اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

موجودہ حالات میں قربانی ایک اہم مسئلے کی وضاحت

ان دنوں سوشل میڈیا سمیت الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جومسئلہ بحث کا موضوع بناہوا ہے وہ قربانی کے بدلے اس کی قیمت صدقہ کرنے سے متعلق ہے۔دراصل اس حوالے سے جنوبی ہند کی ایک معروف دینی درس گاہ سے جاری ہونے والے فتوے کوغلط عنوان دے کر میڈیا پر وائرل کیا گیاہے؛ جس کے بعدسے عوام الناس کی ایک بڑی تعداد مختلف الجھنوں کا شکار اور مسلسل تشویش سے دوچار ہے، کوئی سوال کررہاہے کہ کیا اس سال فریضۂ قربانی سرے سے ادا نہیں کیاجائے گا؟کسی کا پوچھنا ہے کہ کیا قربانی کے بدلے صدقات و خیرات کے ذریعہ واجب ذمہ داری سے سبک دوشی ہوجائے گی؟کوئی دریافت کررہاہے کہ کیا عیدالاضحیٰ سے پہلے ہی ایک بکرے یا حصے کی قیمت صدقہ کردینا کافی ہے؟وغیرہ۔اس حوالے سے قرآن وحدیث کی روشنی میں چندضروری باتیں پیش خدمت ہیں:
مقصودِ قربانی:
اللہ تعالیٰ جو تمام مخلوقات کا خالقِ برحق ہے اس نے روزاول سے آج تک عبادت کی ایک شکل جانور کی قربانی رکھی ہے۔ قربانی کا مقصد یہ ہے کہ بندہ ٔمومن صرف اور صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک لہ کے سامنے سرتسلیم خم کردے اورجو کچھ وہ حکم کرے بے چون و چرا کرگزرے۔قرآن مجید میں قربانی کے لیے تین لفظ استعمال ہوئے ہیں: ایک نسک، دوسرا نحر اورتیسرا قربان۔
نسک: یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف معانی میںاستعمال ہوا ہے۔ کہیں عبادت، کہیں اطاعت اور کہیں قربانی کے لئے جیسے سورہ حج کی آیت34 میں فرمایا:’’اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کر دی ہے‘‘۔یہاں یہ لفظ جانورکی قربانی کے لیے ہی آیاہے؛ کیونکہ اس کے فوراً بعد من بھیمتہ الانعام کا لفظ ہے یعنی ان چوپایوں پر اللہ کا نام لے کر قربانی کریں جو اللہ نے ان کو عطاء کیے۔ دوسرا لفظ قربانی کے لیے قران مجید میں نحر کا آیا ہے جو سورۃ الکوثر میں ہے:’’یعنی اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں‘‘۔اور قربان کا لفظ قرآن مجید میں سورہ مائدہ کی27ویں آیت میں آیا ہے جہاں حضرت آدمؑ کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کے واقعہ کاذکر ہے۔’’یعنی آپ ان لوگوں کو آدم کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ سنائیں! جب دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی‘‘۔قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا حضرت  آدمؑ ہی کے زمانے شروع ہوا،اور پہلے انبیاء کے دور میں قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی۔ جب رسول اللہ ﷺنے مدینہ طیبہ میں مقیم یہودیوںکو ایمان لانے کی دعوت دی تو سورہ آل عمران کی آیت 183کے مطابق انہوں نے کہا:’’یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لے‘‘۔حالانکہ یہ یہودکی انتہائی غلط بیانی تھی؛ لیکن امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ قربانی کا گوشت اس کے لئے حلال کر دیا گیا اورساتھ ہی یہ وضاحت فرما دی گئی کہ قربانی کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کھانا نہیں؛ بلکہ ایک حکم شرعی کی تعمیل اورسنت ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ایک جان کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر ابراہیم خلیل اللہ ؑکے اس عمل کو پسند فرما کر قیامت تک ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے قربانی کو ہر صاحب استطاعت پر واجب کر دیا۔چنانچہ رسول اکرم ﷺ، تمام صحابہؓ اور پوری دنیاکے مسلمان ہر خطے اور ملک میں بلا انقطاع اس سنت پر عمل کرتے رہے؛جس کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا،ان شاء اللہ۔ قربانی کو شعائر اسلام میں شمار کیا گیاہے،سورۃ حج کی آیت 36 میں فرمایا:’’قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے شعائر اللہ یعنی اللہ کی عظمت کا نشان بنایا ہے ،اس میں تمہارے لئے خیر ہے‘‘۔قربانی کے اس عمل کے نتیجہ میں فائدہ یہ ہوگا کہ خدا کی رحمتیں وسیع تر ہوں گی، نیکی اور احسان کی صفات پیدا ہوں گی اور مغفرت الٰہی نصیب ہوگی۔
قربانی کے بدلے صدقہ کرنا؟
یہ مسئلہ اچھی طرح  ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگرکسی صاحب استطاعت شخص سے کسی غفلت یا عذر کی بناء پر قربانی کرنا رہ جائے‘ یعنی وہ ان دنوں بناء برعذرِ شرعی قربانی نہ کرسکے تو ان دنوں(10/11/12 ذی الحجہ) کے گزرجانے کے بعد قربانی کی قیمت فقراء ومساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے‘ اور اگر قربانی کے لیے جانور خرید لیا ہو اور بلاعذر رہ گیا ہو تو ایام اضحیۃ کے بعد اس جانور کو صدقہ کرنا واجب ہے۔یاد رہے قربانی کے مخصوص تینوں ایام میں یا ان سے پہلے قیمت صدقہ کرنے سے قربانی ادا نہ ہوگی؛ بلکہ ان دنوں جانور ہی ذبح کرنا ہوگا۔ قربانی کے بدلے صدقہ دینے کو علماء نے تحریف فی الدین قرار دیا ہے اور ا سکو دین کے انہدام کے مترادف بتلایا ہے(دلائل وجوب قربانی۔ ص ۸۹) خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ان دنوں میں اہتمام کے ساتھ قربانی کا تھا،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابرقربانی کرتے رہے۔‘‘ (جامع ترمذی، رقم الحدیث: 1507)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں۔(طبرانی، المعجم الکبیر، رقم: 1493) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس دن میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا)خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔(جامع ترمذی، رقم: 1493)نبی پاک ﷺکے صریح قول و عمل کے بعد صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس عظیم حکم کو ہمیشہ قائم ودائم رکھنا، اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی کا کوئی بدل نہیںہے اور عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنا ہی ضروری ہے۔
اب آئیے اس حوالے سے شارحین حدیث کی تشریحات بھی ملاحظہ کرتے چلیں!شارح مشکوۃ ملاعلی قاری ؒ لکھتے ہیں کہ ’’بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنتِ موکدہ؛لیکن بہرصورت اس دن میں قربانی کرنایعنی: خون بہانا متعین ہے، اس عمل کو چھوڑ کر جانور کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نہیںہو گا؛ اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائرِ اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کا ترک لازم آتا ہے؛ چنانچہ! اہل ثروت پر قربانی کرنا ہی لازم ہے۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح)اسی طرح شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ ذکرکرتے ہیں کہ صحیح احادیثِ مشہورہ کی بنا پر شوافع کے نزدیک ان دنوں میں قربانی کرنا ہی افضل ہے، نہ کہ صدقہ کرنا؛ اس لیے کہ اس دن قربانی کرنا شعارِ اسلام ہے، یہی مسلک سلفِ صالحین کا ہے۔ (المجموع شرح المہذب: ۸/۵۲۴)امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’قربانی کے ایام میں بہ نسبت صدقہ کرنے کے قربانی کرنا افضل ہے‘‘،نیز امام ابو داؤد،امام ربیعہ اور ابو الزناد رحمہم اللہ وغیرہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ (المغنی لابن قدامہ: ۱۱/۹۶)
سادگی اپنوں کی دیکھ!
بھلا ہو ان عاقبت نااندیشوں کا جنہوں نے وبا کے اس نازک موقع پر غیرضروری پیش قدمی کرتے ہوئے آبیل مجھے مار کے بہ مصداق قربانی کے بجائے صدقہ کرنے کے مسئلے کو میڈیاپراچھال دیا؛ جس سے سیاسی طبقہ یا تو بالکل ناآشنا تھا یا اسے مسئلے کی نوعیت کا مکمل ادراک نہیں تھا۔ جوں ہی یہ فتوی منظر عام پر آیا،ٹی وی ڈیبیٹ کا سلسلہ شروع ہوگیااور روشن خیال متفکرین کواپنی فکرنارسا آزمانے کابہترین میدان ہاتھ آگیا۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ جب شریعت مطہرہ میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ افضلیت کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ تین دن تک قربانی کی جاسکتی ہے،قربانی میں چھوٹے جانور کے علاوہ بڑے جانور میں حصہ لیاجاسکتا ہے،قربانی کا پورا گوشت غرباء و مساکین میں تقسیم کیاجاسکتاہے،اپنے مقام کے علاوہ دوسرے مقام پر بھی قربانی دی جاسکتی ہے،وغیرہ۔توپھر ان گنجائشوں سے ہمیں پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہیے( بالخصوص موجوہ حالات میں) اور ایسا ماحول نہیں بنانا چاہیے جومستقبل کے لیے خطرے کا باعث ہو اور اسلام دشمن عناصربعد میں چل کر اس سے ناجائز استدلال کریں۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ حالات بہت خراب ہیں،وائرس تیزی کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے، شرح اموات میں بھی روز افزوں اضافہ ہورہاہے؛ مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ دیگر بڑے بازاروں کی طرح حکومتِ وقت شہر سے باہر جانوروں کی منڈی قائم کرنے اور سماجی فاصلے کے ساتھ جانوروں کوفروخت کرنے کی اجازت دے اور ہم حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے گھر کے ایک آدھ ذمہ دار کوجانور خریدنے کی ذمہ داری دے دیں جو انتخاب وسلیکشن میں غیر ضروری دوڑدھوپ کرنے کے بجائے کم سے کم وقت میں خریداری سے فارغ ہوجائے۔اور علماء کرام و ملی تنظیموںکی جانب سے یہ اعلان کردیاجائے کہ امسال حالات کے پیش نظرمسلمان صرف اپنی واجب قربانی اداکریں، نفل قربانی کے بجائے اس کی رقم مستحق افراد میں تقسیم کردیں نیزرشتے داروں میں گوشت کی تقسیم بھی امر واجب نہیں؛ لہذا اس سے بھی احتیاط کریں۔ وغیرہ
اگر منظم انداز طور پر باہمی مشورے کے ساتھ ہر شہر و ضلع میںاصحاب علم اور ارباب سیاست مل کر سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کریں تو اور بھی بہت سی راہیں نکل سکتی ہیں اور مسلمان بہ سہولت اپنا فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×