اسلامیاتسیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

ملک کے موجودہ حالات اور کرنے کے اہم کام

اس وقت ملک کے جو تشویش ناک حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں،ہر شعور رکھنے والا جانتا ہے کہ مسلمان، اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف دن بہ دن دائرہ تنگ کیاجارہاہے، حالات نازک سے نازک تر ہوتے جارہے ہیں، پہلے بھی فسادات ہوتے تھے کچھ دکانیں جل جاتی تھیں، کچھ مکانات میں آگ لگ جاتی تھی، کچھ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے،پھر آہستہ آہستہ زخم مندمل ہوجاتےتھے؛ لیکن اب شرعی احکام اور شعائرِ اسلام پر حملے ہورہے ہیں،اسلامی حجاب پر، نمازِ جمعہ کھلے میں اداکرنے پر اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دینے پر پابندی عائد کی جارہی ہے نیز اس طرح کے کئی ایک مسائل(جن کا اسلامی تشخص سے تعلق ہے) برابر اٹھائے جارہے ہیں اور ماحول کو زیادہ سے زیادہ زہریلا اور گندا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
ابھی حالیہ دنوں میں The Kashmir file کے نام سے کشمیری پنڈتوں سے متعلق ایک فلم بنائی گئی اور پورے ملک میں دکھائی گئی؛جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف غیرمسلوں کے دلوں میں نفرت کا جذبہ پیدا ہو، وہ اشتعال میں آئیں اور انتقامی کارروائی کے لیے تیار ہوجائیں۔
ناموافق حالات مسلسل آرہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کا علم و ادراک نہیں۔سب جانتے ہیں؛مگر اس کے مقابلے کے لیے تیار نہیں؟ جو لوگ دانشور کہلاتے ہیں یا اپنے کو فکرمند سمجھتے ہیں وہ سوائے قائدین کو کوسنے اور سوشل میڈیا پر زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کررہے ہیں،عام مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ یہ بات کسی کی طرف سے سامنے نہیں آرہی ہے،آج میں یہی بات عرض کرنا چاہتاہوں کہ ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے اور ہم سب کو کیا کرنا چاہیے؟؟میرے خیال میں تین کام ہیں جو اس وقت ہمارے کرنے کے ہیں۔
( میں سب سے پہلے اپنے آپ سے مخاطب ہوں،پھر اپنے اہلِ خانہ و متعلقین سے، پھر اہلِ محلہ و اہلِ شہر سے اور پورے ملک کے لوگوں سے جہاں تک یہ آواز پہونچ سکتی ہے۔)

پہلا کام:
سب سے پہلی چیز اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور اعمال و اخلاق کو درست کریں، اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَا تَهِنُواْ وَلَا تَحْزَنُواْ وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ(آل عمران:139) تم کمزور مت پڑو اور رنجیدہ مت ہو تم ہی سربلند رہوگے بشرطے کہ تم ایمان والے ہو،یعنی ایمان تمہارے اندر مضبوط ہو اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہو تو یقینی طور پر تمہیں کامیابی اور سربلندی ملے گی ۔اور یاد رکھیں!یہ اللہ کا جو اعلان ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہے:فلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلاً وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلاً (فاطر:43)تم ہرگز اللہ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے، اللہ کے فیصلہ میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا،جو ضابطہ ہے،وہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔
لہذا سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ کمزور نہ پڑیں، بزدل نہ بنیں، دل کے اندر قوت پیدا کریں، موت ایک مرتبہ آنی ہے اور وقت مقرر پر آنی ہے، یہ ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے، اس کا استحضار رکھیں۔

موت کا ایک دن معین ہے:
ایمان کی بنیادی چیزوں میں یہ بات شامل ہے کہ جب بندہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ کی طرف سے اپنی عمر متعین کرواکے آتاہے: فاذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَـْٔخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ (الاعراف:34) جب مرنے کا متعین وقت آجاتاہے تو بندہ نہ ایک لمحہ آگے جاسکتاہے اور نہ ایک لمحہ پیچھے آسکتاہے۔قرآن مجید کے مطابق آدمی اگر مضبوط قلعوں کے اندر بھی چھپ کر بیٹھے گا تو موت وہاں پہونچ کر رہے گی۔ اس لیے موت تو آنی ہے، ہر ایک کو آنی ہے،اپنے وقت پر آنی ہے اور صرف ایک مرتبہ آنی ہے؛لہذا موت کے خوف سے آدمی کا ہر وقت ڈرتے رہنا اور اپنے دل کو کمزور کرنا یہ ایمانی قوت کے بالکل خلاف ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال تو یہ تھا کہ ان کو میدان جنگ میں برچھی لگتی تو وہ کہتے: فزت و رب الکعبۃ خدا کی قسم میں تو کامیاب ہوگیا ۔ اس لئے دل کو مضبوط رکھیں اور جو کام کرنے کے ہیں،انہیں کرتے رہیں،ایمان کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اعمال کی اصلاح کریں، اخلاق کو درست کریں، جلوت اور خلوت کی زندگی کو تقوی والی زندگی بنائیں، اللہ کی نافرمانی سے اپنے آپ کو بچائیں،رمضان ہو کہ غیر رمضان نمازوں کا اہتمام سو فیصد ہو،دیگر اسلامی احکامات پر مکمل عمل پیرا رہیں،اسی طرح جو ہماری اخلاقی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں، ان سے خود بھی رکیں اور توبہ کریں ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر والوں کو، بچوں کو،عورتوں کو، جوانوں کو ان سے روکیں، ماحول سے خرابیوں کو مٹانے کی کوشش کریں؛ اس لیے کہ اللہ کی مدد تقوی اور صبر کے ساتھ مشروط ہے: وَ مَن يَتَّقِ وَيِصْبِرْ جو آدمی تقوی اختیار کرتا ہے،اللہ سے ڈرتاہے اور دین پر جم جاتاہے،اللہ تعالٰی اس کی مدد فرماتے ہیں اور اس کے اجر کو ضائع نہیں فرماتے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی اِسی تقوی اور صبر پر مدد ہوئی ہے؛ لہذا ہم بھی اپنے ایمان کو بنائیں، اعمال کو درست کریں اور اخلاق کو سنوارنے کی فکر کریں۔

دوسرا کام:
دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اسلام کا سچا پیغام لوگوں تک پہونچائیں؛اس لیے کہ ایک  تصویر تو اسلام اور مسلمانوں کی وہ ہے جو دوسروں کی طرف سے دنیا والوں کے ذہن میں بٹھائی جارہی ہے کہ یہ متشدد ہیں، دہشت گرد ہیں، بد اخلاق ہیں قاتل ہیں، خونی ہیں وغیرہ اور ایک اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے جو ہمیں اسلام نے سکھائی ہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے،جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قائم تھے،یعنی ہم امن پسند ہیں، غریبوں، مسکینوں اور پڑوسیوں کے مددگار ہیں، انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی خبر گیری اور ہم دردی کرنےوالے ہیں،ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل سے اِس کو ثابت کریں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں!دوسروں کی غلط تشہیر، فرضی فلموں اور پروپیگنڈوں کے ذریعہ مسلمانوں کے تشدد پسند، دہشت گرد اور خونخوار ہونے کا جو تصور بٹھایا جارہاہے،صرف تقریروں سے یہ ختم نہیں ہوگا ؛بل کہ عمل کے ذریعہ اس کا ازالہ کرنا ہوگا۔
آپ دیکھ لیجیے!ابھی سال دوسال پہلے لاک ڈاؤن کے زمانہ میں جو پریشانیاں آئی ہیں،زندگی کے لالے پڑے ہیں، کھانے پینے کی چیزوں کا قحط ہوا ہے، اس موقع پر جن مسلمانوں نے اپنے اسلامی اخلاق اور انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا ہے اُس کا اثر برادرانِ وطن پر پڑا اور جو مسلمانوں سے نفرت کرنے والے لوگ تھے ان کے اندر بھی احساس پیداہوا اور اُنہیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہم مسلمانوں کےبارے میں غلط رائے رکھتےتھے!۔۔۔۔۔ایسا کیوں ہوا؟ اِس لیے کہ اُس وقت اسلامی اخلاق کا مظاہر کیاگیا، اسلام کا عملی تعارف پیش کیا گیا اور نبوی تعلیمات کا نمونہ دکھایا گیا ۔اگر ہماری زندگی میں یہ کام ہمیشہ زندہ رہیں اور ہم نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے بجائے محبت سے دینے لگ جائیں تو ان شاء اللہ اُس کا ضرور اثر ہوگا اور اچھے نتائج سامنے آئیں گے:
اُن کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
ہمیں محبت کا پیغام عام کرنا چاہیے، محبت کا پیغام پہونچانا چاہیے اور محبتوں کو بانٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ہرگز دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے،جو حالات چل رہے ہیں،ہم دیکھ رہے ہیں، نہ کوئی سیاسی پارٹی اِن کے خلاف آواز اٹھارہی ہے، نہ کوئی سیاسی لیڈر سامنے آرہاہے،ہمیں جو کچھ کرنا ہے اپنے زور بازو اور قوت ایمانی کی بنیاد پر کرناہے اس لیے اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں اور دل کے اندر ہمت پیدا کریں ۔اب رہا یہ سوال کہ حالات کی بناء پر جو دل میں کمزوری آرہی ہے،ذہن میں جوخوف بیٹھا ہواہے،عجیب طرح کی دہشت طاری ہے،اس کی کیا وجہ ہےاور یہ کیسے دور ہوگی؟؟؟

ہماری بے وزنی کا اصل سبب:
اس موقع پر ایک حدیث یاد آئی، جو پہلے سے آپ کے علم میں ہوگی اور آپ بارہا سن چکے ہوں گے،وہ حدیث آج کے حالات پر من وعن صادق آرہی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: يُوشِكُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الأكلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا.‏ فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ قَالَ: ‏”‏ بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِیرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزِعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ ‏”‏.‏ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهَنُ قَالَ: ‏”‏حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ”‏ ‏.‏
ترجمہ:قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں، جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں؛ بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے؛لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح(بے وقعت) ہوگے ، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں "وہن”ڈال دے گا، ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول ! وہن کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا:یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے۔(ابوداؤد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ پیشین گوئی فرمائی تھی اس وقت صحابہ کرام کی شوکت تھی، قوت تھی دبدبہ تھا،ایک مہینے کے فاصلہ تک ان کا رعب پہونچا ہوا تھا،اس لیے وہ آپ علیہ السلام کا ارشاد سن کر تعجب سے کہنے لگے: کیا اُس وقت ہم لوگ تعداد کے اعتبار سے بہت تھوڑے ہوں گے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:نہیں! تم لوگ اُس وقت تعداد میں بہت ہوگے؛ لیکن تمہاری حیثیت وہ ہوگی جو سیلاب کے زمانہ میں پانی کی سطح پر بہنے والے کوڑے کرکٹ اور جھاڑ جھنکاڑ کی ہوتی ہے،نہ ان کی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے،نہ ان کے اندر کوئی طاقت و قوت ہوتی ہے، وہ بہاؤ سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتے، وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتے، پانی کا بہاؤ جدھر لیے جارہاہے، بہتے چلے جارہے ہیں، کہیں کوئی چیز آگئی ٹکرا گئے ،نشیب آیا تو نیچے گرگئے،بالکل اِسی طرح تم بے وقعت ہوجاؤگے۔
مزید فرمایا:اللہ تعالٰی تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب  نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری پیدا کردے گا۔ صحابہ نے پوچھا کہ یہ بزدلی کہاں سے آئے گی ، کیوں آئے گی، کس وجہ سے آئے گی؟؟آپ نے فرمایا:اس کے دو سبب ہوں گے:دنیا کی محبت اور موت کی کراہیت۔یہ دو اسباب ہیں جو بزدلی لانے والے ہیں،دل میں کمزوری پیدا کرنے والے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جو اسباب دل میں کمزوری اور بزدلی لانے والے ہیں ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو ختم کیاجائے اور انہیں ہٹانے کی کوشش کی جائے۔

دنیا کی محبت کیا ہے؟
دنیا کی محبت یہ ہے کہ ہم آخرت کی زندگی سے غافل ہوجائیں،آج نیند ہمیں پیاری ہے ،نماز پیاری نہیں،ہم سود لے رہے ہیں،جھوٹ بول رہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، خیانت کررہے ہیں، وارثوں کا حق مار رہے ہیں،پڑوسیوں کو تکلیف پہنچارہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں، اور یہ سب کام چار پیسے کی خاطر، تھوڑی سی لذت اور تھوڑی سی راحت کی خاطر کیے جارہے ہیں،یہی حب الدنیا ہے۔ایک مقام پرارشاد باری ہے: قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٰنُكُمْ وَأَزْوَٰجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٰلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍۢ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَٰسِقِينَ.(التوبہ)
ترجمہ:اے پیغمبر ! مسلمانوں سے کہہ دو کہ : اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔
یاد رکھیں!صرف فریاد کرنے اور حالات کا شکوہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنے اندر قوت پیدا کریں اور جن راستوں سے یہ کمزوری آرہی ہے ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں،یہ بات بھی ذہن میں رکھیں ! اللہ تعالٰی کی کسی کے ساتھ رشتہ داری نہیں ہے، وہاں تو ایمان و اعمال کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے ۔ایمان والوں کے امتحانات بھی ہوتے ہیں صحابہ ؓ پر حالات آئے، غزوہ احد میں حالات آئے، غزوہ حنین میں حالات آئے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہی پر نہیں،پچھلے انبیاءؑ پر بھی حالات آئے؛ جن کا قرآن میں تذکرہ کیا گیا کہ انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا یہاں تک کہ رسول اور اُن کے امتی کہنے لگے آخر اللہ کی مدد کب آئے گی، اللہ فرماتے ہیں: سنو!اللہ کی مدد قریب ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے: ولنبلونکم بشیئ من الخوف۔۔۔الخ ہم ضرور تم کو آزمائیں گے؟  کس چیز سے آزمائیں گے ؟ کچھ خوف میں مبتلا کریں گے،فاقےمیں مبتلا کریں گے،مالوں کی کمی میں مبتلا کریں گے،جانوں کی کمی میں مبتلا کریں گے، پیداوار کی قلت کے ذریعہ آزمائیں گے،یہ سارے حالات ہماری طرف سے ضرور بالضرور آئیں گے؛لیکن یہ امتحان ہوگا۔ اور امتحان کس لئے ہوتاہے؟ یہ دیکھنے کے لیے کہ کون اس میں کامیاب ہوتاہے اور کون ناکام ہوتاہے۔ جو کامیاب ہوتاہے وہ نوازاجاتاہے اور جو ناکام ہوتاہے اس کو سزا ملتی ہے۔پھرفرمایا :اِس امتحان کے اندر کامیابی انہی لوگوں کو ملے گی جو ثابت قدم رہنے والے اور صبر کرنے والے ہیں۔صبر کے معنی صرف مصیبت کو برداشت کرنانہیں ہے؛ بلکہ مصیبت ہو یا راحت ہر حال میں دین پر جمے رہنا، ہر طاعت کو اختیار کرنا،ہر معصیت سے اپنے نفس کو روک کر رکھنا اور حالات کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر اس کو برداشت کرنا، یہ صبر کا مجموعہ ہے یعنی صبر طاعت پر، صبر معصیت سے بچنے کے لیے اور صبر مصیبت پر۔ جہاں یہ صبر کی تینوں قسمیں پائی جائیں گی،ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیجیے جن کا شیوہ اور طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتےہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کےپاس ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی طرف سے خصوصی رحمتیں بھی نازل ہوتی ہیں اور عام رحمت میں بھی ان کا حصہ ہوتا ہے اور یہی سیدھے راستہ پر چلنے والے ہیں۔

تیسرا کام:
دعاؤں کا اہتمام کریں۔میں نے سب سے اخیر میں دعا کا ذکر کیا ہے۔ صرف قنوتِ نازلہ پڑھنے سے صرف آیاتِ کریمہ کا ختم کرنے سے اور صرف حصنِ حصین  پڑھ کر دعا کرنے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ حالات بدلیں گے اپنے آپ کو بدلنے سے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہم اپنے کو بدلیں گے تو سب کچھ بدلے گا،اللہ تعالٰی کے یہاں فیصلے اعمال اور اخلاق کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں،دعائیں اپنی جگہ ضروری ہیں،اللہ پاک ہی دعائیں قبول کریں گے؛ لیکن دعاؤں کے قبول کرنےسےپہلے ہمیں کچھ کرنا بھی ہوگا صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کریں.

رمضان المبارک کا مہینہ ہے درمیانی عشرہ چل رہاہے، آخری عشرہ آنے والا ہے اس میں دعائیں مانگیں اور خاص طور سے آخرِ شب میں آٹھ کر جب اللہ کی طرف سے یہ اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب گار جس کی میں مغفرت کروں؟ ہے کوئی روزی کا طلب گار جس کو میں روزی دوں؟ ہے کوئی مبتلائے مصیبت جس کو میں عافیت عطاکروں؟ ایک ایک ضرورت کو لے کر اعلان ہوتا ہے اور یہ بھی اعلان ہوتاہے:اے خیر کے طلب گار آگے بڑھ،ائے بدی کے طلب گار پیچھے ہٹ۔اللہ کی طرف سے یہ آوازیں آتی ہیں، ہم اگرچہ  اپنے کانوں سے نہیں سنتے؛ لیکن اللہ کے رسول نے ان ساری آوازوں سے ہمیں متعارف کروایا ہے۔یہ راتیں آرہی ہیں اور چل رہی ہیں، رمضان کی ہر رات قیمتی ہے اور آخری عشرہ کی راتیں اور ان میں بھی طاق راتیں جو آرہی ہیں ان کی قدر کرلیں راتوں کو اٹھیں، جاگیں، اللہ کے سامنے روئیں، گڑگڑائیں،سچے دل سے اللہ کے سامنے اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور زندگی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کریں۔

خلاصۂ کلام:
ابھی جو باتیں آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں اجمالی طور پر ان کا اعادہ مناسب سمجھتا ہوں۔پہلے نمبر پر اپنا ایمان مضبوط کریں، اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور نئے سرے سے زندگی کا آغاز کریں۔
دوسرے نمبر پر برادران وطن اور پڑوسیوں کے سامنے اپنے اسلامی اخلاق و کردار  کی وہ تصویر پیش کریں جو مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے،جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے تاکہ ان کے ذہن کو گندگی سے بھرنے جو کوشش کی جارہی ہے اس کا عملی توڑ ہو ۔
تیسرے نمبر پر دعا کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو مضبوط رکھیں، خوف و دہشت دل سے نکالیں، موت کا خوف ختم کریں،یاد رکھیں!موت اپنے وقت پر آئے گی، وہ ایک مرتبہ آئے گی، کوئی موت کو روک نہیں سکتا ؛لیکن موت کے ڈر سے ہم گھر کے اندر بیٹھے تاکتے رہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے، حق خود حفاظتی شریعت اور قانون نے ہم کو دیا ہے،خدانخواستہ خدانخواستہ حالات ایسے آجائیں ہماری جان اور مال پر حملہ ہوجائے تو ہم بزدل بن کر گھر میں نہ بیٹھے رہیں،ہم امن و امان کے محافظ ہیں اپنی طرف سے امن کے خلاف کوئی اقدام نہ کریں، لیکن اگر ہماری جان و مال عزت وآبرو  پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو صرف چھت پر چڑھ کر نعرہ تکبیر نہ لگائیں بلکہ اللہ نے جتنی طاقت و ہمت دی ہے، جتنی استطاعت ہے، جو اسباب فراہم ہیں ان کے ذریعہ اپنا دفاع کرنے کی کوشش کریں!اخیر میں پھر کہوں گا کہ موت آئے تو عزت کے ساتھ آئے؛ لیکن دلوں میں بزدلی اور کمزوری بٹھاکر اپنے کو دوسروں کے سپرد کردینا یہ ایمان والے کی شان نہیں ہے۔
اللہ تعالٰی ہم کو صحیح سمجھ عطافرمائے اور صحیح عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×