سیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

دخترانِ ملت کی آبروریزی ؛ اسباب وحل

آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں ہرچیز بہت آسانی سے دستیاب ہے ،متنوع اسباب و وسائل کی فراوانی و بہتات ہے، جدید ٹکنالوجی اور نت نئی اختراعات کی بناء پر کسی بھی چیز کاحصول اب مشکل نہیں رہ گیاہے ؛مگر گہما گہمی کے اس دور میں سب سے زیادہ انمول، قیمتی اور نایاب چیز کوئی رہ گئی ہے تو وہ”انسانیت” ہے، جو رفتہ رفتہ عنقاء ہوتی جارہی ہے ۔ حالات کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہم  نے سب سے پہلے اجتماعی طور پر انسانیت کا قتل عام کیا پھر شاید اسے دفنانا بھول گئے ؛اسی لیے آج انسانیت ایک لاوارث لاش کی شکل میں بد روح بن کر چہار جانب گھومتی دکھائی دے رہی ہے اور درندہ صفت لوگ اپنے چہروں پر انسانیت کا غازہ مل کر معصوموں کو درندگی کا نشانہ بناتے جارہے ہیں ۔
کسی زمانے میں درندوں کو پہچاننا آسان کام تھا،لوگ درندوں کی شکل دیکھ کر پہچان جاتے تھے کہ یہ شیر ہے ،یہ چیتا ہے ،یہ ریچھ ہے ؛ لیکن اب درندے انسانوں کے درمیان رہتے ہیں،انسانوں کی سی بود و باش رکھتے ہیں،اور انسانوں ہی پر حملہ آور ہیں۔ایک درندے وہ ہیں جو اپنے نوکیلے پنجوں،تیز دانتوں کے ذریعے بے گناہ انسانوں پر حملہ کرتے ہیں اور انہیں موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں اور ایک درندے یہ ہیں جو انسانوں کے بھیس میں حیوانیت کا ننگا ناچ کرتے ہیں ،قوم کی چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کو ہوس کا شکار بناتے ہیں، معصوم بھولی بھالی لڑکیوں کو بربریت کا نشانہ بناتے ہیں اورنرم ونازک کلیوں کو اس بے دردی سے مسل کر رکھ دیتے ہیں کہ حیوانیت بھی شرمسار ہوجاتی ہے ، چشم فلک بھی نمناک ہوجاتی ہے اور پتھردل بھی رونے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔
میراماننا ہے کہ اِن انسان نما حیوانوں سے وہ درندے بہتر ؛بل کہ لاکھ درجہ بہتر ہیں جنہیں اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ تو نہیں،جو احساس و شعور سے عاری ہونے کے باوجود اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ اس قسم کی گھناؤنی حرکت تو نہیں کرتے ،اپنی مادہ کا کسی درجہ میں احترام توکرتے ہیں ؛مگر یہ انسان نما وحشی جانور انسانیت کے حدود کو تجاوز کرتے ہوئے ،بے حیائی کی ساری حدیں پھلاند کر سفاکی کی اس گہری کھائی میں جا گرتے ہیں جہاں انہیں کوئی انسان نظر نہیں آتا۔
دخترِ وطن کا اک اور سانحہ :
اس وقت ہمارے ملک ہندوستان میں خواتین کی عزت وآبرو کاتحفظ ایک مشکل ترین مسئلہ بن چکاہے ۔ہر روز زنا بالجبر کے متعدد واقعات اخبارات کی سرخی بنتے رہتے ہیں ،بہت سے واقعات پر احتجاج بھی منظم کیاجاتا ہے ،پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں آواز بھی بلند ہوتی ہے ،مجرموں کو وقتی طور پرسخت سزائیں بھی دی جاتی ہیں ؛مگر حال یہ ہے کہ ان کا کوئی مثبت اثر دکھائی نہیں دیتا ۔ابھی چند روز قبل کا واقعہ ہے کہ حیدرآبادکے قریب شاد نگر میں ایک خاتون ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی پھر اسے جلا کر خاکستر کردیاگیا، قتل اور جلا دینے کے اس دل دہلا دینے والے معاملے نے پورے ملک کوجھنجھوڑکررکھ دیا،حیدرآباد سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور مجرمین کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ۔
ہرخاتون خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والی ہو بہ حیثیت انسان قابل احترام ہے ،نبی پاک ﷺنے غیر مسلم خواتین کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی ہے ۔تاریخ اسلام کے اس واقعہ کا ذکر یہاں بے جا نہ ہوگا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن کے گورنر تھے ۔ انہوں نے بغاوت کو ختم کیا اور باغی لیڈروں کو گرفتار کرکے مدینہ بھیج دیا۔ ان میں عدی کی بہن سفانہ بنت حاتم بھی تھی، وہ بھی حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئیں تو انھوں نے کہا کہ میں سخی حاتم طائی کی بیٹی ہوں، میرا باپ بھوکوں کا پیٹ بھرتا تھا اور غریبوں پر رحم کرتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تیرے باپ میں مسلمانوں کی سی خوبیاں تھیں۔ عدی کی بہن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر عرض کیا کہ میری آپ سے ایک درخواست ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو قبول فرماکر مجھ کوشکریہ کا موقع دیجئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کیاہے ؟۔ عدی کی بہن نے کہا کہ میرے والد فوت ہوچکے ہیں‘ میرا محافظ یعنی بھائی بھاگ گیاہے ۔ آپ مجھ پر احسان فرمائیں یعنی آزاد کردیں تو اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔میر ابھائی آپ کی فوج سے خوف زدہ ہوکر شام کے علاقہ میں بھاگ گیا ہے ۔ آپ مجھ کو اجازت دیں کہ میں اس کو لے آؤں اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے لئے ایک امن نامہ لکھ دیں۔
یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چپ چاپ چلے گئے اور کچھ جواب نہیں دیا۔ دوسرے روز پھر وہاں سے آپ کا گزر ہوا تو پھر اس نے وہی درخواست دہرائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم جلدی کیوں کرتی ہو، جب تمہارے علاقہ سے کوئی آئے گا جس پر تم کو اعتماد ہو، اس کیساتھ چلی جانا۔ چنانچہ چند یوم بعد ان کے رشتہ داروں میں سے چند اشخاص آگئے ۔ عدی کی بہن کہتی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے رشتہ داروں میں سے ایسے لوگ آگئے ہیں جن پر مجھ کو اعتماد ہے ، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے کپڑے کے جوڑے بھیج دئے اور میرے لئے زادراہ اور سواری مہیا فرمائی۔ میں اپنے قرابت داروں کیساتھ بھائی کے پاس پہنچ گئی۔ یہ ہے اسلام کی انسانیت نوازی اور خواتین کے ساتھ بلا تفریق مذہب وملت اس کا حسن سلوک۔
غورکیاجائے تومسئلہ صرف ایک خاتون ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت ریزی کانہیں ؛بل کہ ایسی ہزاروں معصوم جانوں کاہے جنہیں آئے روز جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،حکومت ہند کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان بھر میں ہر 20 منٹ کے اندر ایک خاتون کی عصمت ریزی کی جاتی ہے ۔ این سی آر بی (قومی جرائم ریکارڈس بیوروکی جانب سے جاری کردہ ڈاٹا) 2011 کے اعداد و شمار کے بموجب،حد تو یہ ہے کہ اس گھناؤنے فعل کا شکار ہر تیسری معصوم نابالغ لڑکی ہوتی ہے ۔
اگر ہندوستان میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے دہلی کمیشن فار وومن کی سربراہ سواتی مالیوال کی بات کو تسلیم کیا جائے تو شرح جرم اتنی ہے کہ انسان اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جائے ’’این ڈی ٹی وی ‘‘ کے ایک پروگرام میں انہوں نے پولیس میں درج ہونے والی شکایات کا جائزہ لیاتو انکشاف ہوا کہ 2012سے لے کر 2014تک صرف دہلی میں 31ہزار 4سو46لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پولیس میں درج ہونے والی ان ایف آئی آرز کے کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں ملی، ایسے میں کیا ہندوستانی حکومت کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ کوئی مضبوط رد عمل دکھائے ؟ ہندوستان میں جنسی زیادتیوں اور عصمت دری کے کیسز کابڑھتا تناسب ہر صاحب احساس کو رلاتی اور ہر دردمند دل کو غمگین کرتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ انسانیت دم توڑ رہی ہے ،ہرسمت درندگی رقصاں ہے ،مشرقی تہذیب کا جنازہ نکل چکاہے ، بے رحم شیطان ہوس کے پجاری معصوم جانوں کو عصمت دری کے بعد قتل کرکے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پرڈال دیتے ہیں، کھیتوں یا جھاڑیوں میں پھینک دیتے ہیں،ندی یانہرکے حوالے کردیتے ہیں؛لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسے مجرموں کو کوئی سزا نہیں دی جاتی،غریب و مظلوم بے بس ولاچار والدین دھائی دیتے رہ جاتے ہیں اور اپنے معصوموں کی بے وقت موت پرآنسو بہا کر خاموش ہو جاتے ہیں؛مگر ان کی فریاد رسی کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھتا اور بسااوقات عوام کی حفاظت کے لئے بنائی گئی بے ضمیر پولیس نشانہ بننے والے خاندان کی ایف آئی آرتک درج نہیں کرتی اور اگر درج کر بھی لیتی ہے تو بگڑے ہوئے مجرم رئیس زادوں اور حکومت سے تال میل رکھنے والے اہل کاروںسے پولیس کا باہر ہی باہر لین دین ہوجاتا ہے اورمجرم سر اٹھا کر اسی معاشرے میں کھلے عام گھومتے نظر آتے ہیں۔
اسباب و حل :
آج سے نصف صدی قبل کاجائزہ لیاجائے تو اندازہ ہوگا کہ اس وقت شرافت کا غلبہ تھا،امن و امان کا ماحول تھا،بلاخوف و خطر ایک غیر مسلم پڑوسی اپنے مسلمان پڑوسی کے گھر اپنی بیٹی،بہن اور بیوی چھوڑجاتااوراسے کسی قسم کا اندیشہ نہ ہوتا؛مگر جوں جوں زمانہ ترقی کررہاہے برائیاں بھی اسی کثرت سے پنپتی جا رہی ہیں، فواحش و منکرات کی مختلف جدید شکلوں کا چلن اس قدرعام ہو تا جا رہا ہے جس کا کچھ دنوں پہلے تصور بھی نہیں تھا، گویا سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ معاشرہ میں بے حیائیاں بھی ترقی پذیر ہیں، کہیں فیشن کہیں سیرو تفریح کہیں ٹائم پاس اور کہیں زمانہ سے موافقت کے نام پر طرح طرح کی برائیاں وضع کر لی گئی ہیں جن کی لپیٹ میں نہ صرف غیر مسلم ؛بلکہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ہے ۔ مرد، عورت، جوان، بچہ، بوڑھا، اور امیر و غریب کے امتیاز کے بغیر بیشتر افراد دانستہ یا نادانستہ طور پر معاشرہ میں رائج فواحش و منکرات کے شکار ہیں ،جن پر انہیں کوئی احساس یا غم نہیں، کیوں کہ یہ زمانہ کی دین ہے ، ان سے منہ موڑ لینا ان کے نزدیک عقلمندی نہیں یا پھر تغیرات زمانہ کو اپنائے بغیر زندگی کو بے جان اور ناقص تصور کیا جاتا ہے ۔
چار پانچ دہائی قبل نوجوانوں کو سینما دیکھنے میں شر م محسوس ہوتی تھی،سرعام منشیات کا استعمال جرم سمجھاجاتاتھا،محرم اور حجاب کے بغیر عورت کے گھر سے نکلنے کا تصور بھی دشوار تھا؛مگر آج یہی سب چیزیں روشن خیالی کا عنوان اوربدلتے زمانے کا معیاربن چکی ہیں۔
پہلے جوائنٹ فیملی سسٹم تھا ،گھر کاہر بچہ، دادا ،نانا، چاچااور بزرگوں کی نگرانی میں چل کر جوان ہوتا تھا اوراسے ہر قدم پر روکنے ٹوکنے والے لوگ موجود ہوتے تھے ، مگر نیو کلیئر فیملی نے بچوں کو آزاد چھوڑدیا ہے ۔ سارا سارا دن گھرمیں اکیلے رہنا،بے دریغ منشیات کا ستعمال کرنااور انٹر نیٹ کے ذریعے جذبات کو برانگیختہ کرنے والے ویڈیوز دیکھنا، ان سب چیزوں نے نوجوان نسل کو جانور بنادیا ہے اور پھر آ ج کی عریاں فلموں نے بھی معاشرہ کو بگاڑ نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
ہمارا تعلیمی واخلاقی نظام بھی اس قدر بدترین شکل اختیار کرچکا ہے کہ اگو کوئی خاتون شائستگی اور سادگی اختیار کرنا چاہے تو یہ نظام اس کو نیم برہنہ ، بے حیا اور بے حجاب کر دیتا ہے ۔مرد و خواتین کے لئے کوئی علٰیحدہ نظم نہیں۔ تعلیمی اداروں میں ان کی جماعتوں کے لئے کوئی مخصوص اوقات نہیں،ایسے میں اس قسم کے ہولناک واقعات پیش آتے ہیں تو تعجب کیا ہے ؟؟
ایسے پرخطر حالات میں ہرفرد بشر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندرخوف خدا پیداکرے ؛اس لیے کہ جرائم کا انسدادصرف اور صرف سزاؤں پر منحصر نہیں ہے۔نیز والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کواچھے کردار کا حامل بنائیں ،ان کی نگرانی و تربیت کریں،لباس اور وضع قطع میں ان سے کوئی مصالحت نہ کریں اوریہ بات یادرکھیں کہ انسانی جسم سردی اورگرمی کی شدت جھیل سکتا ہے ، بارش اور ہواؤں کے تھپیڑے برداشت کرسکتا ہے ،وقتی محنت و مشقت سے ہلکان ہوسکتا ہے ؛ مگر فطرت نے جو اس کے جسم کی کچھ ضرورتیں رکھی ہیں ،وہ ان سے علیحدہ رہ کر زندگی نہیں گزار سکتا۔جس طرح بھوک کے احساس پر کھانا پینا طبیعت کا اولین تقاضا ہے اسی طرح بلوغ کے بعد نکاح بھی ہر نوجوان مرد و عورت کی بنیادی ضرورت ہے ؛لہذا نکاح میں بے وجہ تاخیر کے بجائے عجلت سے کام لیاجائے،نکاح کو آسان سے آسان تر بنانے کی کوشش کی جائے اور اولاد کو ان کی طبعی ضرورت کی تکمیل کا درست راستہ بتایا جائے، تب کہیں جاکر ان سانحات کا سد باب ہوسکتاہے اور معاشرہ پاکیزگی و پاکدامنی کی راہ پر گامزن ہوسکتاہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×