سیاسی و سماجی

کرونا کے دس سبق

وَمَا تَاْتِـيْـهِـمْ مِّنْ اٰيَةٍ مِّنْ اٰيَاتِ رَبِّـهِـمْ اِلَّا كَانُـوْا عَنْـهَا مُعْـرِضِيْنَ (46)سورہ یٰسین
کافروں اور منافقوں کی یہ صفت بتلائی گئی کہ وہ پیش آنے والے حادثات پر سے سرسری طور سے گزر جاتے ہیں ، اور اسے کسی سیارے اور زمانے کی گردش سے جوڑ کر دھوکہ میں پڑے رہتے ہیں،لیکن مومن کا خدا پر ایمان اسے  ہر واقعہ میں نصیحت اور تربیت کے پہلو دکھاتا ہے، کرونا حادثے کے پس منظر میں عبرت و موعظت کے چند پہلو آپ کے سامنے پیش کیے جارہے ہیں، محض اس لئے کہ ہم اپنے اطراف میں اور اپنی ذاتی زندگی میں غور وفکر کرکے مزید اسباق حاصل کریں، اپنا احتساب کریں اور زندگی کی نوک پلک درست کریں.

‌١)”ہم” نہ کہ "میں”
کورونا کے باعث ہم جس بے بسی کے دور میں جی رہے ہیں، وہ قیامت کا منظر پیش کررہا ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، ظاہری فاصلہ کی ہدایات تھیں، ہم نے تعلقات اور ذمہ داریوں میں بھی فاصلوں کا فیصلہ کرلیا ہے، سرکاری ایجنسیوں اور ہسپتالوں نے جو ہراسانی پھیلائی ہے وہ الگ، ہمارے اپنے معاشرے میں بھی ہر شخص صرف اپنے بارے میں سوچ رہا ہے، ہمیں چاہئے کہ مل کر سب کے بارے میں سوچیں کہ ہم نہ ضروری اشیاء کی من مانی قیمتیں وصول کریں گے اور نہ ہی بلا عذر کسی ملازم کو کام سے نکالیں گے ، نہ اس کی تنخواہ روکیں گے، نہ کسی کا بقایہ رکھیں گے.
یاد رکھیں کورونا سے کسی کی رشتہ داری نہیں، اگر آج "وہ” کورونا کی مار جھیل رہے ہیں، تو کیا خبر کل "تم” بھی کسی بلائے ناگہانی میں گرفتار ہوجاؤ، تمہارے گھر میں کوئی شوگر کا مریض ہو ،جو انسولین لیتا ہو اور ایک انسولین کو ترس جائے، کسی کو ڈائلیسز کی ضرورت ہو اور انتظام نہ ہوپائے، کسی کا تارِ نفَس ٹوٹنے لگے اور طبیب میسر نہ آئے، طبیب ہو تو دوائیں دستیاب نہ ہوں، دوائیں ہوں تو وہ کام کرنا بند کردیں، اور بیمارئ دل کام تمام کرجائے۔
اگر من وتو کا فرق مٹا کر "ہم” بن جائیں، اور ملت میں گم ہوجائیں، اپنوں اور بیگانوں کا درد محسوس کرنے لگیں، تواس سنگین صورت حال پر قابو پاسکتے ہیں۔
مومن مومن کو بے سہارا نہیں چھوڑتا، اور نیکیاں آڑے وقتوں میں کام آتی ہیں (صنائع المعروف تقي مصارع السوء)، اماں جان حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یاد کیجئے جب انہوں نے آغاز وحی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا:
"ہرگز نہیں! آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی رسوا نہ کرے گا، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کا بندوبست کرتےہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں، اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں”:
دل بدست آور کہ حج اکبر است

قدرت کی بالا دستی:
٢)دنیا جب معمول کی رفتار پر ہو اور حالات نارمل ہوں تو انسان سمجھتا ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے، دنیا تو ہم چلا رہے ہیں ،بعض خیال کرتے ہیں کہ بنانے والا بنا کر فارغ ہو گیا، یا کہیں ہے بھی تو بے معنی سی محدود قوت لے کر، چنانچہ اس خدا کو اپنی عبادت گاہوں میں بند کر کے آزادانہ صحیح غلط کی پرواہ کیے بغیر اپنے مفاد کے لیے سب کچھ کرتے ہیں، اس طرح کے حالات انسان کے ضمیر کو جھنجوڑ تے ہیں اور اس کی فطرت کو اس بات کی طرف لاتے ہیں کہ ایک ذات کی بالادستی، قدرت و فعالیت کا یقین کریں اور مومن کا یقین تو اور مستحکم ہوجاتا ہے, اللہ کی ذات پر کہ اس کی نگاہ عبرت معمول کے واقعات میں ہی خدا کی جلوہ نمائی دیکھ لیتی ہے ،تو غیر معمولی حادثات میں  مومن کا سر،  دل اور خیال سمیت اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے۔

۳)اہل مغرب کی بے چارگی :
خدا بے زار ،مادیت پرست مغرب اور یورپ نے  انکارمذہب کی مہم چلائی،  ان کی ایجادات اور معقولات کا جادو دنیا میں ایک صدی سے سر چڑھ کر بولنے لگا، انہوں نے کہا کہ اپنے خداؤں کو اپنی عبادت گاہوں میں بند رکھو اور اپنے مذہب کو ذہنوں اور تنہائیوں میں محدود کر لو، تمہاری خیالی آخرت میں تو پتہ نہیں کیا ہو گا، مگر اس دنیا میں ہماری حکمرانی ہے ،یہاں کے خدا ہم ہیں، ہمیں تمہارے اللہ کی ضرورت نہیں ،
ایک لخت کرونا کی وبا عام ہوئی ، اور کثرت سے اموات ہوئیں مگر علاج و معالجے کی اس قدر ترقی یافتہ دور میں ڈاکٹروں اور سائنسدانوں اور محققین کے پاس  کرونا کے نہ یقینی علامات ہیں اور  نہ ہی کوئی معقول علاج ، نہ  یقینی symptomsہیں ,, نہ treatment,لوگ  خوف و ہراس، دہشت ، وحشت،اور مایوسی و بد حواسی میں مبتلا ہیں ، ساری دنیا کا کرونا جمع کیا جائے، تو دس گرام کے ہوائی جراثیم  بھی نہ ہوں گے، مگر اس قدر مہلک کہ ابابیل کے کنکر اور نمرود کے مچھر کی یاد تازہ کرتا ہے،وائرس کے حفاظتی تدابیر  اسی وقت  کارگر ہو سکتے ہیں، جب ہم اس سوال پر بھی تحقیقی اور ساینسی  نظر ڈالیں کہ یہ وایرس کہاں سے آیا ہے اور کیوں آیا ہے۔

٤)یہ موقع ہے ،ان لوگوں کے درد کو محسوس کرنے کا جو لبنان ، شام ، دیگر عرب ممالک اور خاص طور پر کشمیر جیسے ملکوں میں بستے ہیں،
کرفیو، ناکہ بندی، بم دھماکے،جانی و مالی نقصان،اور ہر طرح کی تباہی سے گزرتے ہوے، وہ کس قدر تنگ، الم ناک اور حسرت بھری زندگی گزار رہے ہیں ،ہمارے اصحاب اثرورسوخ کو چاہیے کہ  حسب حیثیت ان کی مدد کریں، کم از کم ہمارے دل ان کے درد کو  محسوس کریں، اور پوری لجاجت سے ان کے لیے دعائیں کریں، خاص طور پر غریب، ملازمت سے بے دخل اور کرونا کے متاثرین اور ہاتھ نہ پھیلانے والے لوگوں کی ہر ممکن  مدد کریں ۔

موت کا خوف یا حسن خاتمہ کا فکر:
٥)ہنستے بولتے لوگ دنیا سے رخصت ہوگئے،کیا جوان اور بوڑھے، کیا صحت مند اور بیمار، سب ہی اس وبا کا نوالہ بن گئے، کتنے امیر ،شہرت یافتہ لوگ ہیں, جو بے بسی میں سسکتے مر گئے، ان کی دولت ان کےکچھ کام نہ آئی، وہ دنیا میں ایسے جیے، جیسے انہیں مرنا ہی نہ ہو ، پھر  ایسے مٹے ،جیسے کبھی بسے ہی نہ ہو، ، یاد رکھیں، موت کا وار بے خطا ہوتا ہے،اس لئے کوئی گناہ بے توبہ نہ چھوڑیں،حسن خاتمہ کی فکر کیجئے،کیونکہ انسان جس حال میں مرتا ہے، اسی حال میں اٹھایا جاتا ہے۔

٦)علم اور علماء کی صحبت:
قیامت کی ایک بڑی علامت ہے کہ بہت سارے وہ علماء ، جو خاموشی، گمنامی میں دین کے بڑے تقاضے پورے کر رہے تھے، وہ عظیم طبقہ یکلخت دنیا رخصت ہو  گیا،اور ایسی خلا چھوڑ گیا، جس کی بھرپائی ہم جیسے ناکاراوں  کے لئے مشکل ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت صفیہ رونے لگیں، تو حضرت ابوبکر و عمر نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ خالہ جان کیوں روتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے مقام پر ،اپنے رب سے ملنے گئے ہیں، تو حضرت صفیہ نے فرمایا: اس وجہ سے نہیں رو رہی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے, اس وجہ سے رو رہی ہو کہ نزول وحی کا سلسلہ موقوف ہو گیا,
علماء و فقہاء کے طبقہ پر خیر کا الہام ہوتا ہے، اس لئے ان کا اجماع امت کے لئے حجت اور دلیل مانا گیا ہے،  علماء کا اٹھنا اس بات کی علامت ہے کہ علم وحی اور آسمانی الہامات سے ہم محروم  ہو رہے ہیں،  ہمیں سنجیدگی سے علم کی جانب متوجہ ہونا چاہیے،
 علم کا نور، دین کی فہم، اور عمل کی استعداد ،  علماء کی صحبت، اولیاء کی خدمت، اور دین کی محنت سے حاصل ہوتے ہیں،  سوشل میڈیاسے تو صرف بےجان معلومات ہی مل سکتے ہیں۔

٧)دنیا سے بےزارگی:
فاصلہ قائم کیے گئے ،زندگی تنگ ہوگئی، تجارتیں ٹھپ ہوگیں، ملازمین بے دخل ہو گئے،  سہولتیں بلکہ ضرورتیں بھی ادھوری رہ گئی، کئی لوگ بے یارومددگار ،بغیر توشہ و سواری کے سفر کرتے ہوئے ،گھر کی راہ تکتے ہوئے، دم توڑ گئے ، جس زندگی کو خوبصورت سے، خوبصورت ترین بنانے کے لئے ساری محنتیں کیں، سب ہوا ہوگے، پتہ چلتا ہے کہ یہ زندگی کسی کی بھی جنت جیسی مکمل اور دایمی  نہیں ہو سکتی،دنیا انقلابات اور حادثات کا ،فنا ہونے والا ناقص مقام ہے،  ڈیجیٹل لائف اور4g  جنریشن اور ہر طرح کی ترقی کے باوجود بھی دنیا  کامل اور ٹھرنے کامقام نہیں ہو سکتی، اس لیے گزارے گا سامان لے کر، مسافرانہ ذہنیت کے ساتھ ، اعمال آخرت کے لیے کمر بستہ ہونا چاہیے۔

٨)آخرت کی رغبت:
تنہایی کا موقع ہے، کاروبار زندگی تھم سے گئے ہیں،  اچھا موقع ہے اللہ سے لو لگانے کا،اللہ سے عرض و نیاز کا، معافی تلافی کا،  دعا و مناجات کا، گھر گھر مسجد ومدرسہ بننے کا، ذکر و تلاوت کا، والدین کی خدمت اور بچوں کی تربیت کا،  ان  اوقات کو  موبائل کی لعنتوں میں ،کالنگ، چاٹنگ میں ضائع کرنا،کرونا کے قھر کو بڑھانا ہے۔

٩) توبہ اور تضرع:
کرونا اللہ کا عذاب ہے،اس بات کی علامت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت معصیت،ظلم اور خباثت میں مبتلا ہے، اللہ کا عذاب توبہ اور احتساب کی طرف متوجہ کرنے کے لئے آتا ہے،  اصل عذاب تو جہنم میں ہوگا،یہ اس کا ہلکہ سا نمونہ اور جھلک  ہے، اللہ کا عذاب تنبیہ کے لئے آتا ہے،  سنبھلنے کےلیے بھیجا جاتا ہے،
(و لقد ارسلنا الی امم من قبلک فاخذنا ھم الی آخر الآیہ)
اللہ تعالی کا قانون ہے، کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اللہ ڈھیل دیتا ہے ،پھر گناہ کرتا ہے، تو مزید مہلت دیتا ہے، لیکن جب بندہ گناہ کو عادت اور پیشہ بنالیتا ہے، تو اللہ اس پر آسائشوں اور فتوحات کے دروازے کھول دیتے ہیں، پھر جب وہ گناہوں کے نشے میں مست و مگن ہوتا ہے، تو اللہ اچانک اس کو پکڑتے ہیں، اور ایسا عذاب دیتے ہیں کہ کائنات کی تمام مخلوقات کانپ اٹھتی ہے ،اور سارا اگلا، پچھلا برابر کر دیتے ہیں، لہذا ہمیں توبہ کرکے اپنے رب کو منانا ہے اور کرونا کے  قہر کو ہٹانا ہے۔

١٠)”منفی حالات ہی مثبت نتائج لاتے ہیں”

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وبا اللہ کا عذاب ہے  مگر اللہ نے اسے مومنین کے لئے رحمت بنا یا ہے وبا میں مرنے والوں کو شہید کا درجہ دیا گیا ، سادہ طرز زندگی اور خرچ میں احتیاط سکھایا گیا، مظلوموں ، قیدیوں،اور بم دھماکوں میں مرنے والوں کا احساس دلایا گیا، ہتھیار سازی سے توجہ ہٹا کر، دواسازی کی طرف متوجہ کیا گیا، آمادہ تخریب،اور نشہ طاقت میں چورملکوں کو تعمیری اور تخلیقی مشن پر گامزن کیا گیا، کتنے انقلابات رونما ہوئے ہیں اور کتنے ہونے باقی ہیں۔۔۔ اللہ ہی ہمیں اس کا خیر عطا فرمائے اور اس کے شر سے محفوظ رکھے،دل بینا اور جسم توانا عطا فرمائے  اور ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھے۔

اللھم انا نسالک فعل الخیرات،وترک المنکرات،وحب المساکین وان تغفر لنا و ترحمنا،واذا اردت بقوم فتنہ،فتوفنا غیر مفتونین،الھم انا نسالک من خیر ما تجی بہ الریاح،نعوذ بک من شر ما تجیء بہ الریاح۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×