اسلامیات

دعوتِ افطار: قابلِ غور پہلو

ہلالِ رمضان اپنے ساتھ رحمتوں کی بارات اوربرکتوں کی سوغات لے کرطلوع ہوتاہے ،ہر طرف نور ہی نوراورفضاؤں میں عجیب سا کیف وسرورنظر آتا ہے ؛ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یکایک سب کچھ بدل گیا،چشم زد ن میں کوئی انقلاب برپاہوگیا، ہرآن ملائکہ کا نزول، عاصیوں کے لئے غفران وقبول، آسمانوں سے انعامات کی بارشیں، زمین پر ہر لمحہ نوازشیں، نیکو کاروں کے لئے بلندیٔ درجات کی بشارتیں، دعاؤں کی قبولیت بھری ساعتیں، تراویح اورتہجد کی حلاوتیں ،سحری کے ایمان افروز لمحات، افطار کی بابرکت گھڑیاں ، تلاوت قرآن کی چاشنی،روزہ داروں کے بارونق چہرے ،مساجد میں مسلمانوں کا جم غفیر، صدقات و خیرات کے ذریعہ غرباء کی امداد ،اعمال کے اجروثواب میں اضافہ و ازدیاد۔
غرض: ایک ماحول ہوتاہے ؛جس میں ہرکوئی نیکیاں کمانے ،خیرات اور بھلائی کے کاموں میں سبقت لے جانے اورخوشنودی ٔ رب حاصل کرنے کی دھن میں لگا ہوتاہے ۔ان ہی نیک کاموں اور امور خیر میں روزہ افطار کرانے کا بابرکت عمل بھی نہایت اہمیت کاحامل ہے ،جس کی بڑی فضیلت کتب احادیث میں وارد ہوئی ہے ؛ جیساکہ آپ ﷺکا ارشاد ہے : ’’جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایاتواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘(ترمذی)
ایک اور روایت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سوال کا جواب دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے جوبات ارشادفرمائی اس میں خوشخبری ہے ان غریب مسلمانوں کے لئے جوباضابطہ افطارکروانے کااہتمام نہیں کرسکتے،وہ مایوس نہ ہوں اللہ پاک کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں،آپ ﷺنے فرمایا:جوشخص ایک گھونٹ دودھ، ایک کھجور یاایک گھونٹ پانی سے روزہ دارکاروزہ افطارکرادے تویہ بھی اس کی مغفرت اوردوزخ سے آزادی کاسامان بن جائے گااوراس کوبھی اتناہی ثواب ملے گا جتنا روزہ دارکوملے گا؛مگرروزہ دارکے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔(ابن خزیمہ)
آپ ﷺ کے ان ارشادات مبارکہ میں شک وتردد کی ادنیٰ گنجائش نہیں،واقعتاًیہ نہایت مہتم بالشان عمل ہے جس سے مجال انکار نہیں ؛لیکن بات یہاں صرف کسی روزے دار کو افطار کروانے ،دن بھرکے بھوکے پیاسے کو چندلقمے دینے اورقدرے اہتمام کے ساتھ کسی کی ضیافت کردینے کی نہیں ہے ؛بل کہ روزہ کے مقدس عنوان پر ہونے والی افطار پارٹیوں کی ہے ؛جو مختلف قسم کی خرافات و بدعات کا مجموعہ بن چکی ہیں۔زیر نظر تحریر کا مقصدمروجہ دعوت افطار میں ہونے والی بے اعتدالیوںکی طرف توجہ دلانا ہے کہ جس عمل کو اللہ کے نبی ﷺ نے باعث اجر وثواب قرار دیا اب اس سے عبادت کا تصور عنقاء ہو تا جارہا ہے ،افطار پارٹی رفتہ رفتہ ایک رسم ِبد کی شکل اختیار کرچکی ہے اور ہرجگہ فیشن کے طور پر اس کو منعقدکرنے کا رواج عام ہوچکاہے الا ماشاء اللہ ۔
آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں مروجہ افطار پارٹیوں کاجائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ نیکی اورخیر کے نام پرکیاجانے والا یہ عمل کن کن منکرات ومحرمات پرمشتمل ہے ۔
شہرت اورنام ونمود:
ریاکاری اور دکھلاوا افطار پارٹی کا اہم محرک اورسستی شہرت حاصل کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے ؛ جب کہ اللہ کےنبی ﷺ نے اس کو شرک سے تعبیرکیا ہے ،ہمارا ایمان ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ کیاجانے والا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بارگاہ الٰہی میں بڑی قدروقیمت رکھتا ہے اور عدم اخلاص ،شہرت اور ریاکاری پر مبنی بڑے سے بڑا عمل بھی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے ،ریاکاری انسان کے اعمال کو دنیا میں تباہ کر دیتی ہے ۔ نبی کریم ﷺکے فرمان کے مطابق قیامت والے دن سب سے پہلے جن تین لوگوں کو جہنم میں پھینکا جائے گا وہ ریا کار عالم،ریاکار سخی اور ریا کار مجاہد ہوں گے ،جو اپنے اعمال کی فضیلت اور بلندی کے باوجود ریاکاری کی وجہ سے سب سے پہلے جہنم میں جائیں گے ۔(ترمذی)
دوسروں کو تکلیف پہونچانا:
افطار پارٹی کا ایک اورمنکرایذاء رسانی اوردوسروں کو تکلیف دیناہے ؛چناں چہ جگہ جگہ راہیں مسدود کرنا ، خیمے لگانااور ٹرافک جام کرناتو بازاری افطار پارٹی کا اہم حصہ ہے خواہ آنے جانے والوں کو کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو،مذہب اسلام کی کردار کشی کیوں نہ ہو ،قوانین کی کتنی مخالفت کیوں نہ ہو ؟؟ شریعت مطہرہ نے دوسرے انسان کو اذیت اور تکلیف دینے سے منع کیاہے ۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے : مسلمان وہ ہے ، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور حدیث میں ”المسلمون“ کا ذکر ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان کا واسطہ بہ کثرت مسلمانوں ہی سے پڑتاہے ، شب وروز اس کا اختلاط اور ملنا جلنا مسلمانوں کے ساتھ زیادہ رہتا ہے ، اس بناء پر ”المسلمون“ کی قید ذکر کی گئی، ورنہ کسی کافر کو بھی تکلیف دینا جائزنہیں۔
(فتح الباری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم)
شریعت مطہرہ نے تو ایسے موقع پر اور ایسے طریقے سے نفل عبادت کو بھی ممنوع قرار دیا ہے ، جہاں پر اور جس طریقے سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہو ، مثلاً قرآن کی تلاوت کرنا ،عبادت اور بہت بڑے ثواب کا کام ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص ایک جگہ پر جہاں سب لوگ سور ہے ہوں، بلند آواز سے تلاوت کرتا ہے ، تو شریعت کی طرف سے اس طرح تلاوت کرنے کی اجازت نہیں ؛ بلکہ اگر کوئی شخص اس طرح کرے تو یہ شخص گناہ گار ہو گا۔
رزق کی بے حرمتی:
افطار پارٹی کا وہ منظر بھی نہایت قابل دید ہوتا ہے جب کھانا تقسیم ہوتاہے ، اچھے خاصے متمول احباب بھی کھانے پر یوں ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے کئی دن کے بھوکے ہوں،ایک ایک شخص کئی کئی افراد کا کھانا پلیٹ میں جمع کرنا شروع کر دیتا ہے اور پھر کھانے کے بعد کا منظر یہ ہوتا ہے کہ ایک ایک دستر پر کئی کئی افراد کا کھانا بچا ہوا ہوتا ہے؛ بلکہ بہت سی پلیٹوں کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ ان کو تو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا ؛اس طرح یہ صورتحال رزق کی بربادی کا سبب بنتی ہے ؛جب کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : کھاؤ ، پیواورحد سے مت بڑھو! بے شک اللہ تعالیٰٰ حد سے بڑھنے والے کو پسند نہیں فرماتے ۔(الاعراف)
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ پاک فرماتے ہیں :اگر تم قدردانی کروگے اور شکرگزاری سے کام لوگے توہم نعمتوں میں اضافہ کریں گے اور اگر تم ناقدری کروگے تو یاد رکھو ہمارا عذاب بڑا سخت ہے ۔(ابراہیم)اسی طرح نبی کریم ﷺنے فرمایا :روٹی(رزق)کااحترام کرو(بیہقی)۔ان سب تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں رزق کی بے حرمتی کتنا بڑا جرم ہے اور اس سلسلے میں بے توجہی نعمتوں کے چھن جانے کاسبب ہے ، ضرورت ہے کہ ہم اپنے طرز عمل کو بدلنے کی کوشش کریں!
اسراف اور فضول خرچی:
افطار پارٹیوں اور بالخصوص سیاسی افطارپارٹیوں میں کھانے کے تنوع ،بے جا آرائش وزیبائش اور نت نئے طریقوں سے جو بے دریغ مال خرچ کیا جاتا ہے؛ اس کی بھی ایک طویل فہرست ہے ۔روزہ افطار کرنے کے بعدمختلف پھلوں اورغذاؤں کی بڑی مقدار کوڑے دان کی نذر کردی جاتی ہے ؛جب کہ اس کو محتاج و مسکین افراد تک پہونچایاجائے تو کئی لوگ اپنی آتش شکم بجھاسکیں،دووقت کا کھاناانہیں میسر آجائے اور پھر ان کے دل کی گہرائی سے نکلنے والی دعاء ہمارا مقدر بنادے۔
الغرض :ایک طرف اسراف و شاہ خرچی کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ، بلاشبہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے ( بنی اسرائیل)۔ایک اورمقام پر ارشادربانی ہے : بے شک اسراف کرنے والے جہنمی ہیں (سورۂغافر)
مساجد کی بے حرمتی :
مساجد ،اللہ کا گھر اور فرشتوں کے مسلسل نزول کی جگہ ہے ،سرکار دوعالم ﷺ نے مساجد کو خیر البقاع (دنیا کی بہترین جگہ )قراردیاہے ،اور اس کے تقدس کو بحال رکھنے کی بارہاتاکید فرمائی ہے،اسی لیے چھوٹے بچوں کو مسجد لانے سے منع کیاگیا،بدبودار چیزکھاکر مسجد آنے کو مکروہ بتلایا گیا،مسجد میں دوڑنے کودنے ،بیچنے، خریدنے اور دنیوی باتیں کرنے پر پابندی لگائی گئی ؛لیکن مساجد میں ہونے والی دعوت افطارمیں اکثر و بیشتر مسجدکے احترام کا لحاظ نہیں رکھاجاتا،خوب شور و شغب ہوتاہے،مختلف چیزوں سے مسجد کو آلودہ کیا جاتا ہے، گالیوں اور برے القاب سے ایک دوسرے کو مخاطب کیاجاتاہے،تصویر کشی کے ذریعہ حرام کام کا ارتکاب ہوتا ہے اور بھی متعدد منکرات دیکھنے میں آتے ہیں ۔
افطار پارٹیوں سے متعلق ان موٹی موٹی بے اعتدالیوں کے علاوہ فرائض میں کوتاہی ،عبادات کے خشوع میں کمی ،سنن و آداب میں بے توجہی وغیرہ پر مشتمل ایک پورا دفتر ہے ؛جن کو اس مختصر تحریرمیں نہیں لایا جاسکتا ۔
سیاسی افطار پارٹیاں :
عام افطار پارٹیوں کا حال زار اور اس میں ہونے والی چنددرچند بے اعتدالیاں آپ کے سامنے آئیں؛ مگر افطارپارٹی کے نام پرسیاست کے تماشے بھی آمدرمضان سے شروع ہوکر آخرتک جاری رہتے ہیں؛بل کہ اخیرعشرے میں مزید اضافہ ہوجاتاہے ۔
افطارکی دعوت توروزے داروں کے لئے مخصوص ہے ؛لیکن یہاں اس کے برعکس منظرنظرآتاہے ۔ سرمایہ داروں کے بالمقابل سیاست دانوں کی طرف سے دی جانے والی دعوت میں روزہ دارتوگنتی کے چندایک نظر آتے ہیں؛جن کی شرکت ضرورتاًیامصلحتاًہوتی ہے ؛لیکن اس کے برخلاف غیرروزے داروں کی تعداد بے شمار ہوتی ہے ۔جس کاسیاسی قدجس قدربڑاہوتاہے اس میں شرکاء کی تعداداتنی ہی زیادہ ہوتی ہے ، وی آئی پی حضرات کی شرکت اورسیاست کاتناسب بھی اسی مناسبت سے ہوتاہے ۔آج تک ایسی کوئی سیاسی یاغیرسیاسی افطار پارٹی نہیں دیکھی گئی جہاں افطار کے وقت ہنگامہ برپا نہ ہوا ہو، افرا تفری کا ماحول نہ بناہو،عین دعاء کے وقت غفلت وبے توجہی نہ برتی گئی ہو ۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاسی لیڈروں اورافسروں کے افطار کرانے سے روزے اور افطار کا استحصال ہوتاہے ،روزہ اور افطار دونوں کی روحانیت کمزور پڑتی ہے ،اور عبادت ایک کھیل تماشہ بن کر رہ جاتی ہے ۔علاوہ ازیں سیاسی افطار پارٹی مکمل دکھاوااورمحض رسم ہے ؛ جو حالیہ چندبرسوں سے مسلم معاشرہ میں چل پڑی ہے ، بعض بعض جگہ تومکروہات و محرمات کابے دریغ ارتکاب کیاجاتاہے ،فرائض کی پامالی ہوتی ہے ،احکام خداوندی کی توہین کی جاتی ہے اور سنتوں کا تو جنازہ نکالاجاتاہے ۔
نہ کسی کو اذان کی آواز کا پتہ ہوتا ہے نہ افطار کی دعا پڑھنے کا ہوش،نہ نماز مغرب کی فکر ہوتی ہے نہ آداب طعام کا پاس ۔بس کسی نہ کسی صاحب حیثیت شخص سے ملنے اور اس سے تعارف کرانے کی بے تابی اورخود کو ان کی نظروں میں لانے کی جی توڑ کوشش ہوتی ہے ۔
جہاں تک روزے داروں کی بات ہے تو اس طرح کی محفلوں میں ان کا خیال کسے ہوتاہے اورانہیں کون خاطرمیں لاتاہے؟؟زیادہ ترمواقع پرافطارکے لئے وقت کا خیال رکھنے میں بھی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔
مختصر یہ کہ ہمیں دعوت افطار کے حوالے سے اپنا احتساب کرنے اور اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ محض ایک مسنون و مستحسن کام کے لیے ہم کتنے محرمات کا ارتکاب کررہے ہیں ؟کتنی سنتوں کو پامال کررہے ہیں؟ کتنے فرائض کو بے دریغ چھوڑ رہے ہیں ؟ ۔۔۔
خدا کرے کہ ہم مروجہ افطار پارٹیوںکااہتمام کرنے اور بے روزہ دار متمول افراد کو رسماًکھلانے کے بجائے مستحق اور ضرورت مندلوگوں تک اپنا تعاون پہونچائیں ،ان سے دعائیں لیں ! اس طرح دنیا اور آخرت میں سرخروئی حاصل کریں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×