سیاسی و سماجیسیرت و تاریخمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

توہین رسالت اسلامو فوبیا کا شاخسانہ

ایک بار پھر اہل مغرب نے اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا، ایک بار پھر مسلمانوں کے دل چھلنی کردیے گئے، ایک بار پھرنبی پاکﷺکے خاکے نشر کیے گئے اور اظہاررائے کی آزادی کے نام پر آئندہ کے لیے بھی سند جواز فراہم کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی۔اس نازیبا حرکت پر پوری اسلامی دنیا حسب روایت سراپا احتجاج ہے،دینی غیرت اور ایمانی حمیت رکھنے والے محبان رسول سڑکوں پر نکل چکے ہیں،فلسطین، شام، لیبیا سمیت کئی مسلم ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ دوسری جانب کویت کے بعد دیگر عرب ملکوں میں بھی فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑتی جارہی ہے۔کئی عرب کمپنیوں اور تاجر تنظیموں نے فرانسیسی اشیا کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلامو فوبیا کا وائرس مغربی معاشرے میں ناصرف پھرسرگرم ہوچکا ہے؛ بلکہ بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے،اہل مغرب کا نسل پرستی اور اسلام دشمنی کو نظریاتی آزادی کے دائرے میں شامل کرنا ایک انتہائی غلط فعل ہے۔اس کے سد باب کے لیے اب مزید وقت ضایع کیے بغیر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،ورنہ عالمی امن کو بچانے کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ ہمارے پیارے نبی اور مقدس دین کے خلاف اس قسم کی غیر اخلاقی حرکتیں، خاص طور پر ڈیموکریسی، انسانی حقوق اور قوانین کی بالادستی کا واویلا مچانے والے ممالک اور ان کے سربراہوں کی پیشانیوں پر بدنما داغ ہیں۔
توہین آمیز خاکوں کی اشاعت:
رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول ٹیچر نے آزادیِ اظہار رائے کا درس دیتے ہوئے اپنے طلبہ کے درمیان متنازعہ فرانسیسی میگزین (چارلی ہیبدو) میں شائع شدہ پیغمبر اسلام ﷺکے گستاخانہ خاکے دکھائے۔ جس کے چند ہی روز بعد ایک غیرت مند محب رسول نے اس ٹیچر کا سر قلم کردیا،اور پولیس نے جائے وقوع پر ہی حملہ آور کو گولی مار کر قتل کر دیا بعد ازاں اس معاملے کو اسلامی دہشت گردی سے تعبیر کردیاگیا۔ مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر( علیہ ما علیہ) نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے ٹیچر کو ہیرو اور فرانسیسی جمہوریہ کے اقدار کا ترجمان قرار دیا نیز اسے فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا۔اور اپنے ایک ٹویٹ میں زہر افشانی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس طرح کے خاکے شائع کرنے کی حمایت جاری رکھے گی۔
دشمنان اسلام کو یادرکھنا چاہیے کہ جناب نبی کریم ﷺکے ساتھ اہل اسلام کی عقیدت و محبت، نری جذباتیت پر منحصر نہیں ہے؛ بلکہ یہ ان کے ایمان کا جز اور دین کا حصہ ہے، حضور ہی ان کی محبتوں کا مرکز اور ان کی تمناؤں کا محور ہیں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع و پیروی میں ان کی ابدی سعادت کا راز مضمر ہے، قرآن کریم نے جگہ جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، ارشاد ہے:’’آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تم کو اندیشہ ہو، اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، اگر تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (سزا دینے کے لئے) اپنا حکم بھیج دے اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ (التوبۃ: 24)
مسلمان کی اسی کیفیت کو ایک حدیث شریف میں ایمان کی معراج بتا یا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور اقدس ﷺکی مجلس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:یا رسول اللہ! مجھے اپنی اولاد اور والدین کے بعد سب سے زیادہ آپ سے محبت ہے۔حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ابھی نہیں …یعنی ابھی آپ کاایمان مکمل نہیں ہوا … کچھ دیر کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ! اب مجھے اپنی اولاداوراپنے والدین سے بھی زیادہ آپ سے محبت ہو گئی ہے، آپ نے فرمایا ’’ہاں اب ٹھیک ہے یعنی اب تمہار ا ایمان مکمل ہو گیاہے۔ اس حدیث کے ذیل میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ مسلمان کے ایمانِ کامل کا یہ تقاضاہے کہ آپ علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی ذاتِ اقدس سے اتنی محبت ہو جائے کہ اس کی موجود گی میں دنیا کے تما م رشتے اور تمام چیزیں ہیچ نظر آئیں۔
محمد عربی کہ آبروئے ہردوسرا است
کسے کہ خاک درش نیست خاک برسر او
اسلاموفوبیا کی حقیقت:
’’اسلامو فوبیا ‘‘دو لفظوں پر مشتمل ایک خود ساختہ اصطلاح ہے؛جس کا پہلا لفظ (اسلام) عربی ہے،اوردوسرا لفظ(فوبیا) یونانی ہے، فوبیا کی اصل فونوس ہے،جس کا مطلب خوف و دہشت ہے۔اس اعتبار سے اسلاموفوبیا کے معنی ہوئے: اسلام سے اس درجہ وحشت،دہشت، خوف اوربیزاری ظاہر کی جائے کہ آدمی ذہنی مریض بن جائے۔
یہ اصطلاح سن 1990 کی دہائی میں بائیں بازو کی ایک جماعت (رینمڈ ٹرسٹ) کے ذریعہ استعمال ہوئی تھی۔کچھ مورخین بیسویں صدی کے اوائل میں اس اصطلاح کے استعمال کا سراغ لگاتے ہیں؛ جبکہ کچھ ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے ساتھ ہی اسلامو فوبیا کی نشوونما ہوئی۔
یوں تواسلامو فوبیا مہم کے بہت سے پہلو ہیں۔ ان میں سب سے مکروہ ترین پہلو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ ہستی کے حوالے سے بعض ایسی بے ہودگیوں کا انتساب ہے جس کا تصور ہم ایک عام انسان کے لیے بھی بہت برا سمجھتے ہیں۔آج جو اسلامی مقامات اور علامات پر حملے ہورہے ہیں،اظہار رائے کی آزادی کے نام پر نفرت پھلائی جارہی ہے،دانستہ توہین آمیز خاکوں کے مقابلے کرائے جارہے ہیں،مسلمان جہاں اقلیت میں ہیں، انہیں خاص طورپر منفی انداز سے پیش کیا جارہا ہے، ان کے خلاف نسلی تعصب کو ہوا دی جارہی ہے، مسلمانوں کو سفید فام پر بوجھ قرار دے کر نسلی تعصب کو ابھارا جارہا ہے، گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں کو قتل کیاجارہا ہے،زبردستی مذہب تبدیل کرایا جارہا ہے،اسلام کے نظام حجاب پر برملا تنقید کی جارہی ہے۔۔۔۔ یہ سب اسلاموفوبیا کا حصہ ہے۔
اسلاموفوبیا کا آغاز:
تاریخ اسلام کا مطالعہ کیاجائے تو اندازہ ہوگا کہ اسلامو فوبیا نامی اس بیماری کا آغاز کسی نہ کسی شکل میں خود اسلام کے ظہورکے ساتھ ہی ہوچکا تھا،کفار و مشرکین نے خدا کی وحدانیت، غلاموں کی آزادی، طبقہ بندی کا خاتمہ اور عدل و مساوات کا مطالبہ کرنے والے ایک نئے مذہب کو ظہور پذیر ہوتے ہوئے دیکھا تو انہیں اپنے قدیم مذہب کو لے کر خوف ہونے لگااور یہ اندیشہ دامن گیر ہوگیا کہ کہیں ہم اپنے آباء و اجداد کے رسوم ورواج سے محروم نہ کردیے جائیں۔یہی خوف رفتہ رفتہ بڑھتا گیا،جب مسلمانوں نے علی الاعلان اپنے مذہبی مراسم کا آغاز کردیا اورجب خدا کے رسول ﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیاتو کفار و مشرکین کے دلوں کا خوف نکل کر باہر آگیا۔صحیح بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اس وقت کی بڑی سپر پاور (روم) کے بادشاہ کواسلام کی دعوت کاخط بھیجا۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے امیر بصریٰ کے توسط سے وہ والانامہ قیصر(ہرقل) کے دربارمیں پہنچایا۔قیصر نے حکم دیا کہ عرب کے لوگ ملک میں آئے ہوں تو ان کوحاضرکیاجائے۔ اتفاق سے ابوسفیان قریش کے قافلہ کے ساتھ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اورمقام غزہ میں مقیم تھے۔ابوسفیان اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، قیصر کے آدمیوں نے پورے قافلہ کودربار میں حاضرکیا۔ہرقل نے ابوسفیان سے چندسوالات کے جوابات حاصل کیے، جس کی وجہ سے ہرقل کا اسلام کی طرف میلان پیداہوا۔ ہرقل نے ابوسفیان سے کہا کہ اگرآپ نے میرے سوالات کے صحیح جوابات دیے ہیں تووہ(نبی) میرے پیروں کے نیچے زمین (بیت المقدس) کے مالک ہوجائیں گے۔ مزید کہااگرمیں اس نبی آخرالزمان تک پہنچ سکتا توہرقسم کی مشقت برداشت کرکے خدمت میں حاضرہوتا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں دھوتا،چنانچہ ہرقل نے دروازے بند کرکے اپنے دربارمیں روم کے چوہدریوں کوجمع کرکے خطاب کیا، اے رومیو! کیاتمہیں کامیابی،ہدایت اوراپنی حکومت کی بقاچاہیے،پس اس نبی کے ہاتھ پر بیعت کرلو۔ ہرقل کی بات سن کر لوگ نیل گایوں کے بھاگنے کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے۔یہ تھی ان کفار کی اسلام سے وحشت اورنفرت،ابوسفیان نے بھی اسلام کے غلبہ کے خوف کااظہار اس وقت کیاتھا،صحیح بخاری میں ہے کہ جب ہم دربار سے نکال دئیے گئے تومیں نے اپنے ساتھیوں سے کہا بخداابوکبشہ (حضورصلی اللہ علیہ وسلم)کے لڑکے کامعاملہ توسنگین اورعظیم ہوگیا۔اس سے تورومیوں کابادشاہ بھی ڈرتاہے۔ پس مجھے برابر یقین رہا کہ عنقریب آپﷺ غالب آجائیں گے،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی توفیق دی۔ ابوسفیان نے اس وقت اسلام کے غلبہ اوراس سے خوف کااظہارکیاتھا؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل فرمایااوروہ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
آج بھی دنیا بھر کے کفار کواسلام کی حقانیت اورصداقت معلوم ہے، تاریخ پر ان کی نظر ہے، قرآن وحدیث کامطالعہ کرتے ہیں؛لیکن اسلام سے وحشت اوردہشت کی وجہ سے ان پر خوف طاری ہے کہ اسلام پھیل رہاہے ایک دن اسلام کوضرورغلبہ حاصل ہوگا، جس کی وجہ سے کفارکے پیشوا اورمفکرین ذہنی مریض بن گئے ہیں،اس بیماری کو اسلاموفوبیا کہتے ہیں۔
خلاصۂ کلام:
غور کیا جائے تو مغرب میں اسلامو فوبیا اور اہانت رسول کی بنیادی وجہ اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اورلوگوں کا تیز گامی کے ساتھ اِسلام قبول کرناہے،اندازہ لگانے والوں کے مطابق مغربی ممالک میں اگر حلقہ بہ گوش اسلام ہونے والوں کا یہی تناسب رہا تو 2030 تک دنیا میں اِسلام کے پیروکاروں کی تعداد عیسائیت سے بڑھ جائے گی۔مغربی دنیا اِسی لیے سراسیمگی اور خوف کا شکارہے کہ بہت جلد اِسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بننے والا ہے،اور یہی وجہ ہے کہ اِسلام کا حسین اور خوب صورت چہرہ مستقل سازش کے تحت مسخ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ایسے میں ہمیں دنیا کے سامنے اِسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنا ہو گا،مذہبی اسکالرز کو عصری تقاضوں کے مطابق اسلوب دعوت اختیار کرنا ہو گا اور غیرمسلموں کو اسلام کی آفاقی تعلیمات سے روشناس کرانا ہوگا،تب کہیں جاکر اسلاموفوبیا کا یہ طوفان بدتمیزی تھم سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×