سیاسی و سماجی

اسلامی مقدسات کے خلاف ناپاک گستاخانہ مہم کب تھمے گی؟

یورپ میں ایک بار پھر اسلاموفوبیا کا جن بوتل سے باہر آگیا ہے، اہل مغرب نے ایک بار پھر اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے، ایک بار پھر یورپ نے مسلمانوں کے دلوں پر آرے چلادئے ہیں، حالیہ عرصہ میں ناروے، فرانس، ڈنمارک اور سویڈن میں اسلامی مقدسات کے خلاف توہین آمیز جو گستاخانہ مہم چھیڑی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یورپ میں انسانیت، اخلاق رواداری اور مذہبی اقدار وروایات کی پاسداری نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، ایک بار پھر یورپ شدید اسلاموفوبیا کی لپیٹ میں آگیا ہے، اسلاموفوبیا کے شکار مریضانہ ذہنیت رکھنے والے انتہا پسند وقفہ وقفہ سے اسلامی مقدسات کو نشانہ بناتے رہتے ہیں، کبھی قرآن مقدس کی بے حرمتی کی جاتی ہے، تو کبھی ذات ِرسالت کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا جاتا ہے، بعض انتہا پسند حضرات صحابہ اور خلفاء راشدین پر کیچر اُچھال کر اپنے دل کو تسکین پہونچاتے ہیں، ناروے میں اسلاموفوبیا کے شکار عالمی شرپسندوں نے ایک اسلام مخالف ریلی کا انعقاد عمل میں لایا، ریلی میں شامل ایک خاتون نے سر عام قرآن مجید کی بے حرمتی کی، لیکن مقامی انتظامیہ کے سر پر جوں تک نہ رینگی، وہ خاموش تماشائی بنی رہی، دوسری جانب فرانس کے بدنام زمانہ میگزین چارلی ہبڈو نے ایک بار پھر ناپاک جسارت کرتے ہوئے مدنی کریم ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کئے، یہ وہی ناپاک فرانسیسی میگزین ہے جس نے ۲۰۱۵ء میں بھی اسی قسم کی ناپاک حرکت کی تھی، جس کے نتیجہ میں اس کے دفتر پر حملہ بھی ہوا تھا، جس میں بدبخت کارٹونسٹ کے بشمول ۱۲ ؍افر اد ہلاک ہوئے تھے، اور اس کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
اسلام کے حوالہ سے شدید بغض وعناد رکھنے والے مغربی حکمرانوں نے اظہار ِرائے کی آزادی قرار دے کر نہ صرف اس قسم کے واقعات سے آنکھیں موند لی تھیں، بلکہ ناپاک میگزین کی حوصلہ افزائی بھی کی تھی، پوپ فرانسیس کے علاوہ کسی نے اس ناپاک حرکت کی مذمت نہیں کی، البتہ پوپ فرانسیس نے اس وقت گستاخانہ خاکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے ہمیشہ آزادیٔ اظہار رائے کی حمایت کی ہے، لیکن کسی بھی مذہب کا مذاق اڑانا اچھا فعل نہیں، پوپ کے اس بیان پر نہ صرف عیسائی مذہب کے بہت سے پیروکاروں نے پوپ سے ناراضگی کااظہار کیا تھا بلکہ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پوپ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پوپ کے بیان سے متفق نہیں ہیں، کیوں کہ میڈیا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر قسم کا مواد شائع کرے، چاہے وہ توہین آمیز ہی کیوں نہ ہو۔
حالیہ عرصہ میں دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے میگزین چارلی ہبڈو کے اداریہ میں اس کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ’’۲۰۱۵ء میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد انھیں پیغمبر اسلامﷺ کے خاکے دوبارہ شائع کرنے کے لیے بار بار اصرار کیا گیا، مگر ہم ایسا کرنے سے انکار کرتے رہے، اس لیے نہیں کہ اس پر کوئی ممانعت تھی، قانون ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے، لیکن ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، جس سے اس بحث میں اضافہ ہوسکے، لیکن اب ۲۰۱۵ء کے دہشت گردوں کا مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ان خاکوں کو (نعوذ باللہ) دوبارہ شائع کرنا ضروری تھا‘‘۔چارلی ہبڈو کے اس اقرار سے سمجھا جا سکتا ہے کہ انتہا پسند اہل مغرب کے دلوں کو ایسی ناپاک حرکتوں سے کس قدر تسکین حاصل ہوتی ہے، میگزین کی طرف سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ قانونی طور پر خاکے شائع کرسکتے ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مغربی ممالک کسی بھی دوسرے مذہب اور مذہی شخصیات کی توہین کی ا جازت دیتے ہیں، مغرب بظاہر کسی بھی مذہبی شخصیت کی شان میں گستاخی کو اظہار رائے کی آزادی کے تحت جائز قرار دینے کا تأثر دیتا ہے، جب کہ حققت یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کو اہل مغرب سارے مذاہب کے خلاف استعمال نہیں کرتے، بلکہ صرف اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے لیے اظہار ِرائے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے تعلق سے مغرب کو کسی قسم کی گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھاگیا، ہندو ازم دنیا کا ایک معروف مذہب ہے جس کے عقائد ونظریات انتہائی غیر معقول ہیں، اس مذہب کے پیروکار ہزاروں بتوں کی پرستش کرتے ہیں، لیکن کبھی نہیں دیکھا گیا کہ اہل مغرب نے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ہندوازم کے دیوی دیوتاؤں کی توہین کی ہو، رسول اللہﷺ کی گیارہ شادیوں کو اہل مغرب خوب ہدف ِتنقید بناتے ہیں، لیکن ہندومذہبی شخصیت سری کرشن جی کی گیارہ ہزار سے زائد بیویاں تھیں اس پر مغرب نے کبھی طنزیہ تیر نہیں چلائے، اہل مغرب کو اسلام کے تصور جہاد پر سخت اعتراض ہے، جس کو بنیاد بنا کر وہ اسلام کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں، اس کے برخلاف انھوں نے اس ہندومت پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی، جس میں جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ مغرب اظہار رائے کی آزادی کو صرف اسلام کے خلاف استعمال کرتا ہے، اسے اسلام سے خدا واسطے کا بیر ہے، مغربی دنیا پیغمبر اسلام کو ایک اہم ترین تاریخی شخصیت تو مانتی ہے لیکن آپ کو خدا کا پیغمبر تسلیم نہیں کرتی۔
گستاخ چارلی ہبڈو کی حالیہ ناپاک جسارت پر فرانس کے صدر عما نویل ماکرون کا جو رد عمل آیا ہے اس سے ان کی اسلام دشمنی کا کھلا اظہار ہوتا ہے، ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ’’ فرانس میں رہنے والوں نے ملک کی شہریت حاصل کرتے وقت فرانسیسی قوانین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے، چنانچہ انھیں کسی صورت میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو فرانس کے قوانین کے خلاف ہوں، مسلمانوں کو پیغمبر اسلام کے کارٹونوں کو بہر حال برداشت کرنا ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ فرانس کی حکومت اپنے شہریوں کو طنز ومزاح اور تنقید کی پوری آزادی دیتی ہے، اور اسے فنکاروں کا حق سمجھتی ہے‘‘ صدر فرانس کے اس بیان کے ایک ایک جملہ سے اسلام دشمنی جھلک رہی ہے، واقعہ یہ ہے کہ مغرب اسلام کو اپنا کٹر حریف سمجھتا ہے، مغربی دانشوروں کو یقین ہے کہ اسلامی تہذیب ہی واحد تہذیب ہے جو مغربی تہذیب کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، اسلامی مقدسات کی بار بار توہین کرکے مغرب مسلمانوں کا اسلام اور پیغمبر اسلام سے رشتہ کمزور کرنا چاہتا ہے، مگر اہل مغرب کو شاید اس کا علم نہیں ہے کہ مسلمان دنیا کی ہر چیز سے دست بردار ہوسکتا ہے لیکن نبی کریمﷺ سے اس کو جو عقیدت ومحبت ہے اسے کسی قیمت پر قربان نہیں کرسکتا، پاکستان کے ایک کالم نگار کے ساتھ پیش آئے ایک واقعہ سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، پاکستان کے ایک کالم نگار فرانس کے دورے پر تشریف لے گئے، وہاں وہ ایک لائبریری میں کتابوں کا جائزہ لے رہے تھے کہ اتنے میں ایک داڑھی والا شخص انھیں غور سے دیکھ رہا تھا، کالم نگار مذکور لکھتے ہیں کہ میں اٹھ کر اس کے پاس جا بیٹھا، اور میں نے اس سے پوچھاکیا آپ مسلمان ہیں؟ اس نے مسکرا کر جواب دیا: ’’ نہیں میںجارڈن کا یہودی ہوں، میں ربی ہوں، اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کررہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا :تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کررہے ہو؟ وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا ’’میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کررہا ہوں‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا: تمہاری ریسرچ کہاں تک پہونچی ہے؟ اس نے کافی کا لمبا سپ لیا، اور بولا’’ میری ریسرچ مکمل ہوچکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا: ’’تمہاری ریسرچ کی فائینڈنگ کیا ہے؟‘‘ اس نے لمبا سانس لیا، دائیں بائیں دیکھا، گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا’’ میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں، یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کرجاتے ہیں، لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی ہر گز برداشت نہیں کرتے‘‘ یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا، میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا، وہ بولا:’’میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرمﷺ کی ذات تھی، آپ ان کی مسجد پر قبضہ کرلیں، آپ ان کی حکومتیں ختم کرلیں، آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگادیں، یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں، یہ برداشت کرجائیں گے، لیکن آپ جونہی ان کے رسول اللہﷺ کا نام غلط لہجہ میں لیں گے یہ تڑپ اٹھیں گے، اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوں یا فرعون، آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا ، وہ بولا: ’’میری فائینڈنگ ہے کہ جس دن مسلمانوں کے دل میں رسول اللہﷺ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہوجائے گا، چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا، اپنا کپڑا تھیلا اٹھایا، اور اٹھ کر چلا گیا، اس واقعہ کو ذکر کرکے مذکورہ کالم نگار لکھتے ہیںکہ میںاس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں، میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں، کیوں کہ میں اس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا، میں جان گیا کہ رسول اللہﷺ سے محبت اسلام کی روح ہے، اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے، جس دن یہ روح ختم ہوجائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا‘‘۔
اسلامی مقدسات کے خلاف ناپاک مہم تواتر کے ساتھ جاری ہے، تازہ واقعہ سویڈن میں پیش آیا، ڈنمارک کے انتہا پسند گروپ کے ارکان نے سویڈن میں قرآن مقدس کا ایک نسخہ نذر آتش کردیا، کٹر پسند گروپ کے لیڈر نے ایک ویڈیو پوسٹ کیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص قرآن مقدس کو نذر آتش کررہا ہے، یہ واقعہ سویڈن کے کے رنکے بے شہر میں پیش آیا، اس ناپاک حرکت کے مجرم کا نام اسٹرم کرس ہے، فیس بک پر اس واقعہ کو پیش کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اب تک کئی مجرموں کا کہنا تھا کہ ہم مقدس کتاب کو نذر آتش ہرگز نہیں کرسکیں گے، لیکن ہم نے یہ کام انجام دیا ہے، مزید لکھا گیا ہے کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے، جس کے لیے ڈنمارک میں کوئی جگہ نہیں ہے، ڈنمارک ہو یا سویڈن یا کوئی اور مہذب سماج کا شہر اس میں اسلام کے وجود کو ہی ختم کردیا جائے گا۔مذکورہ انتہا پسند گروپ نے پولیس سے قرآن مجید نذر آتش کرنے کی اجازت طلب کی تھی، لیکن پولیس نے ان کی درخواست کو مسترد کردیا تھا، قرآن پاک کی بے حرمتی کا حالیہ تازہ واقعہ ان اطلاعات کے درمیان سامنے آیاجس میں اسلام دشمن تنظیموں نے ۱۲؍ ستمبر ۲۰۲۰ء کو اسٹاک ہوم کے پانچ مضافات میں زیادہ سے زیادہ مظاہروں کا منصوبہ بنایاہے،ایک ہفتہ قبل انتہا پسند کارکنوں نے روسن گارڈ میںبھی قرآن پاک کے ایک نسخہ کو جلایاتھا، گذشتہ سال بھی ایک انتہا پسند نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی تھی۔
اس قسم کے واقعات اس بغض وعداوت کی نشاندہی کر تے ہیں جس سے اہل مغرب کے سینے بھر ے ہوئے ہیں، قرآن مقدس اللہ تعالیٰ کی واحد آسمانی کتاب ہے جو اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے، یہ صرف مسلمانوں کی نہیںبلکہ ساری انسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے، کسی بھی آسمانی کتاب کے تقدس کو پامال کرنا انتہا درجہ کی مجرمانہ حرکت ہے، اسلامی مقدسات کے خلاف اہل مغرب کی ان ناپاک جسارتوں کے تناظر میں مسلمانوں کی ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے، خود ہمارے ملک میں نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخی صحابہ اور خلفائے راشدین کو نشانہ بنانے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے، اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کو درج ذیل نکات پر توجہ دینا ضروری ہے:
۱- اس قسم کے واقعات کا اصل مقصد اسلام،پیغمبر اسلام اور قرآن مجید سے مسلمانوں کا رشتہ کمزور کرنا ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام سے رشتہ کو مزید مضبوط کریں، تاکہ دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوجائیں۔
۲- اس قسم کے واقعات پر جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیاجائے کہ کہیں ہمارے کسی جذباتی رد عمل سے دشمنوں کو موقع نہ مل جائے۔
۳- مسلم ممالک متحدہ طور پر کوشش کرتے ہوئے کسی بھی مذہبی مقدسات کے خلاف گستاخی کو ممنوع قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ پر قانون سازی کے لیے دباؤ بنائیں۔
۴- حب ّرسول ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے، آج امت ِمسلمہ اس عظیم سرمایہ سے محروم ہوتی جارہی ہے، اس کے لیے عملی اقدامات کئے جائیں۔
۵- غیر مسلموں میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن مجید کے تعلق سے جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ان کے ازالہ کی کوشش کی جائے۔
۶- دنیا کی مختلف زبانوں میں تعارف اسلام وتعارف نبوی ﷺ پر مشتمل لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔
۷- اکثر مسلمان شانِ رسالت میں گستاخی یا قرآن کے نذر آتش کئے جانے کی ویڈیوز کو زیادہ سے زیادہ شیئر کرنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں، جس سے دشمنوں کا مقصد پورا ہوتا ہے، خود مسلمان ایسی ناپاک ویڈیوز کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنتے ہیں، اس قسم کی ویڈیوز کو آگے بڑھانے کے بجائے ڈیلٹ کردینا چاہئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×