سیاسی و سماجی

تندئ باد ِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ملک کے عام مسلمانوں میں مایوسی کی ایک لہر دوڑگئی ہے ہر شخص کی زبان پر یہی رٹ ہے کہ اب مسلمانون کا کیا ہوگا گزشتہ چار سالہ کارکردگی کی روشنی میں انتخابی نتائج انتہائی غیر متوقع تھے مودی سرکار کی ہر محا ذپر ناکامی کو دیکھ کر ہر شخص یہی یقین کر رہا تھا کہ اس بارعوام مودی کو مسترد کردے گی یا کم از کم بی،جے،پی اکثریت سے محروم رہے گی لیکن نتائج نے ساری توقعات پر پانی پھیر دیا اور بی،جے،پی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار پر لوٹ آئی۔ بی جے پی پی کی کامیابی کا بنیادی سبب پلوامہ حملہ اور اس کے بعد کی صورتِ حا ل ہے جس نے رائے عامہ کو بدل کر رکھ دیا اور بی،جے،پی کی ساری ناکامیوں پر پردہ ڈال دیا ملک جان گیا کہ پلوامہ حملہ انتخابات سے عین قبل ایک منصوبہ بند کارروائی تھی یہ اس لئے کروایا گیا کہ مودی حکومت کیلئے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔
مابعد ِ انتخابات مسلم امہ کی صورت ِحال انتہائی تشویشناک ہے عام مسلمان شدید مایوسی کا شکار ہیں بعض ناداں بی،جے،پی کے مقابلے میں سیکولر جماعتوں کی شکست کو اسلام کی شکست اور کفر کے مقابلے میں حق کی شکست قرار دے رہے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے یہ کفر کے مقابل اسلام کی شکست نہیں بلکہ فرقہ پرستوں کے مقابل سیکولر جماعتوں کی شکست ہے جو دراصل پورے ملک کا نقصان ہے ملک میں سیکولرازم کی بقا ء اور سیکولر جماعتوں کو برسر ِاقتدار لانے کے ذمہ دار صرف مسلمان نہیں ہیں یہ تو ملک کے سارے باشندوں کی ذمہ داری ہے اس لئے کہ ملک کی بقاء اوراستحکام اس کی ہمہ رنگی شناخت اور اس کے سیکولر دستور سے ہے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کسی بھی طرح کی کوشش اس کے حصے بخرے کرنے کے مترادف ہے جہاں تک بی،جے،پی اقتدار کے مسلم اقلیت پر پڑنے والے منفی اثرات کا تعلق ہے تو اس سے مسلمانوں کو حوصلہ نہیں ہار نا چاہئے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ملت ِاسلامیہ نازک گھڑی سے گزررہی ہو ملت ِ اسلامیہ کی تاریخ میں ایسے نازک لمحات بارہا آچکے ہیں آزادی کے بعد کی صورت ِحال کچھ کم صبر آزما نہیں تھی؟ پولیس ایکشن کوئی معمولی سانحہ نہیں تھا؟ پھر مجموعی حیثیت سے تا ریخ کے مختلف ادوار میں مسلمان جن سانحات سے گزرے وہ کچھ کم لرزہ خیز نہیں تھے؟ بغداد پر تاتاریوں کاحملہ اس قدر تباہ کن تھا کہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے ہمیشہ کے لئے مٹ جانے کا یقین کرچکے تھے، اس دور کے بعض اہل علم اس بات کا اظہار کرچکے تھے کہ اب مسلمان ہمیشہ کے لئے صفحہئ ہستی سے مٹ جائیں گے، چند دنوں میں لاکھوں مسلمان شہید کردئے گئے، دریائے دجلہ کا پانی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو چکا تھا لیکن دنیا نے دیکھا کہ اسلام پھر سے پوری قوت کے ساتھ ابھرا خود تاتاری داخل ِ اسلام ہوکر شوکت اسلام کا سبب بنے، جب تک ملک کا آئین سلامت ہے اور سپریم کورٹ کی آزادی برقرار ہے فرقہ پرست اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے خدا کی عظیم قدرت پر یقین رکھنے والا مسلمان کبھی مایوس نہیں ہو سکتا قرآنِ مجید میں صحابہ کی شان یہ بتلائی گئی ہے کہ جب انہیں دشمنوں سے ڈرایا جاتا اور ان سے کہا جاتا کہ دشمن تمہیں ختم کرنے کیلئے اکٹھا ہورہے ہیں،تو یہ صورت ِحا ل انہیں خوف زدہ کرنے کے بجائے ان کے ایمان اورتوکل میں مزید اضافہ کا سبب بنتی لیکن مایوس نہ ہونے کے یہ معنی نہیں ہے کہ ہم فرقہ پرست دشمنوں سے بالکل بے خوف ہوجائیں اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کے عزائم سے بالکل بے خبر رہیں۔
بی،جے،پی کا ریموٹ کنٹرول آر،ایس،ایس کے ہاتھ میں ہے،اور مسلمانوں اور ملک کی دیگر اقلیتوں کے تعلق سے آر، ایس، ایس کے عزائم کس قدر خطرناک ہیں،اس کے اظہار کی چنداں ضرورت نہیں۔ آر ایس ایس کا اولین نشانہ ملک کا سیکولر دستور ہے جو ملک کے تمام باشندوں کو ہر قسم کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے بالخصوص اقلیتوں کو مکمل مذہبی تحفظ عطا کرتا ہے، آر ایس ایس مسلمانوں کو حق ِ انتخاب سے بھی محروم کرنا چاہتی ہے، اس کا بنیادی ہدف مسلمانوں کی مذہبی شناخت کا خاتمہ ہے، علی گڑھ یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ جیسے ادارے اس کے نشانہ پر ہیں، یکساں سیول کوڈ کے نفاذکو اس نے اپنے منشور میں شامل کیا ہے، مسلم پرسنل لا کو ٹھکانے لگا کر امت ِ مسلمہ کو اکثریتی تہذیب میں ضم کرنا اس کی دیرینہ تمنا ہے، دینی مدارس و مراکز بھی اس کے نشانہ پر ہیں،فرقہ پرستو ں کے ان خطر ناک عزائم کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے امت ِ مسلمہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کو طاقت ور بنانے کی ہمہ گیر مہم کا آغازکرے، اس کیلئے درج ِذیل نکا ت کو پیش ِ نظر رکھنا ہوگا۔
(۱) قرآن و سنت کی روشنی میں خدا تعالیٰ کا یہ دستور واضح طو ر پر سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے اعمال جس قسم کے ہوں گے خدا کے فیصلے بھی ویسے ہی ہوں گے مسلمانوں کے اعمال اچھے ہوں گے اور ان کی زندگی میں خدا کا دین ہوگا تو اللہ تعالی ان کیلئے اچھے حکمراں مہیا فرمائیں گے، اس کے برخلاف جب ہمارے اعمال بگڑیں گے تو اللہ تعالی ظالم حکمرانوں کیلئے اقتدار کا راستہ آسان فرمادیں گے، ہمارا یقین ہے کہ دنیا کا کوئی اچھا یا برا واقعہ اللہ کی مشیت کے بغیر رونما نہیں ہوسکتا، ملکوں میں حکومتوں کی تبدیلی بھی اللہ کی مشیت ہی سے ہوتی ہے، ہمارے ملک میں ظالم حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم خدا کی طرف پلٹ آئیں اور بے دینی اور دین بیزاری کا خاتمہ کریں۔
(۲) اللہ تعالی نے دنیاکو دارالاسباب بنایا ہے کسی بھی مقصد میں کامیابی کے لئے مطلوبہ اسباب اپنا نا ضروری ہے، جو کوئی قوم دنیوی کامیابی کے لئے مطلوبہ اسباب اختیار کرتی ہے بھلے و ہ کافر قوم ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالی اسے کامیابی عطا فرماتے ہیں، فرقہ پرست جماعتوں کو جو کامیابی مل رہی ہے، وہ دراصل ان کی انتھک کوششوں اور طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے، بی،جے،پی کی حالیہ کامیابی آر ایس ایس کی ستر سالہ جہد مسلسل کا ثمرہ ہے، آر ایس ایس نے گزشتہ ستر برسوں میں عام غیر مسلموں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی زبردست مہم چلائی، اس نے ملک کے عام غیر مسلم بھائیوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی کہ ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجانا چاہئے اسی میں ہندووں کا تحفظ ہے،اور یہ کام بی،جے،پی ہی کے ذریعہ انجام پا سکتا ہے، آر ایس ایس ہندوستان سے مسلمانوں کااسی طرح صفایا کرنا چاہتی ہے، جس طرح اندلس سے کیا گیا، آر ایس ایس مسلمانوں کی تہذیبی شناخت ختم کرکے انہیں ہندو تہذیب میں ضم کرنا چاہتی ہے، اس کے لئے وہ طویل منصوبہ بندی کرچکی ہے۔
آر ایس ایس کی نفر ت والی اس ناپاک مہم کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ ہندوستان کے غیر مسلم بھائیوں سے تعلقات بڑھائیں نیز اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے آر ایس ایس نے جو غلط پروپگنڈہ کر رکھا ہے اس کا ازالہ کریں، اس وقت غیر مسلم برادران ِ وطن اسلام اور مسلمانو ں کے تعلق سے بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہیں، انہی غلط فہمیوں نے انہیں اسلام سے متنفر کر رکھا ہے، اس کام کیلئے جہاں غیر مسلموں کے درمیان خدمت ِ خلق کی سر گرمیوں کو عام کرنا ضروری ہے۔
(۳)تین قسم کی پستیوں نے مسلمانوں کو کمزور کردیا ہے (۱)دینی پستی (۲)تعلیمی پسماندگی (۳) معاشی پسماندگی ان تینوں پسماندگیوں کے ازالے کے بغیر مسلمان ایک طاقت ور قوم کی شکل میں ابھر نہیں سکتے، جہاں تک دینی پستی کا تعلق ہے تو پچھلی سطروں میں اس کا مختصر خاکہ پیش کیاگیا ہے تعلیمی پستی ہماری پسماندگی کی بنیادی وجہ ہے تعلیم میں مسلمان ملک کے پسماندہ طبقات سے بھی پیچھے ہیں، اول تو مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ عصری تعلیم سے بالکلیہ محروم ہے پھر جو مسلمان بچے عصری تعلیم پا رہے ہیں وہ بنیادی دینی تعلیم سے نا بلد ہیں، دونوں سطحوں پر کام کی ضرورت ہے مسلمانوں میں عصری تعلیم کا تناسب بڑھانا جہاں ضروری ہے وہیں عصری تعلیم پانے والے نوجوانوں کو بنیادی دینی تعلیم سے آرستہ کرنا بھی ضروری ہے،عصری تعلیم کے تعلق سے یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ موجودہ حکمراں طبقہ عصری نظام ِ تعلیم کو ہندووانہ رنگ میں رنگنے کا تہیہ کر چکا ہے حتیٰ کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران اس سلسلہ کے کئی اقدامات کئے جا چکے ہیں، بعض ریاستوں کے سرکاری اسکولوں میں وندے ماترم او ر سرسوتی وندنا لاگوکیا جا چکاہے، کہیں بھگوت گیتا کو نصاب کا جز بنایا جا چکا ہے ان حالا ت میں مسلمان بچوں کے دین و ایمان کا تحفظ خود مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اس کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ صاحبِ ثروت مسلمان ایسے اسکول اور کالجس قائم کریں جہاں معیاری عصری تعلیم کے ساتھ بنیادی دینی تعلیم و تربیت کا نظم ہو نیز محلہ محلہ دینی مکاتب کا جال پھیلایا جائے خط ِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے مسلمانوں کے بچوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے متمول مسلمان شادی بیاہ میں فضول خرچی ترک کرکے غریب مسلم بچوں کی تعلیمی کفا لت کریں،اس وقت شہر ِحیدرآباد میں ہر سال کروڑوں روپئے شادی بیاہ میں خرچ کئے جاتے ہیں شادیوں کو سادگی کے ساتھ انجام دیکر اس رقم کو مسلم بچوں کی تعلیم پر صرف کیاجائے تو ایک انقلاب برپا ہو سکتاہے، اسی طرح ملت ِاسلامیہ کی معاشی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے متعدداقدامات کئے جا سکتے ہیں غریب مسلمانوں کو سو د کی لعنت سے بچانے کیلئے بلا سودی قرض ِ حسنہ اسکیم چلائی جا سکتی ہے کاروبار کے لائق مسلمانوں کا مالی تعاون کرکے انہیں کاروبار لگا کر دیا جاسکتاہے،اسی طرح زکوٰۃ کا صحیح استعمال کرکے مسلمانوں کے بے شمار معاشی مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×