صحابہ سے محبت دین حق کی خشتِ اول ہے!
آغاز اسلام ہی سے امت کے درمیان ایک طبقہ ایسا رہاہے جو اختلاف کو عام کرنے،نفرتوں کوپھیلانے اور شورشوں کو ہوادینےمیں یہود بےبہود کے قدم بہ قدم،منافقین کی روش پراپنی سازشی کارروائیوں میں مصروف ومشغول ہے۔”بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا” کے عین مصداق اس ذہنیت کے حامل لوگ اکثر اپنی اوقات بھول جاتے ہیں اور ان بلند پایہ ہستیوں کے خلاف زبان طعن دراز کرنے لگتے ہیں؛ جن پرتنقید ماہتابِ نیم شب پر تھوکنے کے مترادف ہے،دورانِ طعن انہیں یہ تک سوچنے کا موقع نہیں ملتا کہ ہم جن کی شان میں دریدہ دہنی کررہے ہیں عنداللہ ان کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ رسول اکرمﷺنے ان کے تعلق سےامت کو کیا ہدایت فرمائی ہے؟ خوددین کی بنیادوں کو استوار رکھنے میں ان کا کیا کچھ اساسی کردار رہاہے؟جو کتابِ ہدایت کے اولین مخاطبین ،علوم رسالت کے طالبین صادقین،دین حنیف کے جاں باز محافظین اور ساری امت کے لیے رہنمائے کاملین ہیں؛ جنہیں امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کےعظیم لقب سے یادکرتی ہے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک ویڈیو وائرل ہوتی نظر آئی ؛جس میں ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والے نام نہاد پیشوا، اپنی مجلس ِخاص میں حواریین کے درمیان بیٹھ کر نام بہ نام صحابۂ کرام کو ہدف ملامت بنارہے تھے،ان پر طعن وتشنیع کررہے تھے بالخصوص خلیفۂ اول سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ،اماں جان سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور کاتب وحی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پرمستقل لعنت بھیج رہےتھے۔(اللہ کی پناہ نہ ان کے الفاظ یہاں بعینہ نقل کیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ان کو ذکر کرنا مقصود ہے) بات صرف اتنی ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیداکرنے والے ان افراد کے خلاف فرد جرم عائدہوناچاہیے،انہیں کیفرکردار تک پہونچانا چاہیےاور سخت سے سخت سزا دے کر دوسروں کے لیے عبرت و موعظت کا سامان بناناچاہیے۔جوں ہی سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو نشرہوئی ،مسلمانوں میں اضطراب و بے چینی کا ماحول بن گیا،مختلف علاقوں میں اس گستاخ صحابہ کے خلاف کیس درج کروایاگیا ،قانونی دائرہ میں احتجاج بھی کیاگیااور علماء امت نے اپنے بیانات کے ذریعہ اس کی سخت مذمت بھی فرمائی۔
سردست موجود حالات کے تناظر میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تعلق سے اہل سنت والجماعت کا متفقہ موقف پیش کرنا قرین قیاس معلوم ہوتاہے؛اس لیے ذیل میں اس حوالے سے کچھ ضروری باتیں درج کی جارہی ہیں ،مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کا بہ غور مطالعہ کریں اور قلب و دماغ میں صحابہ کی عظمت ،ان کی حجیت،ان کی رفعت ،ان کا مقام و مرتبہ اچھی طرح راسخ کرلیں !
عقیدۂ اہل سنت :
حضراتِ صحابہ کرام سے محبت وعقیدت اہل سنت والجماعت کے نزدیک اصول ایمان میں سے ہے۔انبیاء علیہم السلام کے بعد انسانوں میں جس جماعت کو اللہ رب العزت کے یہاں سب سے زیادہ قرب حاصل ہے وہ آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام ؓ کی مقدس وبابرکت جماعت ہے؛ جس جماعت کا ہر ہر فرد صلاح وتقویٰ، اخلاص وللہیت اور زہد واطاعت سے آراستہ و مزین ہے، جنہیں اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسولﷺ کی معاونت و نصرت اور دین کی دعوت و اشاعت کے لیے منتخب فرمایا اور ان ہی کے طفیل دین اسلام بھرپور حفاظت و صیانت کے ساتھ بلا تحریف وترمیم اگلی نسلوں تک پہونچا ۔ اگر یہ منتخب گروہ نہ ہوتا تو اسلامی شریعت بھی یہودیت ومسیحیت کی طرح تحریف کا شکار ہو جاتی؛ اسی لیے نبی علیہ السلام نے ان سے محبت کو اپنی ذات اقدس سے محبت کامعیارقراردیا اور یوں فرمایا: خدارا!میرے صحابہ کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہو، ان کو میری وفات کے بعد ہرگز ہدف ِ تنقید مت بناؤ !جو کوئی ان سے محبت کرے گا تو وہ مجھ سے محبت کی دلیل ہوگی او ر جو کوئی ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی بنیاد پر (ان سے بغض)رکھے گا ۔(ترمذی )اسی طرح حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ستارے آسمان کے لیے باعث ِامن ہیں ، جب وہ غائب ہو جائیں، تو آسمان پر وہ مصیبت آجائے گی، جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے اور میں میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے امن کا باعث ہوں ، جب میں چلا جاؤں گا؛ تو ان کو وہ مصیبت پیش آئے گی، جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے لیے باعث امن ہیں ، جب وہ چلے جائیں؛ تو امت پر وہ مصائب پیش آئیں گے، جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم)
ان سب فضیلتوں کے علی الرغم اگر کوئی شخص صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی صلاحیت وراست گوئی اور دیانت و امانت داری کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے تو دراصل وہ قرآن وسنت کی حقانیت پر طعن کرتا ہے اور ان مآخذ و منابع کو مشکوک بنانےکی کوشش کرتاہے جو صحابہ کرام کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ حضرت مصعب بن سعد نےسچ ہی فرمایا کہ امت کے تمام مسلمان تین درجوں میں منقسم ہیں ، جن میں سے دو درجے تو گزر چکے یعنی مہاجرین و انصار ، اب صرف ایک درجہ باقی رہ گیا ، یعنی وہ جو صحابہ کرام سے محبت رکھے ، ان کی عظمت پہچانے ، اب اگر تمہیں امت میں کوئی جگہ حاصل کرنی ہے تو اسی تیسرے درجہ میں داخل ہو جاؤ ۔
صحابہ معیار حق ہیں !
صحابہ کےمستند و معیار حق ہونے پر اس سے بڑی کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اللہ پاک نے انہیں دنیا ہی میں اپنی رضا کا پروانہ عطا فرمادیا اور جنت و مغفرت کی بشارت سنادی ،چند آیتوں کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں!
ارشاد ربانی ہے:بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں ) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو جو (جذبۂ صِدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کر لیا تو اﷲ نے ان (کے دلوں ) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ خیبر کا انعام عطا کیا۔ (الفتح/ 18)
ایک اور موقع پر فرمایا: لیکن رسول(ﷺ) اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لئے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں * اللہ نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے. (التوبہ/89-88)
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمان الہی ہے: اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔ (الانفال/ 74)
سورة النساءکی آیت 110 کا مطالعہ کیجئے!اللہ پاک فرماتے ہیں : اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے ، اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے ، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے ، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے ، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔ تمام مفسرین کی اس بات پر اتفاق ہے کہ "غیرسبیل المؤمنین "سے صحابہ کرام کی جماعت مراد ہے۔ اس آیت کی روشنی میں وہ لوگ اندازہ لگائیں جو صحابہ کرام کی عظمت ان کے وقار، ان کی دین متین سے وابستگی اور تعلق کو کالعدم قرار دیتے ہیں، دین کے راستے میں ان کی کاوشوں او رمحنتوں کے منکر ہیں، ان کی زندگی ان کو مکمل معیار نظر نہیں آتا ان کا اعتراف ان کے حلق سے نہیں اترتا،وہ خود اپنا انجام سوچ سکتے ہیں؛کیونکہ صحابہ کرام کی عظمت و محبت ، ان کے طریقے سے اعراض و روگردانی ، ضلالت و گمراہی کا پیش خیمہ ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور اگر وہ اپنے دل میں ان کی طرف سے کینہ رکھتا ہے تووہ دراصل شیطان کا پیرو ہے کیونکہ وہ اللہ کے برگزیدہ بندوں اور امت محمدیہ کے بہترین طبقہ کے خلاف اپنے دل میں دشمنی رکھتا ہے ۔ اگر وہ مرنے سے پہلے اپنی اس روش سے توبہ نہیں کرتا تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا خاتمہ بالخیر نہیں ہے ؛کیونکہ صحابہ کرام اسلام کی ایسی بیش قیمت اور زریں زنجیریں کہ اگر اس کے ایک حلقہ (کڑی) کو بھی جدا کردیا جائے تو معلوم ہے کیا ہوگا؟ ہمارا سارا دین غیر مستند قرار پائے گا، ہمارا علمی تفوق و بالادستی اور اسلامی تہذیب و تمدن کا سارا ذخیرہ ملیا میٹ ہوکر رہ جائے گا۔اس سلسلہ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا ایک اقتباس ذکر کرنا مناسب ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے:
"صحابہ کرام ایمان کی کھیتی،نبوت کی فصل،دعوت اسلامی کا ثمر اور رسالت محمدیہ کا عظیم الشان کارنامہ ہیں، ان کی سیرت و اخلاق میں جو حسن نظر آتا ہے وہ نبوت محمدی کی جلوہ سامانیوں کا پرتو ہے، ان سے زیادہ عظیم الشان اور تابناک تاریخ کسی دوسرے طبقہ کی ملنی مشکل ہے۔”
گستاخ ِصحابہ موجب لعنت ہے:
ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پسندکرلیا اورمیرے لیے میرے صحابہ کو چن لیا، پھران میں میر ے وزیر و مددگار اور سسر بنائے، پس جو ان کو برابھلاکہے، اس پراللہ تعالیٰ اورفرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت ہے، اس سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ فرض قبول کرے گانہ نفل۔‘‘(مستدرک حاکم )
ایک اور موقع پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کے تعلق سے بُرا بھلاکہنے سے منع کرتےہوئےارشادفرمایا:جب بھی میرے صحابہ کے بارے میں بات ہو رہی ہو تو خاموش رہو، جب بھی ستاروں سے متعلق بات ہورہی ہو تو خاموش رہو، اور جب بھی تقدیر سے متعلق بات ہورہی ہو تو خاموش رہو(صحیح الجامع )
مزید فرمایا: ” جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں اور انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے جو برا ہے اس پر اللہ کی لعنت ۔(ترمذی)
اس لیے علامہ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’جوشخص حضرات ِصحابہ رضی اللہ عنہم پرطعن کرتایاان پر سب وشتم کرتاہے؛ وہ دین سے خارج اورملت ِاسلام سے الگ ہے؛ کیوں کہ ان پرطعن کرنا صرف اس وجہ سے ہوتاہے کہ ان کے حق میں برائیوں کا اعتقادہو اوردل میں ان سے بغض پوشیدہ ہو اوراللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کی جوتعریف کی ہے اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جو فضیلت وبڑائی بیان کی ہے ، اس سے انکارہو، پھرصحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم چوں کہ دین کے پہنچانے والے اوراس کابہترین ذریعہ ووسیلہ ہیں؛ اس لیے ان پرطعن کرنا گویااصل (دین) پر طعن کرناہے اور ناقل ومنقول کی توہین کرنا ہے۔‘‘ (الکبائر)
نیزامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :واضح اور آشکار مسائل میں سے ایک صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی تمام خوبیوں کو بیان کرنا، ان کی غلطیوں اور آپس کے اختلافات کو بیان کرنے سے گزیر کرنا ہے۔ لہٰذا جو شخص کسی بھی صحابی کی شاں میں گستاخی کرے، برا بھلا کہے اور طعنہ زنی کرے یا کسی صحابی کی عیب جوئی کرے تو وہ شخص بدعتی، ناپاک، رافضی او اہل سنت کا مخالف ہے۔ اللہ تعالی (قیامت کے دن) نہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا نہ کوئی فدیہ و کفارہ اس کی جان چھڑا سکے گا۔
اس کے برعکس صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت سنت اور ضروری ہے، ان کے لیے نیک دعاء کرنا قرب الہی کا باعث ہے۔ ان کی پیروی باعث نجات ہے اور ان کی راہ پر چلنا فضیلت شمار ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سب سے اچھے لوگ تھے، کسی انسان کے لیے مناسب نہیں کہ انہیں گالیاں دے یا عیب جوئی کر کے ان کی شان میں گستاخی کرے اور انہیں گندی زبان سے یاد کرے۔ (كتاب السُّنَّة)
خلاصۂ کلام:
آج ملت کا شیرازہ مختلف جماعتوں،فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوکر ملتِ واحدہ کی شناخت کھوچکا ہے، ہر جماعت خود کو برحق ،ہر فرقہ خود کو صحیح اور ہر گروہ خود کو جنتی باور کروارہا ہے ایسے میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سرکار دوعالمﷺکسے جنتی قرار دیتے ہیں ؟اور کس کی پیروی میں جہنم سےنجات کاپروانہ عطا فرماتے ہیں ؟
چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، سوائے ایک جماعت کے سب دوزخ میں جائیں گے، عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کونسا گروہ ہو گا؟ آپ ﷺنے فرمایا: یہ وہ جماعت ہوگی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘ (ترمذی ) اس حدیث میں یہ اشارہ بھی ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طریق صحابہ رضی اللہ عنہم بھی قیامت تک محفوظ رہے گا کیونکہ جو چیز محفوظ نہ ہو وہ قیامت تک نجات پانے والے گروہ کی نشانی کیسے بن سکتی ہے ؟ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے اسلاف کی پیروی کی تلقین فرمائی ہے ۔اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میرے بعد شدید اختلاف دیکھو گے! اس وقت تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ۔ اس پر مضبوطی سے جمے رہنا، دین میں نئے پیدا ہونے والے امور سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ (ابن ماجۃ)معلوم ہوا فتنوں کے ظہور کے وقت بچاؤ صرف اور صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین کی سنت اختیار کرنے میں ہے۔
دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں باہمی انتشار سے بچتے ہوئے اللہ، اس کے رسول ﷺاور صحابۂ کرام کی اتباع کرنے اورشریعت کے تمام امور پر عمل پیراہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین