اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

کیا… حجابِ صنفِ نازک ہے وبال؟؟

’’عورت‘‘انسانی تہذیب وتمدن کا اٹوٹ حصہ اوربشری ثقافت وحضارت کا انمول جوہر ہے، جس کے دم سے گلشن ِ ارضی میں زیب وزینت ،تصویر ِکائنات میں رنگ ونکہت اورخاندانی ومعاشرتی نظام میں آرام وراحت ہے ،یہی وجہ ہے کہ صرف مذہب ِ اسلام ہی نے اس صنف ِلطیف کو مکمل اعزاز واکرام اوربھرپور عظمت واحترام کے ساتھ تمام اجتماعی ومعاشرتی مسائل میں وہ مساویانہ حقوق اورعادلانہ تحفظات فراہم کئے جن سے محرومی اس کا ازلی مقدر ،اورتہی دامانی اس کی شؤمی قسمت تھی، جو صدیوں کی ذلت ونکبت سے دوچار،برسہابرس کے ظلم وجورسے بے زار،سالہا سال کی مذمت وحقارت سے ناچار،ہر قسم کی شخصی وسماجی برائیوں کا سرچشمہ ،مختلف سیئات ومعاصی کا مقدمہ،زندگی میں درآنےوالی ہرآفت ومصیبت کا پیش خیمہ اورمردوں کی جنسی تسکین،شہوت رانی وہوس پرستی کا واحد ذریعہ سمجھی جا تی تھی،مگرسلام ہو اسلام کے نظام ِ عفت وعصمت پر کہ اس نے اس راندۂ روزگار، اورمظلو م زمانہ کواپنی آغوش رحمت میں لیا،اورپردہ وحجاب جیسے بہترین حصن ِ حصین کے ذریعہ بے حیائی وہو اپرستی کے تحت الثریٰ سے نکال کرحیاداری وپاکدامنی کے بام ِ ثرُیاتک پہونچادیا ،مزید برآں الرجال قوامون علی النساء الخ کے اُصول زرِّین کے ذریعہ مردوزن کے مابین تقسیم کارکا وہ عظیم الشا ن کا رنامہ انجام دیا، جس سے نہ صرف مغرب کی حیا باختہ اورایمان سوز مہلک یلغار کا خاتمہ ہوگیا؛بلکہ ساتھ ہی ساتھ عصر حاضر کے اُن نام نہاد روشن دماغ خود ساختہ دانشوروں کا منھ بھی بندہوگیا جنہوں نے محض فحاشی وعریانی کے فروغ کے لئے بے حجابی کو وقت کا تقاضا اوربے پردگی کو عدل ومساوات قراردے کر اسلامی تہذیب وثقافت کو ملیامیٹ کرنے کی سازش کی۔

لعنت ہومغرب کی اس بے حیا تہذیب اورعریاں ثقافت پر جس نے اسلام کی عطا کردہ اس چادر عفت کو تارتارکرکے جنسی انارکی، مادر پدرآزادی، شہوانی بے راہ روی، اوربدمستی و عیاشی کا وہ ننگا ناچ دکھایاکہ الامان الحفیظ!!!موجودہ مخلوط تعلیمی نظام ہو،یاحقوق نسواں کا پر فریب نعرہ،مستورات کے جنسی فیصلوں کی آزادی ہو، یا برقعہ وحجاب پر پابندی وامتناع کی کوشش غرضیکہ یہ اوراس جیسے تمام تر فواحش وخرافات مغرب کی فکر گستاخ کے عکاس،یورپ کی تہذیب ِ جدید کے غمّاز اورپوری عیّاری وچال بازی کے ساتھ خاتونِ مشرق کولیلائے مغرب کی طر ح اپنی ہوسناکی ،لذّت اندوزی اورشہوت رانی کا ذریعہ بنانے کی وہ فریبی چالیں ہیں،جن کے دامِ تزویر میں امت کی امت پھنستی جارہی ہے،اور نوبت بہ ایں جا رسید ؎

اب مسلمان میں بھی نکلے ہیں کچھ روشن خیال

جن کی نظروں میں حجابِ صنف نازک ہے وبال

چاہتے ہیں بیٹیوں،بہنوں کو عریاں دیکھنا

محفلیں آباد ؛لیکن گھر کو ویراں دیکھنا

حجاب معاشرے کی تطہیر کا اہم سبب:

ہر معقول پسندشخص اس بات سے ضروراتفاق کرے گا کہ قدرت کے فیّاض ہاتھوں نے تمام اعضاء انسانی میں صرف چہرہ ہی کو ایسی شناخت عطاء کی ہے کہ وہ حسن ِ لطیف کی جلوہ نمائیوں کا مرکز،جمال قدرت کی جملہ رعنائیوں کا محوراوردیدہ زیبی ودل فریبی کا سب سے بڑامظہرہے کہ تخلیق ِ جوارح میں وہ خلقت کا حسین شاہکا رہے ؛یہی وجہ کہ قرآن وسنت اوراجماع امت میں اس کے حجاب سے متعلق تفصیلی احکام واردہوئے ہیں ۔

حجاب صرف ایک کپڑے کا ٹکڑا یا معمولی سا نقاب نہیں ہے؛بلکہ یہ معاشرتی ضرورت ہے ایک طرز زندگی ہے، ایک ضابطہِ حیات ہے جو باحجاب خواتین کے کردار کا احاطہ کرتاہے۔ خواتین کے حجاب پہن لینے یا مرد کی داڑھی رکھ لینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمام گناہوں سے پاک ہوگئے،بل کہ یہ اسلام کی تدریجی تربیت کا ایک اہم عنوان ہے،اسلام نےسب سے پہلے عورت کو بیرون خانہ نکلنے ہی سے منع کردیا پھر بہ وقت ضرورت نکلنے کی محدود اجازت دی اور مکمل مستور ہونے کو ضروری قراردیا،سرکاردوعالمﷺنےمختلف اقوال کے ذریعہ عورتوں کو باپردہ رہنے کی تلقین فرمائی حتی کہ مسجد نبوی میں آکر نبی کی اقتدا میں نماز پڑھنی کی خواہش کرنے والی خاتون کو گھر کی اندھیری کوٹھری میں نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اسی کو افضل بتلایا۔

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت میمونہ حضورپاکﷺکے پاس بیٹھی تھیں ۔اتنے میں ابن ام مکتوم آئے اور حضور پاک ﷺنے حضرت میمونہ اور حضرت ام سلمہ کوپردہ کرنے کے لیے کہا۔انہوں نے آپ سےعرض کیاکہ وہ تونابینا ہیں۔حضوراقدس ﷺنے فرمایا تم تونابینا نہیں ہو ؟۔

اسلام کی ان روشن اور واضح تعلیمات کے باوجود آج کل مسلم معاشرہ میں حجاب کو ترقی اورتعلیم کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے، فرسودہ نظام اور جاہلیت قدیمہ سے منسوب کیا جاتا ہے ؛حالاں کہ تعلیم میں پردے کا کوئی عمل دخل نہیں،تعلیم کے لئے یکسوئی اور خیالات کے اجتماع کی ضرورت ہوتی ہے ۔غورکیاجائے تواصل ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہمارے معاشرے کے بنائے ہوئے اُصول ہیں، قدرت کے بنائے ہوئے اُصول کبھی بھی ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے ۔

کہاجاتاہے کہ روس کے ایک ٹیلیویژن چینل نے ایک ڈاکومنٹری فلم بنائی؛جس میں ایک شاپنگ پلازہ میں دو اداکار مرد و عورت کو جھگڑا کر تے ہوئے بتایا:

پہلا سین : ”لڑکی یورپین لباس میں ہے اور مرد اس سے جھگڑا کر رہا ہے ،اسے برا بھلا کہہ رہا ہے”

ڈاکومنٹری میں تقریبا چالیس کے قریب لوگوں کو انہیں دیکھ کر گزرتے ہوئے دکھایا جنہوں نے انہیں یوں جھگڑا کرتے ہوئے دیکھا؛لیکن کسی نے بھی ان کے معاملے میں دخل نہیں دیا۔ لوگ انہیں نظر انداز کرکے قریب سے گذرتے رہے ۔

دوسرا سین : ”وہی مرد و عورت پھر جھگڑا کر رہے ہیں؛لیکن اس بار لڑکی نے اسلامی لباس یعنی حجاب پہنا ہوا ہے”

سب کو یہ دیکھ کر یہ حیرت ہوئی کہ جس نے بھی مرد کو حجاب میں ملبوس لڑکی کو برا بھلا کہتے ہوئے دیکھا، اس نے آکر مرد کو پکڑ لیا اور ڈانٹا کہ وہ اس لڑکی سے کیوں لڑ رہا ہے، کیوں اس لڑکی کو پریشان کر رہا ہے، حتی کہ ایک آدمی نے تو اس مرد کو مارنے کی کوشش بھی کی اور اسے گھسیٹ کر لڑکی سے دور لے گیا ۔ جتنے بھی لوگوں نے انہیں دیکھا، چند ایک کے علاوہ باقی سب نے آکر مرد کو روکا اور ایسا صرف اس وجہ سے ہوا کہ لڑکی حجاب پہنی ہوئی تھی۔

حجاب اور نومسلم خواتین:

نومسلم ہندو دو شیزہ کملا داس جن کا اسلامی نام ثریا ہے ایک انٹرویو میں اس سوال پر کہ آپ کو اسلام میں سب سے زیادہ پرکشش بات کیا لگی؟ کہا:”مجھے مسلمان عورتوں کا برقعہ بہت پسند ہے۔ میں پچھلے 24 برسوں سے پردے کو ترجیح دے رہی ہوں۔ جب کوئی عورت پردے میں ہوتی ہے تو اس کو احترام ملتا ہے۔ کوئی اس کو چھونے اور چھیڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ اس سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔” (ہفت روزہ ’’نئی دنیا‘‘ نئی دہلی 28 دسمبر 1999ء)

ثریا نے اب برقعہ کا استعمال بھی شروع کردیا ہے، وہ پردے کے بغیر زندگی کو آزادی نہیں سمجھتی؛ بلکہ ایسی آزادی کو عورت کے لئے زہر قاتل سمجھتی ہے۔ اس نے اس سوال پر کہ کیا برقعہ آپ کی آزادی کو متاثر نہیں کرتا؟ کہا:’’مجھے آزادی نہیں چاہئے۔ اب تو آزادی میرے لئے ایک بوجھ بن گئی ہے۔ مجھے اپنی زندگی کو باضابطہ اور باقاعدہ بنانے کیلئے گائیڈ لائن کی ضرورت تھی۔ ایک خدا کی تلاش تھی جو تحفظ دے۔ پردے سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ پردہ تو عورت کے لئے بلٹ پروف جیکٹ ہے‘‘۔ (ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں ص 116)

نو مسلم عیسائی خولہ لگاتا کہتی ہیں۔ ’’پہلے مجھے حیرت ہوتی تھی کہ مسلم بہنیں برقعے کے اندر کیسے آسانی سے سانس لے سکتی ہیں۔ اس کا انحصار عادت پر ہے، جب کوئی عورت اس کی عادی ہوجاتی ہے تو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ پہلی بار میں نے نقاب لگایا تو مجھے بڑا عمدہ لگا، انتہائی حیرت انگیز۔ ایسا محسوس ہوا گویا میں ایک اہم شخصیت ہوں، مجھے ایک ایسے شاہکار کی مالکہ ہونے کا احساس ہوا جو اپنی پوشیدہ مسرتوں سے لطف اندوز ہو۔ میرے پاس ایک خزانہ تھا جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہ تھا۔ جسے اجنبیوں کو دیکھنے کی اجازت نہ تھی‘‘۔(ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں 204)

نو مسلم دوشیزہ صونی رولڈ کی سرگزشت۔ ’’میں نے سر ڈھانپنا شروع کیا تو میرے باپ کا تبصرہ یہ تھا کہ بڈھی کھوسٹ لگنے لگی ہو۔ یہ تبصرہ آج کل عام ہے۔ لوگ سر پر اسکارف باندھنا ترک کر چکے ہیں اس لئے شاید وہ مجھے عجوبہ سمجھتے ہیں۔ بہر حال میں تو اپنے آپ کو عجوبہ نہیں سمجھتی ہوں۔ میں مسلمان ہوں اور میں ناروے میں غیر ملکی ہوں۔ میرے مسلم احباب زیادہ تر عرب یا پاکستانی ہیں اس ماحول میں مجھے گرمجوشی، تدبر اور دانائی ملتی ہے، ایسی دانش جو ناروے کے انفرادیت پرست ماحول سے کوسوں دور ہے‘‘۔(ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں ص 224)

ان مبنی بر حق تبصروں سےجہاں اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ حجاب کی کیا اہمیت و ضرورت ہے وہیں یہ بھی علانیہ محسوس کیاجاسکتاہے کہ ثقافتی دہشت گردی کو اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں اسلام عالمی مذہب نہ بن جائے اور وہ خواب جو یہودی دنیا پر حکومت کرنے کا دیکھ رہے ہیں چکنا چور نہ ہوجائے۔ اس لئے اسلامی تہذیب و ثقافت کو کچلنے کی یہ مہم مختلف حیلوں سے جاری و ساری ہے۔

عالمی یوم حجاب کا آغاز :

٤ستمبر کا دن ، مغرب کے نعرہ مساوات کا پردہ چاک کرنےاور اس نام نہادمہذب دنیا کےآزادانہ خدوخال کوواضح کرنے کا دن ہے –

آج سے ٹھیک سولہ سترہ سال قبل ٤ ستمبر ٢٠٠٢ کو فرانس نے یورپ میں پہلی بار حجاب پر قانونا پابندی عائد کر دی، اس سے پہلے جرمنی ، تیونس اور ترکی میں بھی حجاب جیسا پاکیزہ شعار عتاب کا نشانہ بنا، مہذب دنیا کے ان اوچھے ہتھکنڈوں کو روکنے کے لیے اسمبلی فار پروٹیکشن آف حجاب (The Assembly for the Protection of Hijab) نے چار ستمبر کو بطور عالمی یوم حجاب منانے کا اعلان کیا اور اسے شہید الحجاب مروہ الشبرینی سے منسوب کر دیا۔

تب سے لے کر آج تک بیشتر مسلم ممالک میں یوم حجاب منایا جاتاہے،اس حوالے سے مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جن میں حجاب کی اہمیت، افادیت پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی ہے جبکہ تمام بڑے شہروں میں خصوصی سیمینارز، کانفرنسز اور اجلاس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×