سیاسی و سماجی

ملک کی موجودہ صورت ِحال — کرنے کے چند کام

اس وقت پورا ملک این آرسی کے مسئلہ سے جوجھ رہاہے، ملک بھر میں احتجاج اور دھرنوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے، دہلی کی شدید سردی بھی ان کے عزم آہنی کے آگے قاصر نظر آرہی ہے، ایک طرف احتجاج کی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور ملک کے بیشتر طبقات احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں، دوسری جانب حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے، بلکہ حکمرانوں کی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا جارہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں سیاہ قانون کو واپس نہیں لیں گے، تازہ صورت حال بتاتی ہے کہ حکومت نے طاقت کے بل پر احتجاج کو کچلنے کا پروگرام بنالیا ہے، دہلی لیفٹنٹ گورنر کی جانب سے پولیس کو دئے گئے زائد اختیارات کا حالیہ فیصلہ اسی سلسلہ کی پہل ہے۔
این آرسی کے دو مختلف زاوے ہیں: اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس کے اثرات سے پورا ملک متأثر ہوگا، یہ در اصل ملک کے دستور پر حملہ ہے، ملکی معیشت پر اس کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے، اس نئے قانون سے جہاں مسلمانوں پر آفت آئے گی وہیں ایس ٹی ایس سی اور آدی واسی بھی پوری طرح متأثر ہوں گے۔ این آرسی کا دوسرا پہلو خاص مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے، یہ مسلمانوں کے لیے وجود وبقاء کا مسئلہ ہے، یہ در اصل انھیں دین اسلام سے دست بردار کروانے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے، این آرسی کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے براہ راست دین وایمان سے جڑا ہوا ہے، اس لیے این آر سی پر مسلمانوں کا شدید تشویش سے دوچار ہونا فطر ی ہے، این آر سی کے نتیجہ میں پیدا موجودہ صورت ِحال کے تناظر میں ملت ِاسلامیہ کو چند نکات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
۱- اس وقت سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات سے باہر نکالا جائے، مسلمان شدید خوف میں مبتلا ہیں، حتی کہ بعضے مسلمان نفسیاتی امراض کا بھی شکار ہورہے ہیں، علماء اور عمائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملت کے عام افراد کو خوف وحراس کی سوچ سے باہر نکالیں، بحیثیت مسلمان ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ خوف اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے، مومن سب کچھ ہوسکتا ہے مگر بزدل نہیں ہوتا، اس لیے کہ مومن اللہ پر ایمان رکھتا ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نفع ونقصان، عزت وذلت اور کاموں کے بنانے اور بگاڑنے کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے، مخلوق سراپا احتیاج ہے، جو خود محتاج ہو وہ دوسروں کی تقدیر کا فیصلہ کیسے کرسکتی ہے، اگر ساری دنیا مل کر کسی کو نقصان پہونچانا چاہے اور خدا کا منشأ نہ ہو تو ساری دنیا اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی، صاحب اقتدار لوگ ہم ہی جیسے انسان ہیں، وہ اس وقت تک اپنے تخریبی مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک خدا کی مرضی شامل نہ ہو، مومن حالات سے اس لیے بھی نہیں گھبراتا کہ اس کا عقیدہ تقدیر پر پختہ یقین ہوتا ہے، مومن کا ایقان ہے کہ آدمی کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو اللہ کے پاس طے ہے۔علاوہ ازیں اہل ایمان کا یہ بھی یقین ہے کہ دین اسلام دنیا میں مٹنے کے لیے نہیں آیا ہے بلکہ یہ دین غالب ہونے کے لیے آیا ہے، قرآن میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے: اسی خدا نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو سارے ادیان پر غالب کرے، قرآن وسنت میں بیشتر مقامات پر اسلام کے روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی گئی ہے، دنیا کی ساری طاقتیں بھی اسے مٹا نہیں سکتی، کسی این آر سی یا سیاہ قوانین لا کر اگر دشمن اسلام کو ملک سے مٹانا چاہیں تو ان کا یہ خواب صبح قیامت تک پورا نہیں ہوسکتا، اس کے علاوہ مسلمانوں کو یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ مرے ہوئے سانپ کو کوئی نہیں چھیڑتا، مسلمان ایک زندہ قوم ہے اس کے پاس ایمان وعقیدہ کی طاقت ہے، اور اخلاق کی طاقت ہے، دشمن کو خدشہ ہے کہ یہ قوم مستقبل میں ہمارے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
۲- مسلمانوں کو این آر سی سے اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ این آر سی کا حربہ ان کے لیے کوئی نیا نہیں ہے، کفر کی طاقتوں نے ہر دور میں اہل ایمان کو ختم کرنے کے لیے شہریت ترمیمی قانون کا حربہ استعمال کیا ہے، پچھلے انبیاء کے زمانہ میں اکثر ایسا ہوا کہ مسلمانوں کو ایمان سے ہٹانے کے لیے انھیں ملک سے نکال باہر کرنے کی دھمکی دی گئی، اور صاف کہہ دیا گیا کہ یا تو کفر میں لوٹ جاؤ یا ملک سے نکل جاؤ، گذشتہ اقوام کی جانب سے اپنائے گئے اس حربہ کا ذکر کرتے ہوئے سورہ ابراہیم میں ارشاد ہے: ’’اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم ضرور تمہیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا پھرآپ لوگ پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ، پس ان کے رب نے ان کے رسولوں کو وحی کیا کہ اے پیغمبرو! ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کردیں گے اور تمہیں سرزمین میں ٹھہرائیں گے‘‘عہد رسالت میں کفار مکہ نے بھی صحابہ کے خلاف شہریت ختم کرنے کا حربہ استعمال کیا،اور صاف کہا کہ یا تو ہمارے دین میں لوٹ آؤ یہ پھر مکہ سے نکلنے کے لیے تیار ہوجاؤ، این آر سی کا بنیادی مقصدمسلمانوں کودین حق چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے،گذشتہ دنوں وارانسی میں جگہ جگہ ایک پوسٹر چسپاں کردیا گیا ہے جس میں یہ تحریر ہے کہ ’’ہندو دھرم میں گھر واپسی کرو اور سی اے اے اور این آر سی سے چھٹکارا پاؤ‘‘
۳- موجودہ حالات میں مسلمانوںمیں دین پر ثابت قدمی اور استقامت کی رو ح پھونکنے کی زیادہ ضرورت ہے، اب ملک میں مسلمانوں کے لیے دین کے حوالہ سے مسلسل آزمائشیں آتی رہیں گی، ساحلی علاقوں میں جہاں غربت زدہ مسلمان چند روپیوں کے لیے عیسائیت قبول کرنے کے لیے آمادہ ہورہے ہیں انھیں جب پتہ چلے گا کہ مسلمان رہ کر ملکی شہریت باقی نہیں رکھی جاسکتی تو وہ آسانی کے ساتھ حراستی کیمپوں سے بچنے کے لیے دوسرا مذہب اختیار کرلیں گے، موجودہ آزمائشوں کا مقابلہ وہی مسلمان کرسکتے ہیں جن کے دلوں میں پہاڑ جیسا مضبوط ایمان ہو،اس لیے علماء اور داعیان دین کی جانب سے عام مسلمانوں میں دین وایمان کی پختگی پیدا کرنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، افسوس ہے کہ اس وقت عام مسلمانوں کو ملک سے نکلنے کی فکر تو خوب ستا رہی ہے؛ لیکن اس بات کی فکر نہیں کہ کہیں دین وایمان سے نہ نکل جائیں، اس وقت سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ کہیں شہریت کے ختم ہونے کے خوف سے مسلمان مرتد نہ ہوجائیں، ارتداد کے متوقع سیلاب کے آگے مضبوط بندھ باندھنے کے لیے عام مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنا نہایت ضروری ہے۔
۴- یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس وقت بی جے پی جو کچھ سیاہ قوانین لارہی ہے اس کی اصل محرک آر ایس ایس ہے، بی جے پی در اصل آر ایس ایس کی سیاسی ونگ ہے، موجودہ حکمراں طبقہ ہر حال میں آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کا پابند ہے، اور آر ایس ایس کا ایجنڈا جگ ظاہر ہے کہ وہ ملک کو برہمن راشٹر بنانا چاہتی ہے، آر ایس ایس کی بنیاد ہی نفرت وتعصب اور مسلمانوں اور پسماندہ طبقات سے عداوت پر قائم ہے، آر ایس ایس کے عزائم انتہائی خطرناک ہیں، اس وقت این آر سی کے خلاف بنی فضا کی وجہ سے پورا ملک آر ایس ایس کی حقیقت سے واقف ہوتا جارہا ہے، موجودہ آر ایس ایس مخالف فضاسے فائدہ اٹھاتے ہوئے ضرورت ہے کہ ملکی عوام کو آر ایس ایس کے فسطائی اور دستور مخالف عزائم سے واقف کرایا جائے، موجودہ لڑائی در اصل نظریاتی لڑائی ہے، جب تک آر ایس ایس کو بے نقاب کرکے عوام کو اس کے ناپاک عزائم سے آگاہ نہیں کیا جاتا تب تک سیاہ قوانین کا سلسلہ موقوف نہیں ہوگا، اس کے لیے مسلمانوں سمیت ایس ٹی ایس سی سکھ عیسائی وغیرہ تمام طبقات کو آر ایس ایس کے خلاف متحد ہونا ضروری ہے، خوش آئند بات ہے کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے اس حوالہ سے اقلیتوں اور پسماندہ طبقات میں شعور بیدار ہورہا ہے، بام سیف جیسی تنظیمیں عملا سرگرم ہیں، اس میں شک نہیں ہے کہ اس ملک کا اصل مسئلہ برہمن ازم ہے، مٹھی بھر برہمن یہودیوں کی طرح اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں، جب تک ملک سے برہمن ازم کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تک امن وسکون اور دستور کی حفاظت ممکن نہیں، برہمن ازم کا خاتمہ آر ایس ایس کے بغیر ممکن نہیں، آر ایس ایس خود کو ایک ثقافتی تنظیم کے طور پر متعارف کرتی ہے، لیکن دیش بھگتی کی آڑ میں وہ سب کچھ کرتی ہے، جو ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے، آر ایس ایس کی جڑیں کس قدر گہری ہیں اور اس کا نیٹ ورک کس قدر پھیلا ہوا ہے اس کا اندازہ موہن بھاگوت کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ہنگامی صورت حال میںان کی تنظیم تین دن سے بھی کم وقفہ میں ۲۰ لاکھ سیوکوں (کارکنوں) کوجمع کرکے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، گویا بھاگوت یہ تأثر دینا چاہتے ہیں کہ آر ایس ایس کی تنظیمی صلاحیت فوج سے بدرجہا بہتر ہے، آر ایس ایس کی بنیاد فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر قائم ہے، ایک دلت شخصیت رام کمار کی تحقیق کے مطابق اس وقت آر ایس ایس کی کل شاکھاؤں کی تعداد ۸۴۸۷۷ہے، جو ملک وبیرون ملک کے مختلف مقامات پر انتہا پسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کرہی ہے، ۲۰ سے ۳۵سال کی عمر کے تقریباً ایک لاکھ نوجوانوں نے پچھلے ایک سال میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کرلی ہے، نیز آر ایس ایس ہندوستان میں تقریباً ۸۸ فیصد بلاک میں اپنی شاکھاؤں کے ذریعہ رسائی حاصل کرچکی ہے، گذشتہ ایک سال میں آر ایس ایس نے ۱۱۳۴۲۱تربیت یافتہ سویم سیوک سنگھ تیار کئے ہیں، ہندوستان سے باہر ۳۹ ممالک میں ان کی شاکھائیں کام کررہی ہیں، آر ایس ایس کی ایک لاکھ شاخوں میں پندرہ کروڑ خدمات انجام دینے والے ہیں، اسی طرح ایک لاکھ سرسوتی تعلیمی مندروں میں کم وبیش ایک کروڑ طلبہ ہیں، آر ایس ایس کی بھارتیہ مزدور سنگھ کے اراکین دو کروڑ ہیں، طلبہ تنظیم اے بی وی پی کے جوانوں کی تعداد ایک کروڑ ہے، نیز وشوا ہندو پریشد کے اراکین ایک کروڑ ہیں، اور بجرنگ دل کے ۳۰ لاکھ ہیں، آر ایس ایس کے پاس ۱۲۰۰ اشاعتی ادارے مختلف رسالے اور اخبارات نکالتے ہیں، آر ایس ایس کے تقریباً ۱۰ لاکھ افراد نے مذہب کی حفاظت کے لیے تا حیات غیر شادی شادہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے، ہندوستان کی تقریباً سبھی مندروں سے آر ایس ایس کے لیے پیسہ اکٹھا کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ بیرونی ممالک سے بھی بے حساب فنڈ آر ایس ایس کے کھاتوں میں جمع ہوتا ہے،اس قدر مضبوط ڈھانچہ رکھنے والی تنظیم کی تخریب کاری سے ملک اور عوام کو بچانے کے لیے کس قسم کے اسباب ووسائل کی ضرورت ہے،اور کس قدر گہری اور جامع منصوبہ بندی نا گزیر ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، ملک کا اصل ناسور یہی فرقہ پرست ،دستور مخالف اور ملک دشمن تحریک ہے، بنیادی طور پر آر ایس ایس دستور ہند کو بدلنا چاہتی ہے، این آر آسی کا نفاذ در اصل اسی کا پیش خیمہ ہے، ملک کے موجودہ حالات آر ایس ایس کے خلاف رائے عامہ کی تبدیلی کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔
۵- این آر سی کے خلاف جاری موجودہ تحریک کی کامیابی کے لیے تین نکات پر خصوصی توجہ ضروری ہے:(۱)ملک کے ہر ہر فرد کو گھر گھر پہونچ کر این آرسی کے نقصانات سے واقف کرایا جائے۔(۲)احتجاج کا موجودہ سلسلہ پوری قوت کے ساتھ آخری وقت تک جاری ر ہے۔(۳) احتجاج میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم بھائیوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے، جہاں تک پہلے نکتہ کا تعلق ہے وہ اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ شدید احتجاج اور شور اور ہنگاموں کے باوجود اب بھی ملک کا ایک بڑا طبقہ این آر سی کے تعلق سے غفلت وبے خبری کا شکار ہے، بعض غیر مسلم برادران وطن فرقہ پرستوں کی چال بازیوں کو سچ سمجھ رہے ہیں، ان کے خیال میں این آر سی کا مقصد چند پڑوسی ممالک کے مظلوموں کو پناہ دینا ہے، اور بعض یہ سمجھتے ہیں کہ این آر سی صرف مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے، اس میں ہمارا یا ملک کا کوئی نقصان نہیں ہے، غیر مسلم برادران وطن کو گھر گھر پہونچ کر بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ قانون صرف مسلمانوں ہی کے خلاف نہیں بلکہ اس کا نقصان ملک اور اس کے سارے باشندوں کو ہوگا، یہ قانون ملک کے دستور کے خلاف ہے،اس لیے کہ یہ دستور کی دفعات ۱۴‘۱۵ سے ٹکراتا ہے، جو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتی، نیز یہ قانون ہندوستان کے سیکولر ڈھانچہ سے بھی ٹکراتا ہے، اس لیے کہ ملک کو آزادی دلانے والے قائدین نے روز اول سے اس ملک کو سیکولر رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، اور یہ طے کیا تھا کہ یہاں تمام مذاہب والوں کو اپنے مذہب پر عمل کی پوری آزادی ہوگی۔علاوہ ازیں این آر سی کے نتیجہ میں ملک کی سلامتی بھی متأثر ہوسکتی ہے، اس لیے کہ جب این آر سی کے نام پر ایک خاص مذہب کے پیروکاروں کو شہریت سے محروم کردیا جائے گا تو لامحالہ ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگی، نیز جن تین ملکوں کے لوگوں کو پناہ دی جائے گی وہ بھارت کی سالمیت کو خطرات سے دوچار کرسکتے ہیں، یہ سیاہ قانون ملک کی جمہوری قدروں سے بھی متصادم ہے، چونکہ یہ ملک کی ایک بڑی آبادی کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی سازش ہے، اتنا ہی نہیں اس قانون کے نتیجہ میں ملک بھر میں رشوت اور بدعنوانی کا بازار گرم ہونے کا اندیشہ ہے، کاغذات بنانے کے لیے سرکاری افسرخوب رشوت کا مطالبہ کرنے لگیں گے، اس سے ہٹ کر اس قانون کا سب سے زیادہ منفی اثر ملک کی معیشت پر پڑے گا، پہلے سے کنگال معیشت مزید ابتری کا شکار ہوگی، اس لیے کہ این آر سی کے نفاذ کے لیے حکومت کو کروڑوں کا بجٹ مختص کرنا ہوگا، اس قانون کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ اس سے ملک کا غریب طبقہ چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم سب سے زیادہ پریشان ہوگا، ملک میں ایسے غریبوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے پاس نہ زمین ہے اور نہ کاغذ۱ت، وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوں گے، قانون کے نفاذ کی صورت میں کاغذات کی فراہمی اور ان کی درستگی کے مراحل اس قدر دشوار ہوں گے کہ اس سے امیر وغریب ،مسلم وغیر مسلم سب کو پریشان ہونا پڑے گا، جو غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اس قانون سے کوئی دھکا نہیں ہوگا وہ آسام میں لاگو کی گئی این آر سی کے نتائج کو سامنے رکھیں کہ کس طرح وہاں حکومت نے انھیں پریشان کیا، آسام کے ایسے بہت سے غیر مسلموں کے تأثرات سوشیل میڈیا پر بھی دیکھے جاسکتے ہیںجو این آر سی میں نام نہ آنے پر در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، این آر سی سے خارج ہونے والے غیر مسلموں کے لیے اگرچہ سی اے اے کے ذریعہ شہریت کی گنجائش رکھی گئی ہے لیکن جب تک سی اے اے کے ذریعہ انھیں شہریت نہیں ملتی وہ غیر قانونی شہری کہلائیں گے، اس دوران حکومت کو ان کی جائیداد ضبط کرنے کا حق حاصل رہے گا، سی اے اے کے ذریعہ جب انھیں دوبارہ شہریت ملے گی تو حکومت ان کی جائیداد لوٹانے کی پا بند نہ ہوگی،بلکہ این آر سی کے نفاذ کی صورت میں عوام کو قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، مثلاً ہر بینک کو یہ ہدایت ہوگی کہ بغیر این آر سی نمبر کے بینک نکاسی نہ کی جائے، آپ سر پٹک کر مرجائیں گے لیکن اپنی رقم نہیں نکال پائیں گے، اسی طرح ہوائی سفر کے دوران بھی این آر سی نمبر درکار ہوگا، نیز سرکاری وغیر سرکاری اسپتالوں میں بغیر این آر سی نمبر دکھائے علاج نہیں ہوگا، سرکاری وغیر سرکاری اسکول وکالج میں بچوں کا داخلہ شہریت ثبوت کے بغیر نہیں ہوسکے گا، حتی کہ لین دین یا سم وغیرہ لینے کا معاملہ بھی شہریت ثبوت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا، آپ اگر کوئی فلیٹ خریدنا یا فروخت کرنا چاہیں تب بھی این آر سی نمبر درکار ہوگا، یہ ساری دشواریاں مسلم وغیر مسلم، امیر وغریب سبھی کو در پیش ہوں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×