اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

شبِ برأت؛فضائل واعمال

عربی زبان میں”براء ت” کے معنٰی” چھٹکاراپانے ” کے ہیں،لیلۃ البراء ۃ کی تشریح‘درجنوں احادیث کریمہ کی روشنی میں جہنم سے نجات اورخلاصی پانے کی رات سے کی گئی ہے؛چوں کہ شعبان کی پندرھویں شب میں اللہ عز و جل اپنی تمام مخلوق کی طرف (خصوصی)تجلی فرماتا ہے،بندوں کے دامن مراد کو خوشیوں سے بھردیتا ہے، بخشش ومغفرت کے ہرسمت دہانے کھول دیتاہے اور آسمان ِدنیا سے نام بہ نام ندا لگائی جاتی ہے:ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ میں اس کی مغفرت کردوں؟ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کوعطا کردوں؟ہے کوئی فلاں؟ ہے کوئی فلاں؟۔(فضائل الاوقات للبیہقی)غرض:شب براء ت رحمتوں کی برسات، مغفرتوں کی سوغات ہے اور گنہ گاروں کے لئے الطاف الہی سے فائدہ اٹھانے کی مقدس رات ہے۔
زیر نظر مضمون میں ہمارا مقصدمعتبر روایات کی روشنی میں شب برات کی اہمیت وفضیلت کو اجاگر کرنا، اس میں مشروع اعمال کی وضاحت کرنا اور اس تعلق سے ہونے والی بے اعتدالیوںکی نشان دہی کرنا ہے۔
شب براء ت کی فضیلت:
ذخیرۂ احادیث میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ شب برات کی اہمیت وفضیلت سے متعلق متعدد روایات،صحیح اسانیدکے ساتھ کتب حدیث میں موجود ہیں؛جن میں سے بعض کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
1۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اللہ کے رسولﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،پس اللہ تعا لیٰ اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے۔ (صحیح الترغیب و الترھیب للالبانی،رجالہ ثقات)
2۔حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دیں۔(یعنی جب تک وہ بغض اور کینہ ختم نہ کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت بھی نہیں فرمائے گا)۔(صحیح الجامع الصغیرللالبانی،اسنادہ حسن)
3۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: میں نے اللہ کے رسول ﷺکو ایک رات گم پایا،میں (آپؐ کو تلاش کرنے کے لیے) نکلی تو آپ بقیع(مدینہ کا قبرستان) میں موجود تھے۔چناں چہ آپ ﷺنے فرمایا: اے عائشہ! کیا تجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تجھ سے ناانصافی کریں گے؟ حضرت عا ئشہ ؓفرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ا!میرا گمان یہ تھا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس گئے ہوں گے۔پس آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ (گناہوں)کی مغفرت فرماتا ہے۔ (رواہ الترمذی)
4۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:جب شعبان کی پندرھویں شب ہوتو اس رات قیام کرو اور اس کے بعد والے دن روزہ رکھو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج ڈوبتے ہی آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور ارشادفرماتا ہے: کیا کوئی مغفرت کا طلب گار ہے کہ میں اس کو بخش دوں، کیا کوئی رزق چاہنے والا ہے کہ میں اس کورزق عطا کروں، کیا کوئی مصیبت کا ماراہوا ہے کہ میں اس کو عافیت دوں، کیا کوئی ایسا ہے، کیا کوئی ایسا ہے، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ و صححہ ابن حبان)
شب براء ت؛کیا کریں،کیا نہ کریں؟:
اس باب کی مختلف روایات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ پندرہ شعبان کے سلسلے میں درج ذیل تین کام صحیح احادیث سے ثابت ہیں:
1: اس رات‘اللہ سبحانہ وتعالیٰ جتنی توفیق دیں، اتنی دیر گھر میں انفرادی عبادتیں کریںاور اگر نیند کا تقاضا ہو توآرام کرلیںپھر تہجد کے وقت بیدار ہوکر نوافل پڑھیں؛مگریاد رکھیں! اس رات کی کوئی مخصوص عبادت مثلاً بارہ رکعتیں پڑھنا اور ہر رکعت میں تیس دفعہ’’قُلۡ ھُوَ اللّٰہ ُ‘‘پڑھناکسی بھی صحیح یا حسن روایت سے ثابت نہیں ہے؛ بلکہ اس رات کی مخصوص عبادات کے حوالے سے جتنی روایات مروی ہیں وہ موضوعات کے درجے کی ہیں؛ جن پر عمل کی کوئی گنجائش نہیں۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بخشش و مغفرت کی اس عظیم رات کو ہم نے ہنگاموں کی رات بنا دیا ہے،مسلمان مسجدوں اور قبرستانوں میں جمع ہوتے ہیں، کھاتے پیتے اور شور شراباکرتے ہیں، یہ سب خرافات ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔
2: اس رات حسب سہولت عبادت کا اہتمام کرنے کے بعداگلے دن روزہ رکھناہے، یہ روزہ مستحب ہے۔ویسے عمومی اعتبار سے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا اللہ کے رسول ﷺسے ثابت ہے؛لیکن آپؐ نے اپنی اُمت کو پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے شفقتاً منع فرما دیا تاکہ رمضان کے روزوں میں سستی پیدا نہ ہو۔اس لیے شعبان کے مہینے کی عموعی فضیلت کے تحت یا ایامِ بیض میں روزہ رکھنے والی صحیح احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ حضرت قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کے ر سول ﷺہمیں ایامِ بیض یعنی ہر مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے (مسنداحمد)اس کے علاوہ پندرہ شعبان کے روزے سے متعلق حضرت علیؓ کی مستقل روایت بھی ہے؛جس سے اس عمل کی تائید ہوجاتی ہے۔
3: اس رات میں اپنے لیے، اپنے مرحومین کے لیے، اور پوری امت کے لیے مغفرت کی دعا کریں، اس کے لئے قبرستان جانا ضروری نہیں، اس رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان ضرور گئے ہیں، مگر چپکے سے گئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اتفاقاً پتہ چل گیا، نیز حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نیاس رات میں قبرستان جانے کا کوئی حکم بھی نہیں دیا، اس لئے کبھی کبھارزندگی میں اس پرعمل کیا جاسکتاہے۔
مندرجہ بالا تین اعمال ہی شب براء ت کے موقع پر کرنے سے متعلق ہیں، ان کے علاوہ دیگر تمام اعمال خلافِ سنت، بدعات و خرافات اور ایجاد بندہ کی قبیل سے ہیں، جن کی شریعت اسلامیہ میں قطعاً گنجائش نہیں۔ ذیل میں قدرے تفصیل کے ساتھ چند خرافات ورسومات کا ذکر کیاجارہاہے،ان سے بچنے کی فکر کریں!
(۱) آتش بازی
اس رات ہونے والی بدعات وخرافات میں سب سے بدترین رسم ’’آتش بازی‘‘ ہے،جومختلف گناہوں اور معصیتوں کا مجموعہ ہے۔آتش بازی میں جہاں اسراف و فضول خرچی اور دوسروں کو تکلیف پہونچانے کا گناہ ہے وہیںآتش پرستوں اور کفار ومشرکین کی نقالی بھی ہے، بڑی دھوم دھام کے ساتھ بعض نوجوان اس مبارک رات کی عظمت کو پامال کرتے ہوئے آگ کا یہ کھیل کھیلتے ہیںاور خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی نیازمندی اور عبادت واستغفار کا تحفہ پیش کرنے کے بجائے بیہودہ کھیلوں اور پٹاخوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
(۲) چراغاں کرنا
شبِ براء ت کے موقع پر بعض لوگ گھروں، مسجدوں اور قبرستانوں میں چراغاں کرتے ہیں، یہ بھی اسلامی طریقے کے خلاف ہے اور غیرمسلموں کے تہوار کی نقل و مشابہت ہے۔ علامہ بدرالدین عینیؒنے لکھاہے کہ: چراغاں کی رسم کا آغاز یحییٰ بن خالد برمکی سے ہوا ہے، جو اصلاً آتش پرست تھا، جب وہ اسلام لایا تو اپنے ساتھ آگ اور چراغ کی روشنی بھی لایا، جو بعد میں جاکرمسلم سوسائٹی کا حصہ بن گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کو مذہبی رنگ دے دیاگیا۔ (عمدۃ القاری ) اسی طرح غیرمسلموں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے یہ رسم ہم نے اسلام میں داخل کرلی اور غیروں کی نقالی کرنے لگے، جب کہ غیروں کی نقل ومشابہت پر احادیث مبارکہ میںسخت وعیدیں آئی ہیں ۔
(۳) حلوہ پکانا
شبِ براء ت میں بعض لوگ حلوہ بھی پکاتے ہیں؛ حالاں کہ اس رات کا حلوے سے کوئی تعلق نہیں۔ آیات کریمہ، احادیث شریفہ، صحابۂ کرام کے آثار، تابعین و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شیطان نے یہ سوچا کہ اس رات میں عبادت واستغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ لا تعداد لوگوں کی مغفرت فرمائے گا اور ان کی نیکیوں میں اضافہ ہوگا تو مجھ سے یہ بات کیسے برداشت ہوگی؛ اس لیے اس نے مسلمانوں کو ان خرافات میں پھنسا کر سنّت طریقے سے دور کردیا۔بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایاتھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک غزوئہ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوئہ احد ماہِ شوال میں پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے!
غرض یہ تمام رسمیں‘ خرافات اور بے اصل ہیں، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں؛ لہٰذا ان سب چیزوں سے احتراز لازم ہے، ہماری کامیابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں مضمر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: کُلُّ اُمَّتِی یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ اِلاَّ مَنۡ اَبٰی، قَالُوۡا: وَمَنۡ یَّابٰی قَالَ مَنۡ اَطَاعَنِیۡ دَخَلَ الۡجَنَّۃَ وَمَنۡ عَصَانِیۡ فَقَدۡ اَبٰی(بخاری شریف ۲/۱۸۰۱، حدیث ۰۸۲۷) یعنی میری امت کا ہر ہر فرد جنت میں داخل ہوگا؛ مگر جو انکار کرے گا اور بات نہیں مانے گا وہ جنت سے دور رہے گا، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! انکار کون کرسکتا ہے؟ ارشاد ہوا: جو شخص میری اطاعت و فرماں برداری کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو نافرمانی کرے گا اس نے گویا انکار کردیا، جس کی وجہ سے وہ جنت سے محروم رہے گا۔(ملخص از ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند،جون،2015)
ملک کے موجودہ حالات میں جب کہ وائرس کے پھیلنے کے اندیشے سے نماز باجماعت اور جمعہ وغیرہ کے لیے بھی گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہے،اس لیے مسلمانوں سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ شب براء ت کے اس اہم موقع پر بھی اپنے جذبات کی قربانی دیں،اجتماعات منعقد کرنے سے بالکلیہ اجتناب کریں، مساجد یا قبرستان جانے کا ارادہ ترک کردیں، اپنے بچوں اور جوانوں کو باہر نکلنے سے باز رکھیں، چراغاں یا پٹاخہ بازی جیسی رسوم اور گناہوں سے مکمل پرہیز کریں، اور حسب توفیق، رات میں جاگ کرنوافل اورتوبہ استغفار کا اہتمام کریں بالخصوص اس وباسے ساری انسانیت کی نجات اور متاثرین کی صحت و سلامتی کے لیے روروکر دعائیں کریں۔
المختصر:خوش نصیب،سعادت منداور نیک بخت ہیں وہ خوش عقیدہ مسلمان جو رحمت و نو ر میں ڈوبی ہوئی،نور و نکہت سے معموراس شب کو اللہ عز و جل کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارتے ہیں اس شب کی قدر و منزلت کو ذہن و فکر میں رچا بسا کر اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں گریہ وازاری کرتے ہیں، اپنے خالق حقیقی سے لو لگاکر انوار وبرکات حاصل کرنی کی تگ و دو کرتے ہیں، اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو کر اس کی بارگاہ عالی میں سچی توبہ کا عزم کرتے ہیں،انابت و استغفار کے بعد آئندہ کے لیے دین پر استقامت کی دعائیں کرتے ہیںاوراقبال مرحوم کی زبانی یوں گویا ہوتے ہیں ؎

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جواماں ملی توکہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کوترے عفوِبندہ نوازمیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×