اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

قرآن مجید کی تلاوت۔۔۔۔

قرآن مجید’اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب بھی ہے اور اس کا کلام بھی۔اس لیے قرآن کا پڑھنا بھی عبادت ہے، سننا بھی عبادت ہے، محبت و عظمت کے ساتھ اس کو دیکھنا بھی عبادت ہے اور احترام کے ساتھ اس کو اٹھانا بھی عبادت ہے۔جہاں قرآن پاک کی تلاوت رسول اللّٰہﷺ کی سنت ہے، وہیں قرآن پاک کا سنناسنانا بھی رسول اللّٰہ ﷺ کی سنت ہے۔ ہمیں ہر ایک کا ثبوت رسول اللّٰہﷺ کی زندگی میں ملتا ہے۔

قرآن پاک  کا دوسرے سے سننا:

حضرت عبد اللّٰہ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک بار نبی اکرمﷺ نے مجھے حکم دیا کہ قرآن پڑھ کر سناؤ! میں نے عرض کیا کہ یارسول اللّٰہ!میں آپ کو پڑھ کر سناؤں؟ جب کہ قرآن خود آپ پرنازل ہوا ہے۔آپﷺ نے فرمایا: میرا جی چاہتا ہے کہ میں دوسرے سے سنوں۔حضرت عبد اللّٰہؓ کہتے ہیں کہ میں نے تلاوت شروع کی،اور جب اس آیت پر  پہنچا:فکیف اذاجئنا من کل أمة بشھید وجئنا بک علی ھؤلاء شھیدا ۔ تو رسول اللّٰہ ﷺنے فرمایا:بس کرو! اور میں نے نگاہ اٹھاکر دیکھا تو رسول اللّٰہﷺ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔(بخاری ومسلم)یہ قرآن پاک کی تاثیر  تھی اور اس آیت کا مضمون بھی کچھ ایسا تھا کہ بے ساختہ آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔آیت میں اللّٰہ جل شانہ نے رسول اللہﷺ  کو خطاب کرکے فرمایا:اس وقت آپ کا کیا حال ہوگا ؟جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے،اور آپ کو ان سب کے لیے گواہ بناکر لائیں گے۔اس وقت کے تصور سے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کا پڑھنا بھی عبادت و سنت ہے اور قرآن پاک کو دوسرے سے پڑھواکر نہایت محبت کے ساتھ، توجہ کے ساتھ ،اثر لیتے ہوئے سننا بھی عبادت ہے۔ قرآن مجید کو اس کی عظمت کا تصورکرتے ہوئے،اللّٰہ کا کلام سمجھ کر پڑھا جائے اور سناجائے؛تاکہ دل پر اس کا اثر ہو۔

قرآن پڑھ کر دوسرے کو سنانا:

ایک مرتبہ رسول اللّٰہﷺ نے حضرت ابی بن کعبؓ کو طلب فرمایا،تشریف لائےتوفرمایا:میرے رب نے مجھے حکم دیا ہےکہ تمہیں قرآن پڑھ کرسناؤں۔   حضرت ابیؓ فرمانے لگے:اللّٰہ نے میرا نام لےکر آپ کو حکم دیا ہے؟ آپﷺنے فرمایا: ہاں! تمہارا نام لےکر حکم دیا ہے۔ حضرت ابیؓ مارے خوشی کے رونے لگے۔میرے رب نے اپنی مجلس میں میرا ذکر کیا ہے اور میرا نام لیا ہے۔ پھر اللّٰہ کےرسولﷺ نے ان کو سورہ لم یکن الذین کفروا پوری پڑھ کر سنائی۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ دوسرے سے پڑھواکر سننا بھی نبی اکرمﷺ کی سنت ہے، اور خود پڑھ کر دوسرے کو سنانا بھی آپﷺ کی سنت ہے۔آپﷺ کے وظائف میں تلاوت آیات اور تعلیم کتاب وحکمت دونوں کو الگ الگ ذکر کیا گیا ہےکہ الفاظ قرآن  بھی  آپ پڑھ کر سنائیں،اور معانیٔ قرآن کی بھی آپ تعلیم دیں۔

حضرت اُبی بن کعب استاذ القراء ہیں:

علماء نے لکھا ہے:چونکہ حضرت ابی بن کعبؓ کو دربارِ رسالت سے یہ مقام ملنے والا تھا کہ پوری جماعتِ صحابہؓ میں قراءت کے سب سے مستند و معتبر عالم اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعبؓ ہیں گویااستاذ القراءہیں؛اس لیے رسول اللّٰہﷺنے خودانہیں تلاوت کا انداز بتایا کہ قرآن اس طرح پڑھناہے۔ قرآن کے الفاظ کی بھی حفاظت کرنی ہےاور قرآن کے انداز تلاوت کی بھی حفاظت کرنی ہے،جس طرح الفاظ قرآن تواتر کے ساتھ منقول ہیں اسی طرح قرآن کی تلاوت بھی متواتر طبقةً بعد طبقةٍ نقل ہوتے ہوئے آئی ہے۔اللّٰہ جل شانہ کے حکم سے حضرت جبرئیل امینؑ نے نبی اکرمﷺکو پڑھ کر سنایا،آپ نے حضرت ابی بن کعبؓ کو پڑھ کر سنایا،اورامت کو حکم دیا کہ  چار آدمیوں سے قرآن سیکھا کرو: ابی بن کعب،عبداللّٰہ بن مسعود، زید بن ثابت اور سالم مولیٰ حذیفہؓ ۔(بخاری ومسلم)ان چاروں کو آپﷺ نے سند عطا فرمائی،ان کو قراءت کا استاذ قرار دیا اور  لوگوں کو ان سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا ۔ اسی طرح حضرت نبی اکرمﷺ اور حضرت جبرئیل امینؑ ہر سال رمضان المبارک میں قرآن پاک کا دور فرماتے تھے،اور وفات سے قبل والےرمضان میں تو دو مرتبہ دور فرمایا۔(بخاری)

تلاوت کرنے والے کی مثال:

بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نےارشاد فرمایا: وہ مومن جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے ،اس کی مثال اترنج جیسی ہے،جو خوشبودار اور میٹھا پھل ہوتاہے،اس کی لذت بھی عمدہ ہے اور خوشبو بھی اچھی۔ایمان والا جب قرآن کی تلاوت کرتاہے تو اندر نورِ ایمان ہے،اور زبان سے اللّٰہ کا کلام نکل رہاہے،اندر کی مٹھاس، باہر کی خوشبو اس کی مثال اترنج جیسی ہے ۔ اور فرمایا: جومومن قرآن کی تلاوت نہیں کرتا، اس کی مثال چھوہارے جیسی ہےکہ وہ خود تو میٹھا ہے؛لیکن اس میں کوئی خوشبو نہیں ہے،وہ مومن تو ہے، اور ایمان کی مٹھاس اس کے اندر موجود ہے؛ لیکن اس کے ایمان کی خوشبو اس کے زبان سے ظاہر نہیں ہورہی ہے؛اس لئے وہ چھوہارے کے مانند ہے۔اور وہ منافق جو قرآن پڑھتا ہے اس کی مثال خوشبو دار پھول کی طرح ہے کہ اگر منھ میں رکھے تو اس کا مزہ کڑوا ہوگا؛لیکن اس میں خوشبو ہوتی ہے ۔  تو منافق جب قرآن پڑھتا ہے تو اندر تو ایمان کی مٹھاس نہیں ہے؛ لیکن بہرحال قرآن کے الفاظ کی روشنی تو بکھر رہی ہے ۔ اس کی خوشبو تو پھیل رہی ہے ۔اور سب سے بد ترین وہ منافق انسان ہے، جو ایمان کی حلاوت سے بھی محروم ہےکہ عقیدہ کے اعتبار سے غلط ہے، اور زبان سے بھی تلاوت نہیں کرتاہے،اس کی مثال حنظلہ جیسی ہے،جوایک بدبودار اور کڑوا پھل ہوتاہے، جس کے اندر نہ لذت ہے اور نہ خوشبو ۔

ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا شمار پہلی قسم سے تعلق رکھنے والوں میں ہو۔ ایمان کی حلاوت ، ایمان کی مٹھاس، اعمال صالحہ کی حلاوت ہمارے اندر موجود ہو اور اللّٰہ کے کلام کی تلاوت’اس کی عظمت کے ساتھ،ایمانی جذبے کے ساتھ،اس انداز پر ہو جس طرح قرآن پاک پڑھنے کا حکم ہے۔

قرآن کی تلاوت کیسی ہونی چاہیے؟: 

اللّٰہ کے رسولﷺ نے دعا فرمائی ہے: وارزقنی ان اتلوہ علی نحو الذی یرضیک عنی  اے اللّٰہ مجھے اس طرح قرآن پڑھنے کی توفیق عطافرما،جو پڑھنا جو تجھے پسند ہے،جو تجھے راضی کردے۔ ہم قرآن کو پڑھیں،اس طرح پڑھیں کہ گویا اللّٰہ ہم کو حکم دے رہاہے کہ تم قرآن پڑھو اور مجھ کو سناؤ۔ ہم اللّٰہ کو سنانے کی نیت سے پڑھیں،جذبہ ہمارا یہی ہونا چاہیے ۔ قرآن پاک کو خوش الحانی کے ذریعہ زینت دینے کا بھی حکم ہے؛مگر اصل جو جذبہ ،جو شوق اور ایمانی حلاوت ہونی چاہیے کہ اللّٰہ کاپاک کلام پڑھ رہے ہیں، اس سے بہر حال ہمارا دل خالی نہ ہو اور جس طرح قرآن کی تلاوت سے ہمارے کان آشنا ہورہے ہوں،اسی طرح ہمارے دل بھی اس سےاثر قبول کررہے ہوں۔

رمضان المبارک میں عام طور پر نیکی اور خیر کا ماحول ہوتاہے؛اس لیے تلاوت  قرآن کا سلسلہ اہمیت کے ساتھ جاری رہتا ہے؛مگر رمضان کے گزرجانے کے بعد کئی کئی دن تک قرآن مجید پڑھنے اور دیکھنےکی نوبت نہیں آتی ۔ایسا نہیں ہونا چاہیے ؛بل کہ ہر دن اہتمام کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت ہواور ہم وقت فارغ کرکے کچھ نہ کچھ تلاوت کا معمول  بنائیں ۔

اللّٰہ تعالی ہم سب کو قرآن پاک کا پورا پورا ادب کرنے اور اس کے حقوق کو اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×