندہ ہے سیاسی عجائب گھروں کی مورتیوں، ادبی بت کدوں کے کھلونوں، منبرو محراب کے آوارہ مصرعوں، اور مجلسی روز بازار کے مہنتوں کی باز پرس جاری رہے گی.

ع         ٹوٹ تو سکتے ہیں لیکن ہم لچک سکتے نہیں”.

کاش اسکرینوں پر نظر آنے والے اور روزناموں میں اپنے وجود کے جوہر بکھیرنے والے صحافی وقلمکار اپنے فرضِ منصبی کو سمجھتے ہوئے ملک وقوم کی بے لوث خدمت انجام دیں اور یہ اعلان کردیں کہ :
مجھے اسیر کرو یا مری زباں کاٹو
مرے خیال کو بیڑی پہنا نہیں سکتے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×