سیاسی و سماجی

نئی تعلیمی پالیسی — علماء اور دانشورانِ ملت کی نگاہ میں

کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار اس ملک کے نظام تعلیم پر ہوتا ہے، تعلیمی نظام ملکی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، نظام تعلیم جس قسم کا ہوگا اسی قسم کی نسل تیار ہوگی، مثبت اور تعمیری بنیادوں پر استوار نظام تعلیم ملک وقوم کو عروج وترقی کی نئی بلندیوں پر پہونچادیتا ہے، نظامِ تعلیم میں جدت واختراع کے ساتھ ملکی ضرورتوں اور عصر حاضر کی جدید تقاضوں کی رعایت ضروری ہے، اسی طرح نئی نسل کے اندر اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے لیے نظامِ تعلیم کا مساوات رواداری اور بین المذاھب ہم آہنگی پر مبنی ہونا ضروری ہے، تعلیم میں فرقہ واریت، نسلی امتیاز اور آپسی بھید بھاؤ جیسی زہریلی سوچ شامل نہیں ہونا چاہیے۔
ملک میں مربوط نظامِ تعلیم کا آغاز سب سے پہلے لارڈ میکالے نے کیا، قابض انگریزوں کی جانب سے تیار کردہ نظامِ تعلیم ملک پر زیادہ سے زیادہ انگریزی سامراج کے استحکام کی بنیادوں پر قائم تھا، ایسا اس لیے کہ کسی بھی سامراج کے استحکام کے لیے چار قسم کے نظاموں کو تبدیل کرنا گزیر ہوتا ہے:نظامِ حکومت، نظامِ قانون، نظامِ تعلیم اور عسکری نظام۔ ہند پر قبضہ کے بعد برطانوی سامراج نے اپنے منشأ اور مفادات کے مطابق ان چاروں نظاموں میں تبدیلی لائی، عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اس کی بڑی مثال اسرائیل ہے، جس نے ارضِ مقدس فلسطین پر قبضہ کے بعد ان چاروں نظاموں کو بدل دیا۔ہندوستان زعفرانی سامراج بھی اسی راستہ پر گامزن ہے۔
جب ہندوستان آزاد ہوا تو ملک کو ایک ایسے نظامِ تعلیم کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی جو ملکی مزاج سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ملکی ضرورتوں کی تکمیل کا ضامن ہو۔ مولانا ابو الکلام آزاد ملک کے پہلے وزیر تعلیم منتخب ہوئے، بحیثیت وزیر تعلیم اپنے انتخاب کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اپنے نظریہ تعلیم کا یوں اظہار کیا تھا: ’’صحیح طور پر آزاد اور انسانی قدروں سے بھر پور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی لاسکتی ہے‘‘ آزادی کے روز اول ہی سے تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے حکومتی کاوشیں جاری رہیں۔ ۱۹۶۸ء میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کے زیر نگرانی ایک تعلیمی رپورٹ تیار کی گئی، لیکن وسائل کی کمی کے باعث اس پر عمل در آمد نہ ہوسکا، تعلیم کے تعلق سے دوسرا بڑاقدم ۱۹۸۶ء میں اٹھایا گیا، اور ایک نئی تعلیمی پالیسی مرتب کی گئی، یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور ۱۹۹۲ء میں پلان آف ایکشن اور ۲۰۰۵ء میں قومی نصاب کی تشکیل انہی کاوشوں کا حصہ ہے، موجودہ نئی تعلیمی پالیسی آزاد ہندوستان کی تیسری تعلیمی پالیسی ہے۔
حالیہ نئی تعلیمی پالیسی کے جس حصہ کو منظور کیا گیا ہے جب اس پر رائے لی گئی تو انسانی وسائل کی وزارت کو دو لاکھ سے زائد تجاویز موصول ہوئیں، بہتر تھا کہ آراء کی وصول کے بعد ایڈیٹ شدہ مواد بھی عوام کے سامنے رکھا جاتا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، اور اس کے بغیر ہی نئی تعلیمی پالیسی کو کابینہ میں منظوری دے دی گئی۔
نئی تعلیمی پالیسی کے خد وخال
نئی تعلیمی پالیسی کی منظوری کے بعد ماہرین تعلیم علماء کرام اور دانشوران ملت کی جانب سے مثبت ومنفی دونوں طرح کی آراء سامنے آئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پالیسی میں جہاں بہت سی باتیں اصلاح طلب اور نظر ثانی کی محتاج ہیں وہیں اس کے بعض پہلو مفید اور حوصلہ افزاء بھی ہیں، اس پالیسی کونہ بالکلیہ رد کیا جاسکتا ہے اور نہ من وعن قبول کیا جاسکتا ہے، نئی تعلیمی پالیسی میں اسکولی تعلیم کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، تین سال کی عمر سے پری پرائمری کو تین سالوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دوسرا حصہ تیسری، چوتھی اور پانچویں جماعت کے لیے تین سالوں پر مشتمل ہوگا۔ اسی طرح تیسرا حصہ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کو بھی تین سالوں پر مشتمل رکھا گیا ہے، چوتھا حصہ دسویں تا بارہویں پر مشتمل ہے۔نئی تعلیمی پالیسی کی رو سے ۹تا ۱۲ویں کلاس کے بچے اسکولی طلبہ ہی کہلائیں گے، ۱۲ ویں جسے انٹر میڈیٹ کہا جاتا ہے، اسے بالکلیہ ختم کردیا گیا ہے، اب ۱۲ ویں کے بعد طلبہ اسکول سے فارغ ہوسکیں گے۔ہایئر سکنڈری اور جونیئر کالجس کا نظام ختم کرکے ۱۱ویں اور ۱۲ ویں کو سکنڈری اسٹیج میں ملا دیا گیا ہے۔علاوہ ازیں نئی پالیسی میں چھٹی جماعت سے سہ لسانی فارمولا اختیار کیا گیا ہے۔آئندہ سطور میں ہم ملک کے مختلف دانشوران اور علماء کرام کی تحریروں کی روشنی میں نئی تعلیمی پالیسی کے مثبت ومنفی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔
مثبت پہلو
ناندیڑ سے تعلق رکھنے والے سید معز الرحمن کی نگاہ میں نئی تعلیمی پالیسی میں درج ذیل پہلو مثبت ہیں:
۱- پانچویں جماعت تک مادری زبان میں تعلیم سے اسکول جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، ڈراپ آؤٹس کی تعداد کم ہوگی۔
۲- نئی تعلیمی پالیسی میں سماجی کارکنوں اور رضا کاروں کو تعلیمی اداروں میں داخلہ کی گنجائش رکھی گئی ہے، یہ سہولت جہاں سنگھ کے رضا کاروں کو حاصل ہوگی وہیں مسلم تحریکات اور تنظیموں سے وابستہ افراد کے لیے بھی میسر رہے گی۔
۳- نئی تعلیمی پالیسی میں ٹیچرس ٹریننگ اور معیاری تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، ڈاکٹروں کی طرح چار سالہ بی ایڈ گریجویشن کے بعد ٹیچنگ میں دو سالہ تدریسی عمل سے گزرنا لازم کردیا گیا ہے، اس سے تعلیمی معیار بلند ہوگا۔
۴- نئی تعلیمی پالیسی میں ملک کو ، عالمی سپر پاور بنانے اور سب کو تعلیمی اعتبار سے اونچا اٹھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے، جوکہ مستحسن اقدام ہے۔
۵- ووکیشنل ایجوکیشن سے بچوں میں کئی اسکلز پروان چڑھیں گی اور وہ اپنے ہنر کے ساتھ زیادہ پروڈکٹیو فرد بن کر سامنے آئیں گے، نمبر سسٹم ختم کرکے جب میک اوور رپورٹ بنائی جائے گی تو طلبہ کا غیر ضروری تناؤ ختم ہوگا۔
۶- تعلیم کی بڑے پیمانے پر توسیع کے لیے ایکسپانشن آف ایجوکیشن کا جو نقشہ پیش کیا گیا ہے اس میں رنگ بھر نے کے لیے مسلم طلبہ وطالبات کو آگے آنا چاہیے۔
۷- حکومت چاہتی ہے کہ ۲۰۴۰ء تک تمام انسٹی ٹیوٹس کو ملٹی ڈسپلنری اداروں میں تبدیل کیا جائے، ۲۰۳۰ء تک ہر ضلع میں ایک ملٹی ڈسپلنری ادارہ ہو، اور ۲۰۳۵ء تک انرول مینٹ ریشو ۵۰؍ فیصد تک بڑھایاجائے، ان اقدامات سے ایجوکیشنل میں روزگار کے مواقع کھلیں گے اور ٹیچرس ایجوکیشن کی اہمیت بڑھ جانے کے بعد صرف قابل اساتذہ ہی تعلیم کے میدان میں آپائیں گے، اس طرح اساتذہ کے سماجی وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔
۸- نئی تعلیمی پالیسی میں فیس کے ریگولیٹری سسٹم بنائے جانے کے ساتھ خانگی اداروں کو بھی وسیع پیمانے پر تعلیمی اداروں کے قیام کی اجازت دی جائے گی، جو ملت ِاسلامیہ کی تعلیمی ترقی کی ضامن ہوگی۔
۹- اعلیٰ تعلیم کی جانب مسلم طلبہ نہیں جا پاتے اور جاتے بھی ہیں تو بیچ میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں، ملٹی ڈسپلنری ایجوکیشن اداروں سے ڈراپ آؤٹ کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔
۱۰- سائنس اور آرٹس کے درمیان کی خلا دور ہوگی، مثلافزکس کے ساتھ کوئی نوجوان سوشیولوجی بھی پڑھنا چاہے تو ممکن ہوگا، اس طرح کاؤنسلنگ کی اہمیت بڑھ جائے گی اور اچھے کاؤنسلرس کی ضرورت بڑھ جائے گی۔
۱۱- کرئٹیوتھنکنگ پروان چڑھے گی، اکیڈمک بینک آف کریڈٹ بنانے سے سابقہ تعلیم کی اہمیت برقرار رہے گی اور پڑھائی کچھ سالوں تک موقوف کرکے دوبارہ جاری کرنے میں دشواری نہیں ہوگی۔
سید معز الرحمن کا نئی تعلیمی پالیسی سے متعلق یہ کہنا بجا ہے کہ غلط پالیسیوں پر احتجاج ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ کر دکھانے کے جذبہ سے میدان عمل میں آنا ضروری ہے۔بصورت ِدیگر ہم انقلابی امت کے بجائے ایک احتجاجی امت بن کر رہ جائیں گے۔
منفی پہلو
۱- ملک کے مختلف دانشوروں نے نئی تعلیمی پالیسی کے متعدد منفی پہلوؤں کی بھی نشاندہی کی ہے، جماعت ِاسلامی کے مرکزی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین جناب نصرت علی صاحب نے نئی تعلیمی پالیسی کے تمام پہلوؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کئے بغیر اعلان کیا، جب کہ اس سے قبل حکومت کے ذریعہ منظور کی جانے والی تمام تعلیمی پالیسیوں پر پارلمنٹ میں مباحث ہوا کرتے تھے،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت جمہوری طریقوں کو اپنانا نہیں چاہتی۔
۲- محترم نصرت علی صاحب نے کہا کہ حکومت نے جس پالیسی کا اعلان کیا ہے کہ اس کاویثرن واضح نہیں، اس میں وضاحت کا فقدان ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں معاشرتی تبدیلی پر توجہ دینے سے زیادہ مادیت پسندی پر دھیان دیا گیا ہے، جبکہ ملک میں ایک ایسی تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے جس کا مقصد معاشرتی انصاف، جمہوری اقدار، مساوات اور باہمی اعتماد کی بحالی کے ذریعہ معاشرتی تبدیلی ہو۔
۳- انھوں نے مزید کہا کہ تعلیمی پالیسی میں تعلیم کے جامع اور مربوط اپروچ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، اس میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ ہندوستانی تناظر میں جامع اپروچ کی تعریف کیا ہونی چاہیے۔
۴- پالیسی میں کہا گیا ہے کہ آٹھ زبانوں کے لیے ای مواد تیار کیا جائے گا۔مگر اس میں اردو شامل نہیں کی گئی ہے، اگر پالیسی کا مقصد محروم طبقات کی مجموعی حالت کو بہتر بنانا ہے تو ای مواد کو اردو زبان میں بھی ڈولپ کیا جاناچاہیے۔
۵- پری پرائمری سے ۱۸ سال تک کی عمر کے بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم کا فیصلہ خوش آئند قدم ہے، تعلیم ایک ریاستی سبجیکٹ ہے، لہٰذا متعدد تعلیمی اداروں کو ایک مرکزی یونٹ میں ضم کردینا اسے کلی مرکزی حیثیت دے گا اور یہ ہماری رفاقی پالیسی کے لیے دھچکا ہوگا۔
۶- ملک کے معروف عالم دین ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نے نئی تعلیمی پالیسی کے کچھ منفی پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ پوری پالیسی کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیکولرازم کو ختم کرکے پورے ملک میں ایک نئی سوچ عام کرنے کا پختہ ارادہ ہے۔
۷- مدارس کا پوری پالیسی میں کہیں ذکر نہیں ہے، البتہ ایک لفظ Alternative یعنی متبادل کا استعمال کیا گیا ہے، اب اس کی مراد کیا ہوگی، مدارس گروکل آشرم یا پاٹھ شالہ معلوم نہیں۔
۸- پالیسی میں جہاں متبادل تعلیم کا تذکرہ ملتا ہے وہاں یہ بھی وضاحت ہے کہ متبادل تعلیم میں بھی قومی نصاب لازمی ہوگا، تب ہی ان متبادل اداروں کی تعلیمی حصہ داری قبول ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر متبادل میں مدارس کو شامل کیا گیا تو پھر وہ بھی اس قومی نصاب کے پابند ہوں گے، یہ بھی وضاحت موجود ہے کہ بتدریج متبادل اسکولی نمونوں کو مین اسٹریم میں لایا جائے گا۔
۹- بعض لوگ پالیسی میں مدارس کا ذکر نہ ہونے کو مثبت سمجھ رہے ہیں، لیکن مجھے یہ غلط فہمی محسوس ہوتی ہے کیوں کہ جب ذکر نہیں ہوگا تو مدارس کی تعلیمی حصہ داری جس کا ملک کے تعلیمی نظام اور خواندگی میں بڑا حصہ ہے بالکل ہی ختم ہوجائے گا، بلکہ اس کا مذاق بنانا مزید آسان ہوگا۔
۱۰- کالجس کو ڈگری دینے کا مجاز کردیا گیا ہے تو گویا الحاق کی شکل ختم ہوجائے گی، اس طرح مدرسی سند بے حیثیت ہوجائے گی، اور یونیورسٹی میں داخلہ ممکن نہ ہوگا۔
۱۱- پوری پالیسی میں کہیں بھی عربی کا ذکر نہیں ہے، جو خود ہی ایک بڑا سوال ہے، دیگر پہلوؤں کے علاوہ اس کے اثرات از خود اس الحاق پر پڑیں گے۔
۱۲- یہ پالیسی ایک اسٹینڈرڈ کی بات کرتی ہے، بھارتی کلچر، بھارتی سنسکرتی، بھارتی ثقافت، بھارتی علوم وتاریخ وتہذیب کو پرموٹ کرتی ہے،سوال یہ ہے کہ کیا مدارس اس سے بچیں گے، اگر دستور کی دفعہ ۲۹،۳۰ کا حوالہ دیا جائے تو کیا اب اس حکومت کی کارکردگی دیکھتے ہوئے اس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دستور میں ترمیم اور چھیڑ چھاڑ سے گریز کرے گی۔
۱۳- اگر مدرسہ بورڈ ہی کو حکومت لازم کردے تو آزاد مدارس کیا کریں گے، جیسا کہ بعض صوبوں میں مدرسہ بورڈ ریفارم کی تیاریہاں چل رہی ہیںاور مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کیا قومی نصاب پڑھائیں گے یا پھر…؟
۱۴- معروف دانشور جناب ناظم الدین فاروقی نے نئی تعلیمی پالیسی کے منفی پہلوؤں کو اجا گر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی سے بھارت میں تعلیمی نظام کو پرائیویٹ کیا جارہا ہے، عوامی خون چوسنے کے لیے مخصوص کارپوریٹ سیکٹر کو مضبوط کیا جارہا ہے، تعلیم کو بے حد مہنگا کیا جارہا ہے، نئی تعلیمی پالیسی کا ہدف ۲۰۳۵ء تک بڑے پیمانے پر اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینا ہے، مگر پرائیویٹ سیکٹر کو زیادہ اختیار دینے سے غریبوں کے لیے تعلیم ناممکن ہو گی۔
۱۵- جماعت ِاسلامی ہند کی جانب سے گذشتہ دنوں نئی تعلیمی پالیسی پر ایک ویبنار کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں نئی پالیسی کے درج ذیل منفی پہلوؤں پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔ویبنار میں کہا گیا کہ نئی پالیسی میں قدیم ہندوستان کے نظامِ تعلیم اور اس دور کے پانچ تعلیمی اداروں کا ذکر ہوا ہے، مگر قرون وسطیٰ کی تعلیمی سرگرمیوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے، جب کہ اس دور میں بھی تعلیم کے بڑے کام ہوئے ہیں، اسی طرح مدارس کی عظیم خدمات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
۱۶- اس کے علاوہ مائناریٹی کا ذکر۶۲ صفحات کے اس پورے ڈاکومینٹ میں صرف ایک مقام پر پوائنٹ نمبر ۴‘۲‘۶ میں ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ اقلیتیں اس پالیسی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں۔
۱۷- ملک کا قانون اقلیتی اداروںکو کچھ مخصوص حق دیتا ہے، ریاستی حکومتیں انھیں کچھ فنڈ فراہم کرتی ہیں، مگر اس نئی پالیسی کا رجحان سنٹرلائیزیشن کی طرف جھکا ہوا لگتا ہے، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مائناریٹی کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہونچے گا۔
۱۸- اس پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا معیار سب کے لیے یکساں ہوگا، ایسی صورت میں مائناریٹی انسٹیوٹ کو کیسے ریگولیٹ کیا جاسکے گا؟ مدارس کا ا سٹیٹس کیا ہوگا؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔
۱۹- اکیڈمک ایجوکیشن کو اونچا کرنے کے لیے ایجوکیشن والنٹیر کی خدمات حاصل کی جائیں گی، سوال یہ ہے کہ یہ والنٹیرس کس نظر وفکر کے ہوں گے اور تعلیمی اداروں میں یہ والنٹیر معیار کو اونچا اٹھانے کے بہانے کیا اپنی فکر کو عام کریں گے؟ یہ ایک بڑا خدشہ ہے۔
۲۰- پالیسی میں ہنرمندی کی بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گریڈ نائن کے بعد ہر طالب علم کسی ایک ہنر کو حاصل کرے گا، اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔وہ یہ کہ ۱۲ ویں کرلینے کے بعد ان میں آگے بڑھنے کے بجائے کمانے کا شوق پیدا ہوگا، اور ڈراپ آؤٹ کا اوسط بڑھنے لگے گا۔
۲۱- معروف ماہرتعلیم جناب فاروق طاہر نے اپنے ایک کالم میںنئی تعلیمی پالیسی کے تعلق سے لکھا ہے کہ مسودہ کے مطالعہ سے یہ حقیقت صاف طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ حکومت تعلیم کی یقینی فراہمی کے عمل سے خود کو پیچھے کرتے ہوئے خانگی اور پرائیویٹ تعلیمی ادارہ جات کے فروغ کے ذریعہ ملک کو تعلیمی تجارت کے ایک مرکز کے طور پر فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔منظور شدہ نئی تعلیمی پالیسی کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ یہ حکومت خانگی تعلیمی اداروں کو اپنے من پسند طریقہ سے چلانے کی طاقت توانائی اورقانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
۲۲- فاروق طاہر صاحب کے بقول نئی تعلیمی پالیسی میں طلبہ تنظیموں کے پرزور مطالبے اور تحریکوں کے باوجود خانگی تعلیمی ادارہ جات میں آئین کی جانب سے فراہم کردہ تحفظات کی ضرورت اور ریزرویشن پالیسی کو نافذ کرنے کے مثبت اقدامات کا کہیں بھی ذکر نہیں، حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ آئین کے وفاقی ڈھانچے پر شبخون مارا ہے۔
۲۳- ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں ڈیجیٹل اور آن لائن ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی بات ضرور کی گئی ہے، لیکن ٹیکنالوجی کے فروغ اس کی وسعت پذیری اور طلبہ کی ٹیکنالوجی تک رسائی جیسے اقدامات کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے۔
۲۴- مودی حکومت کا سنسکرت کو ملک کی دیگر کلاسیکی زبانوں کے مقابل میں فوقیت دینا سنسکرت کو قومی زبان کے طور پر ترقی وترویج دینے کے عزائم کا مظہر ہے، نئی تعلیمی پالیسی میں اگرچہ دوسری زبانوں کی بات ضرور کی گئی ہے لیکن سنسکرت پر زیادہ زور دینے سے حکومت کی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے۔
فاروق طاہر صاحب کہتے ہیں کہ NEP ۲۰۲۰ء میں بار بار تعلیم میں نجی سرمایہ کاری اور انسانی سخاوت کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے، یہ نجی اور کاروباری اداروں کو ہائر ایجوکیشن میں اپنے کاروبار کو وسعت اور فروغ دینے کا ایک واضح پیغام ہے، یہ اعلیٰ تعلیم کو کارپوریٹ اور نجی کنٹرول میں دینے کی ایک شاطرانہ چال کے سوا کچھ نہیں۔
۲۵- مولانا علم اللہ اصلاحی اپنے کالم میں نئی تعلیمی پالیسی کے درج ذیل منفی پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے ڈرافٹ کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اب تمام اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھ میں آجائیں گے، جس کے مطابق حکومت تعلیمی سیکٹر کے لیے اپنی پبلک فنڈنگ آہستہ آہستہ ختم کردے گی، دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم وریسرچ پر قومی بجٹ کا ۶ فیصد خرچ کیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں ۲ فیصد بھی بجٹ نہیں دیا جاتا ہے۔
۲۶- اس پالیسی کے مطابق قدیم ہندوستانی ویدک تہذیب اور نالندہ کے طریقہ تعلیم کو رائج کرنے کی کوشش ہوگی، جس میں موسیقی اور رقص کی کلاسیں ایک ساتھ ہوں گی، سرسوتی پوجا یوگا، نیز ہندوانہ مذہبی تعلیمات کو لازمی طور پر شامل رکھنے کی بات مسودہ میں شامل ہے۔
تجاویز اور لائحہ عمل
ملک کے مختلف دانشوران اور ملی قائدین نے حالیہ تعلیمی پالیسی کے تناظر میں ملت ِاسلامیہ کے لیے مختلف تجاویز اور لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ کرنول سے تعلق رکھنے والے مولانا قاضی عبد الماجد نے درج ذیل تجاویز پیش کی ہیں:
۱- الحمد للہ پالیسی کی منظوری کے بعد سے مختلف تنظیموں،اداروں اور شخصیتوں کی جانب سے نئی تعلیمی پالیسی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے، کیرلا، تاملناڈواور مغربی بنگال جیسی ریاستوں نے سختی سے مخالفت کی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک متحدہ پریشر گروپ جس میں ہم خیال غیر مسلم دانشوران بھی ہوں، قائم کرکے وزیر اعظم اور وزیر تعلیم کے علاوہ نصاب تیار کرنے والی کمیٹی سے فوری نمائندگی کی جائے، کیوں کہ دستور ہند کی دفعہ ۳۱‘۳۰‘۲۹ کی خلاف ورزی کے قوی امکانات ہیں۔
۲- تمام ملی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے اپنی ملی تعلیمی پالیسی بنائی جائے جس میں درج ذیل پروگرام بھی شامل ہوں:
(الف) نئی تعلیمی پالیسی کے مضر اثرات کو واضح کرنے اور ہر فرد ِملت کو تحفظ دین پر آمادہ کرنے کے لیے علمائ، دانشوران، اساتذہ، اولیائے طلبہ اور نوجوانان ملت کی علیحدہ علیحدہ نشستیں پورے ملک میں منڈل واری سطح پر منعقد کی جائیں۔
(ب) توحید اور عقائد کے تحفظ کے لیے دلائل پر مبنی مکالمے، کہانیاں اور سچے واقعات پر مشتمل ایسا لٹریچر تیار کیا جائے جو سوشیل میڈیا پر بھی عام ہوسکے۔
(ج) عصری اداروں کے معلمین ومعلمات کی اس انداز سے تربیت کی جائے کہ وہ مشرکانہ اور ملحدانہ ماحول میں ایمان واعمال کا دفاع کر سکیں۔آج بھی کچھ معلمین ایسے ہیں جو گیتاکے اشلوک کے ذریعہ سورۃ الاخلاص اور آیۃ الکرسی کی تشریح کرتے ہیں۔
(د) ملک کی تمام مساجد میں بالغان اورچھوٹے بچے اور بچیوں کے مکاتب کے ساتھ ہر آبادی میں مکاتب نسواں کو قائم کرنا اور مستحکم کرنا ہم سب کا اولین فریضہ ہوجائے۔
۳- فکر وخبر پورٹل میں شائع ایک مضمون میں چند تجاویز پیش کی گئی ہیں جو قابل ملاحظہ ہیں:
۱- بھارت کا ہر شہری بلا تفریق مذہب وملت یہ حق رکھتا ہے کہ اسے دولت مند طبقہ کے مساوی تعلیم کے مواقع مہیا ہوں، اس ملک کی کثیر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، حکومت کے عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ گاؤں کے بچے بھی کم سے کم سینٹرل اسکول کے معیار کی تعلیم حاصل کرسکیں۔
۲- ملک کی مختلف ریاستوں میں بھانت بھانت کے سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں، ان ادارے کے بیشتر اساتذہ کا ٹیچنگ معیار ناگفتہ بہ ہے، انہی اساتذہ کے سبب ڈراپ آؤٹ کے واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں، کیوں کہ ان میں طلبہ کی تخلیقی صلاحیت کی شناخت کرنے کی لیاقت نہیں ہوتی، حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ ملک میں رہنے والے تمام علاقوں کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری تعلیم کو یقینی بنائے، تاکہ نالج سپر پاور ہونے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے، مختلف ریاستوں کے تعلیمی نظام پر بھی مرکزی حکومت خصوصی نگرانی کا اہتمام کرے۔
۳- تعلیمی پالیسی میں ایسے نکات کو جگہ نہ دی جائے جن سے علاقائی ولسانی منافرت کا خدشہ ہو۔
۴- نئی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان کو خصوصی اہمیت دی جائے، محض یوم مادری زبان کا اعلان کرنے سے ہم اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔
۵- ملک کے اساتذہ کی اکثریت ایک مخصوص قسم کی خود غرضی میں مبتلا ہے، جس میں عصبیت شامل ہے، ان اساتذہ کا نالج بیس محض نصاب تک محدود ہے، ایسی صورت میں بہتر تعلیمی پالیسی بھی کارگر نہیں ہوسکتی، جب تک اساتذہ کا تعلیمی واخلاقی معیار بلند نہیں ہوگا۔
۶- کسی بھی تعلیمی ادارے کا استاذ صرف ٹیچر نہیں ہوتا، بلکہ تربیت بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے، لہٰذا اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ان کا فریضہ ہے۔
۷- ملک میں یونیورسٹی کی سطح پر تحقیق کا معیار انتہائی پست ہے، لہٰذا ملک کی تمام یونیورسٹیز میں تحقیق کے روایتی معیار کو ترک کرکے ریسرچ کا معیار ایسے موضوعات کو بنایا جائے جو انسان کی عملی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں۔
۸- بھارت کو نالج سپر پاور بنانے کے لیے ملک میں میں صد فیصد تعلیمی انقلاب پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تعلیم میں تفوق کو ترجیح دی جائے یعنی صد فیصد تعلیم کے ساتھ کم سے کم ۳۰ فیصد ایسے نوجوان پیدا ہوں جن میں ہمہ جہت صلاحیت کے ساتھ ان کاتعلیمی معیار بین الاقوامی سطح پر Excellence کے درجہ پرہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×