اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

آدابِ زیارت مدینہ ( علی صاحبھا الصلوۃ والتسلیم)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے محبت، تکمیلِ ایمان کی علامت اور ہر سعادت سے بڑی سعادت ہے ، اگر اس میں کمی یا خامی ہو گی، تو ایمان نامکمل سمجھاجائے گا۔ حبِ رسول ﷺ،اہل ایمان کے لیے ایک روح افزاء باب کی حیثیت رکھتا ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ تعلق، مومن کا گراں بہا سرمایہ ہے اور کسی مومن کا دل اس سے خالی نہیں ہو سکتا ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان لوگوں سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے ماں باپ، تمہاری اولاد، تمھارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ قبیلہ اور تمہارا وہ مال و دولت جس کو تم سے محنت سے کمایا ہے اور تمہاری وہ چلتی ہوئی تجارت جس کی کساد بازاری سے تم ڈرتے ہو اور تمھارے رہنے کے وہ اچھے مکانات جو تم کو پسند ہیں (پس دنیا کی محبوب و مرغوب چیزیں) اللہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور اللہ کے دین کی راہ کی جدوجہد سے زیادہ تمھیں محبوب ہیں تو انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم اور فیصلہ نافذ کرے اوریاد رکھو اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (توبہ: 24)
اسی جاوداں محبت اور لافانی عقیدت کا کرشمہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے سویدائے قلب میں اس عظیم محسن ومہربانﷺ کے دیار ِپاک کو بہ چشم خویش دیکھنے اور وہاں کی مقدس سرزمین پر سر کے بل چلنے کا جذبۂ دروں رکھتاہے ۔ اور یہ امر اس کی غیرت ایمانی کے بالکل منافی ہے کہ وہ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے ہزاروں میل کا سفر کرے ،اس کے لیے مختلف صعوبتیں برداشت کرے ،مشقتیں اٹھائے ،تکالیف کا سامنا کرے ؛ مگر ان سب کے باوجوداس مقدس سرزمین کی زیارت سے محروم لوٹ آئے جو کائنات ارضی کا نگینہ اور نیک بختی وخوش قسمتی کا زینہ ہے ؛یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں قبر اطہر کی زیارت مسلمانوں کی متفق علیہ سنت رہی اور محبان رسولﷺ بزبان حال وقال یہ کہتے ہوئے جانبِ بطحا گئے ؎

کوچۂ جاناں گئے تو بن کے دیوانہ گئے
بادۂ عشق ومحبت پی کے مستانہ گئے
صبرآیا جب نہ ہم کو پھر تو روزانہ گئے
نعتیے پڑھتے ہوئے بے ا ختیارانہ گئے

زیارت روضۂ رسولﷺکی شرعی حیثیت:
حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ پرنور کی زیارت بلاشبہ قرب الٰہی کا بہت بڑا ذریعہ او رمہتم بالشان عمل ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ارض پاک جہاں پر خیر الرسل سرور انبیاء کا مرقد ہے اللہ کے نزدیک اسے خاص اہمیت او ربرتری حاصل ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نیکوکار اصحاب رضی اللہ عنہم کے مزارات پر حاضری تقرب الٰہی کا ایک بڑا ذریعہ او رخلوص نیت سے عمل کرنیوالوں کے دل پر (جو خدائے واحد کے پرستار اور خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنے اور ممنوعات سے باز رہنے والے بامراد لوگ ہیں) نہایت گہرا اثر ڈالتے ہیں اور ویسے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد روایات میں اپنی قبراطہر کی زیارت کا امر فرمایا ہے ۔چند روایات ملاحظہ ہوں:
آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہے ۔‘‘ (شعب الایمان ، حدیث: 4159)نیز آپ ﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ:’’جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعدمیری قبر کی زیارت کی ، تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔‘‘ (شعب الایمان، حدیث :4153)
اسی طرح صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جب کوئی مسلمان میری قبر پر آکر سلام پیش کرتا ہے ، تو اللہ تعالی میری روح کو متوجہ فرمادیتے ہیں ؛ یہاں تک کہ میں خود اُس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔‘‘ (سنن ابو داؤد، حدیث: 2041)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ مدینہ طیبہ روانگی کے وقت زیارتِ قبر اطہر کی نیت سے سفر کرنا درست نہیں ؛حالاں کہ چاروں فقہی مذاہب اور جمہور علماء اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرنا افضل ترین عبادت ہے ۔مسجد نبوی اور مدینہ طیبہ کی ساری فضیلت روضۂ نبوی ہی کی وجہ سے ہے ۔اس لئے جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک زیارت روضۂ پاک کے لئے سفر کرنا مندوب ومستحب ہے ۔
دیار حبیب پر حاضری اور اس کے جواز واستحباب پرمولانا عبدالماجد دریابادی ؒ کی یہ چشم کشا تحریرملاحظہ فرمائیں ،چناں چہ قران کریم کی سورۂ نساء کی آیت 64″ و لو انھم اذ ظلمواانفسھم جاؤک: کے حوالے سے ارقام فرماتے ہیں :
’’خوش نصیب تھے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے گڑ گڑ ا کر معافی مانگی اور رسول نے جس کے حق میں سفارش فرمائی؛ لیکن آج اس چودھویں صدی میں امت کا کوئی فاسق و فاجر، بد عمل اور نامہ سیاہ اگر حکم ’’جاؤک‘‘ کی تعمیل کرنا چاہے تو کیا اس کے لیے سعادت و ہدایت کا دروازہ بند خدا نخواستہ قیامت تک کے لیے بند، بالکل بند ہوچکا ہے ۔ اور اس کی قسمت میں بجز مایوسی و محرومی کے اور کچھ نہیں ؟ موسم گل جب چمن سے رخصت ہو چکتا ہے اور کوئی بوئے گل کا متوالا آ نکلتا ہے تو عرق گلاب کے شیشوں اور قرابوں کو غنیمت سمجھتا ہے پھر اگر آج کوئی بوئے حبیب کا متوالا حکم ’’جاؤک ‘‘ کے تعمیل میں ، اپنے کو ہزاروں میل کے فاصلہ سے دیارے حبیب تک پہنچتا ہے اور اپنے مظالم نفس کی تلافی و عذر خواہی کے لیے اپنے ایمان اور اپنی بیعت کی تجدید اپنی تباہ کاریوں پشیمانی اور اشک افشانی کے لیے حبیب تک نہ سہی آستانہ حبیب تک گرتا پڑتا پہنچتا ہے تو کیا اس پر ’’ بدعت و شرک ‘‘ کا فتوا لگایا جائے گا؟جہاں اللہ کے سب سے بڑے پرستار (رسول ﷺ)نے نماز وں پر نمازیں پڑھیں اور آخری نمازیں پڑھیں ، جہاں عبد و معبود کے راز و نیاز ، حیات ناسوتی کی آخری سانس تک جاری رہے جہاں ہیبت اور خشیت سے لرزتے ہوئے گھٹنے خدا معلوم کتنی بار رکوع میں جھکے ،جہاں ذوق و شوق سے دمکتی ہوئی پیشانی بارہا سجدے میں گری ، جہاں امت کے گنہگاروں اور سیہ کاروں کے حق میں درد بھری دعاوں کے لیے ہاتھ اٹھے اور ہلے ، جہاں ، ٹوٹی ہوئی آس والوں کی بیشمار مرتبہ تشفی کرائی گئی ، جہاں وہ جسد اطہر آج آرام فرما ہے جس کے طفیل میں آسمان بھی وجود میں آیا اور زمین بھی اس عظمت اور جلال والی اس برکت اور نورانیت والی زمین مقدس مکیں کے مقدس مکان پر بھی حاضر ہونا کس آئین ’’ توحید‘‘ و سنت کے مطابق ہو سکتا ہے ؟ (سفرنامۂ حجازصفحہ :101 )
ایک محب صادق کی عاشقانہ منظر کشی:
ایک زائر حرم اور عاشق رسول زیارت حرمین کی سرگذشت لکھتے ہیں اور لکھتے کیاہیں ؟دامن تھامے ساتھ لیے چلتے ہیں ،کہتے ہیں کہ مناسک حج سے فراغت کے بعدابھی مدینہ منورہ کی حاضری رہتی ہے ،طلب وشوق کو مہمیز لگانے والی آوازیں جب کانوں میں پڑتی ہیں تورہوارِ خیال مدینہ شریف کی گلیوں میں پہنچ جاتا ہے ،آپ نے دیکھا ہوگا؛بلکہ سنا ہوگا لاری اڈوں پر کنڈیکٹر لوگ مختلف شہروں کی آوازیں لگاتے ہیں ،آپ تصور کیجیے کوئی شخص مدینہ مدینہ کی آواز لگائے تو آپ کے دل کی کیا کیفیت ہوگی ؟ذراملاحظہ کیجیے ……
’’ یہیں سے مدینہ منورہ جانے کے لیے بھی گاڑیاں ملتی تھیں اور’ مدینہ‘ کی بھی آواز لگتی…… انداز کچھ یوں ہوتا ……’’ مدینہ مدینہ ، مدینہ مدینہ ، مدی ی ی ی ی ی نہ‘‘ …… پہلے تو پکارنے والا مدینہ مدینہ پکارتا اور پھر طویل لَے اور بلند آواز میں’’ مدی ی ی ی ی ی نہ‘‘ کچھ اس اَدَا سے کہتا کہ دل کھنچ کے رہ جاتا، لگتا پکارنے والے نے دِل کو مٹھی میں لے کر بھینچ لیا ہے ، کان تو اس آواز کی سماعت سے لذت اندوز ہوتے ہی تھے ؛مگر دل میں ایک عجیب والہانہ پن دَرآتا……روح کے تار ساز بن کے بجنے لگتے ، یہ تصوّر ہی اِتنا کیف آورتھا کہ اب مدینہ منورہ کی حاضری قریب ہے ۔‘‘
مصنف مدینہ منورہ پہنچنے والے ہیں،پہلی پہلی حاضری ہے ،دل دَھڑک رہا ہے ،گنبد خضریٰ اچانک کسی وقت نظرآنے والاہے ،تب زائر پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے ؟سنیے ……
’’ زباں پر درود جاری تھا کہ دِل زور سے دَھڑکنے لگا …… کہ ابھی کسی وقت بلند و بالا عمارتوں کی اوٹ سے گنبد خضریٰ نظر آنے والا تھا…… آنکھ تو جیسے جھپکنا بھول گئی تھی…… پھر اَچانک ہی مسجد نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے مینار اور اُمتیوں کے دِلوں کی دھڑکن گنبد خضریٰ پر نظر پڑی…… لے بھئی !……
ڈھونڈتی تھی گنبد خضریٰ کو تُو دیکھ وہ ہے اے نگاہِ بے قرار
آنکھوں نے اپنی بوندیں ٹپکا دیں اوردل شکر نعمت سے لبریز ہوگیاکہ اَﷲ رب العالمین نے آج یہاں تک پہنچنے کی توفیق عطا فرما دی،اس میں اپنا کیا زور تھا ،یہ محض اس ذاتِ باری تعالیٰ کی عطا تھی۔‘‘
مدینہ منورہ میں ایک ایسی شے ہے جسے دیکھنے کے لیے ہرعاشق کی آنکیں تڑپتی رہتی ہیں۔جی چاہتا اس کی تصویر ہمیشہ آنکھوں میں بسی رہے ۔جی ہاں وہ گنبد خضری ٰ ہے ،دیکھیے تو کیا نقشہ کھینچا ہے ……
’’گنبد خضریٰ ……قبۃ الخضراء……شعور کی آنکھ کھلنے سے بھی پہلے نہاں خانہء دل میں نقش ہوجا نے والی ایک جاں فزا تصویر!……
نبوت ورسالت کا سرِ نہاں ……گنبدِ خضریٰ!
رحمت،رافت ،عطوفت،شفاعت اور جودوکرم کا اِک نشاں ……گنبد خضریٰ!
غنچہء دل کے لیے وجہِ نمو،بے قراریوں کے لیے وجہ ِ سکوں……گنبدِخضریٰ!
ایک ایسا غنچہء شگفتہ جس کا جمال اور جس کی آب وتاب آنکھوں کی بصارت کے لیے سرمہء حیات ہے ۔
ایک ایسا محل،ہوائیں جب اس کا طواف کرکے اپنی راہ لیتی ہیں تو راستے بھر مشک وعنبر ایسی خوشبوئیں بکھیرتی چلی جاتی ہیں۔
اذا ھبت الاریاح من نحو طیبۃ اھاج فؤادی طیبھا وھبوبھا
وہ آبگینہ رنگ گنبد جس کے محیط میں شاہِ دوسَرا،سیّدالا ُمہ ،سیّدالخلائق،خیرالعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم آرام فرما ہیں۔جب تھکے ماندے ،زمانے بھر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے شکستہ پامسافر مدینے میں داخل ہوتے ہیں تو گنبدِ خضریٰ کی صرف ایک جھلک دیکھ لینے سے ہی ان کی ساری تھکن کافور ہوجاتی ہے ……‘‘(میانِ دو کریم)
آدابِ زیارت مدینہ :
(1) جب مدینہ منورہ کو جائے تو راستہ میں درود شریف کثرت سے پڑھے ؛بلکہ فرائض اور ضروریات سے جو وقت بچے ، سب اسی میں صرف کرے اور خوب ذوق و شوق پیدا کرے اور اظہار محبت میں کوئی کمی نہ چھوڑے ، اگر خود یہ حالت پیدا نہ ہو تو بتکلف پیدا کرے اور عاشقوں کی صورت بنائے ۔ جو شخص جس قوم کی مشابہت پیدا کرتا ہے وہ اسی قوم میں شمار ہوتا ہے اور راستے میں جو مقامات مقدسہ ہیں ان کی زیارت کرے اور جو مساجد مخصوصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کی طرف منسوب ہیں ان میں نماز پڑھے ، محض تماشہ اور سیر و تفریح کی نیت سے مساجد میں نہ جائے عبداللہ ابن مسعودؓ حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ علامات قیامت سے یہ بھی ہے کہ آدمی مسجد کے طول و عرض سے گذرے اور اس میں نماز نہ پڑے (جمع الفوائد الکبیر)۔ اس لئے جب کسی مسجد کی زیارت کرو، تو دو رکعت تحیہ المسجد پڑھنی چاہیے بشرطیکہ وقت مکروہ نہ ہو اور جو متبرک کنویں راستے میں ہیں، ان کا پانی تبرکاً پی لینا چاہیے ۔
(2)جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچ جائے ، تو خوب خشوع و خضوع اور ذوق و شوق پیدا کرے اور سواری کو ذرا تیز چلائے اور درود سلام کثرت سے پڑھے ۔
(3)جب مدینہ منورہ پر نظر پڑھے اور اس کے درخت نظر آنے لگیں تو دعا مانگیں، اور درود و سلام پڑھے اور بہتر یہ ہے کہ سواری سے اتر جائے اور ننگے پاؤں روتا ہوا چلے اور جس قدر ادب و تعظیم ہو، کرے اور حق تو یہ ہے کہ وہاں سر کے بل چلے تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا، مگر جتنا ہوسکے اس میں کوتاہی نہ کرے ۔
(4)جب فصیل مدینہ منورہ نظر آجائے تو درود کے بعد اگر یہ دعائیں حاسّے میں آجائے تو اچھا ہو؟ پڑھے : اے اللہ یہ آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حرم ہے اس کو میری جہنم سے خلاصی کا ذریعہ اور امن کا سبب بنادے اور حساب سے بری کردے ۔
(5)جب قبہ خضراء علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ پر نظر پڑے ، تو کمال عظمت اور اس کے مجد و شرف کا استحضار کرے ؛ کیوں کہ یہ بزرگ ترین مقام ہے ۔
(6)شہر میں داخل ہوکر سب سے پہلے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہونے کی کوشش کرے ، اگر کوئی ضرورت ہو، تو اس سے فارغ ہوکر فورا مسجد میں آئے اور زیارت کرے ، البتہ عورتوں کو رات کے وقت زیارت کرنا بہترہے ۔
(7) جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہو، تو نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ داہنا پاؤں پہلے داخل کرے اور داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھے : اے اللہ! صلاۃ وسلام بھیج محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کے اصحاب پر اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔
(8)اگر کسی شخص نے تم سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنے کے لیے کہا ہو، تو اس کا سلام بھی اپنے سلام کے بعد اس طرح عرض کرو:
سلام ہے آپ پر یارسول اللہ! فلاں بن فلاں کی طرف سے کہ وہ آپ سے اپنے رب کے پاس شفاعت کرنے کا طالب ہے ۔
اور اگر بہت سے لوگوں نے سلام عرض کرنے کو کہا ہو اور نام یاد نہیں رہے تو سب کی طرف سے اس طرح سلام عرض کرو: اے اللہ کے رسول! آپ پر سلام ہو ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے مجھے آپ پر سلام کی وصیت کی ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پڑھنے کے بعد ایک ہاتھ داہنی طرف کو ہٹ کر حضرت ابوبکرصدیقؓ کے چہرہ مبارک کے سامنے کھڑے ہوکر اس طرح سلام پڑھو:
اے خلیفہ رسول! آپ پر سلام ہو، آپ غار و سفر کے ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں ہیں; ابوبکرصدیقؓ! اللہ آپ کو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بہترین بدلہ دے ۔
پھر ایک ہاتھ اور داہنی طرف کو ہٹ کر حضرت عمرؓ کے چہرہ مبارک کے مقابل کھڑے ہوکر سلام پڑھو: اے عمر فاروقؓ امیر المومنین! آپ پر سلام ہو، امام المسلمین! اللہ نے آپ کے ذریعے اسلام کو عزت دی اللہ آپ سے راضی ہو، موت و حیات دونوں میں اللہ آپ کو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بہترین بدلہ دے ۔
ان دونوں حضرات پر سلام کے الفاظ میں کمی زیادتی کا اختیار ہے اور اگر کسی نے سلام پہنچانے کا بھی کہا ہو، تو اس کا سلام پہنچادو۔
(9) اکثر وقت مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بہ نیت اعتکاف گذارے اور پنجگانہ نماز جماعت سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ادا کرے اور تکبیر اولی پہلی صف کا اہتمام کرے ۔مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک نماز کا ثواب بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق ایک ہزار گنا زیادہ ہے چنانچہ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک نماز میری مسجد میں یہ ایک ہزار گنا بڑھی ہوئی ہے دوسری مسجدوں سے ، سوائے مسجد حرام۔(مشکاۃ)
(10) روزانہ پانچوں وقت یا جس وقت موقع ہو، روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوکر سلام پڑھے ۔
(11) بقیع مدینہ منورہ کا قبرستان ہے ، جو مسجد سے متصل مشرقی جانب ہے ، اس میں بے شمار صحابہؓ اور اولیاؒ مدفون ہیں بقیع میں داخل ہوکر یہ پڑھے : تم پر سلام ہو اگر اللہ نے چاہا، تو ہم آپ سے مل جائیں گے ۔اے اللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما! ہماری اور ان کی مغفرت فرما۔
پھر اس کے بعد جن لوگوں کے نشانات معلوم ہیں ان کی زیارت کرلے حضرت عثمانؓ پر اس طرح سلام کہے : اے امام المسلمین! اے خلیفہ ثالث! اے ذوالنورین! اے دو ہجرت کرنے والے ! اے قرآن کو جمع کرنے والے ! اے مصائب پر صبر کرنے والے ! اے شہید مدینہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکت ہو۔
اخیر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں روضہ رسول کی زیارت کی سعاد ت سے بار بارمشرف فرمائے ؛کیونکہ یہ زیارت ایسی لازوال نعمت ہے جس کی کثرت ، انسان کے لیے سب سے بڑی سعادت ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×