اسلامیات

دستر خوان اٹھانے کا نبوی طریقہ – حکمتیں اور مصلحتیں

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ کے سامنے سے دستر خوان اٹھایا جاتا تو یہ دعا پڑھتے تھے۔
الحمدُ للہِ حَمداً کثیراً طیباً مُبَارَکاً فیہِ، غَیْرَ مَکْفِيٍّ ولاَ مُوَدَّعٍ وَلاَ مُسْتَغْنیً عَنْہُ رَبَّنَا۔ (بخاری،رقم:۵۴۵۸)
ترجمہ: ہرحمد اللہ کے لیے ہے، بہت زیادہ حمد، پاکیزہ حمد، جس حمد میں برکت (اضافہ) فرمائی گئی ہو، نہ کافی سمجھا ہوا اور نہ رخصت کیا ہوا اور نہ اُس سے بے نیاز ہوا ہوا، اے ہمارے پروردگار(یعنی اے ہمارے رب ہم اِس کھانے کو کافی سمجھ کر یا بالکل رخصت کرکے یا اِس سے غیر محتاج ہو کر نہیں اٹھارہے ہیں۔
تشریح: اللہ رب العزت نے سرکار ِدوعالمﷺ کوسراپا رحمت اور اخلاقِ کریمانہ کا نمونہ بنا کر مبعوث فرمایا تھا،آپ نے جہالت وبد اخلاقی میں ڈوبی ہوئی امت کو جہاں علم وحکمت کا شعور بخشا وہیں انھیں اعلی طرز ِ معیشت سے بھی ہمکنار کیا اور آپ نے جہاں ایک طرف لوگوں کو احکامِ الٰہی کا پابند بنایا وہیں دوسری طرف حسنِ معاشرت اور کھانے پینے کے آداب سے بھی روشناس کیا؛ تاکہ ایک اسلامی اور مثالی معاشرے کی تشکیل وتعمیر ہو،کھانے سے پہلے دستر خوان بچھانا، کھانے سے فراغت کے بعد دستر خوان اٹھانا یہ سب اسی معاشرے کی تشکیل وتعمیر کا حصہ ہے، دسترخوان بچھاکر کھانا کھانے کا سب سے بڑا فلسفہ یہ ہے کہ اِس کی وجہ سے رزق کی ناقدری نہیں ہوتی، دستر خوان پر جو کچھ گرا،یا اُس پر ڈالا گیا وہ ہمارے یا جانوروں کے کام آجائے گا؛ اِس لیے دسترخوان کا ادب یہ بھی ہے کہ اسے کوڑے دان کے اندر نہ جھاڑا جائے، نالیوں اور گندی جگہوں پر بچی ہوئی چیزوں کونہ پھینکا جائے، وہ بھی اللہ کا رزق ہے، اُس کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن جوں جوں مغربی تہذیب کا غلبہ ہمارے معاشرے پر بڑھ رہا ہے، رفتہ رفتہ اِسلامی آداب رخصت ہورہے ہیں، اپنے بہت سے مسلمان بھائی دسترخوان بچھانے کا اہتمام نہیں کرتے، اور اب تو طلبہ کرام کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوگئی ہے جو اِس کا اہتمام نہیں کرتی، راقم الحروف نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا ہے؛ حالاں کہ طلبہ کرام، مستقبل کے داعیٔ اسلام ہیں، انھیں اِس کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، اور جب دستر خوان اٹھایا جائے یا بچا ہوا کھانا اٹھایا جائے تو سرکار ِدو عالم ﷺ کی بتائی ہوئی دعا کا اہتمام کرنا چاہیے؛ تاکہ ہم اِسلامی معاشرے کی تعمیر وترقی کے مِعماربن سکیں
حکمتیں ومصلحتیں
۱- مذکورہ دعا میں یہ پیغام ہے کہ انسان کی زبان کو ہر آن حمد ِ باری میں مشغول رہنا چاہیے، اسے ہر لمحہ اپنے پروردگار کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، شکر ِالٰہی، احکامِ الٰہی پر عمل کرنے کی کلید ہے؛ کیوں کہ شکر ِالٰہی کی وجہ سے انسان کے دل میں اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور یہی محبت انسان کو عبادت وریاضت کی تلقین کرتی ہے، حدیث میں ہے: الطاعم الشاکر بمنزلۃ الصائم الصابر(ترمذی، رقم:۲۴۸۶) کھا کر شکر بجالانے والا صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح ہے، روزہ دار چوں کہ کھانے پینے سے احتراز کرتا ہے؛ اِس لیے اجر پاتا ہے، پس اگر کھانے پینے والا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے تو وہ بھی ثواب کا حقدار ہوتا ہے؛ اِس لیے اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرنے کے بعد شکر بجالانا چاہیے، شکر کے لیے الفاظ کیا ہوں، سرکار ِدوعالمﷺ نے وہ بھی بتا دیے، الحمد للہ حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ۔حمد وثنا کے یہ الفاظ نہایت قیمتی اور اہم ہیں، ایک صحابی نے نماز میں یہ جملہ کہہ دیا تھا، آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ اِن کلمات کی جانب سبقت کررہے ہیں۔(مسلم، رقم:۶۰۰، فضل قول الحمد للہ)
۲- شکر ِالٰہی کے بعد یہ دعا کرائی جارہی ہے کہ اے ہمارے پروردگار، ہم دسترخوان اور بچا ہوا کھانا ضرور اٹھارہے ہیں؛ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کھانا ہمارے لیے کافی ہوگیا،اب ہمیں ا ِس کی ضرورت نہیں؛ بلکہ ہم تا حیات کھانے کے محتاج ہیں اور ہم برتن الٹ دینے والے نہیں، ہمیں آئندہ اِس دسترخوان کی حاجت ہوگی’’غیر مودع‘‘یعنی دسترخوان اور کھانا ہم نے ہمیشہ کے لیے نہیں چھوڑ دیا، وقتی طور پر چھوڑ دیا ہے؛ کیوں کہ ہم ہمیشہ کھانے کے محتاج ہیں’’ولا مستغنی عنہ‘‘ یعنی ہم کبھی بھی کھانے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے، بے نیاز تو آپ کی ذات ہے، الغرض اِن تینوں جملوں کے ذریعہ انسان کی عاجزی، احتیاج اور عبدیت کا اظہار کرایا جارہا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح:۷؍۲۷۰۸)
۳- مفتی تقی عثمانی زید مجدہ فرماتے ہیں:
انسان کا عجیب مزاج ہے کہ جب اُس کی خواہش اور حاجت پوری ہوجاتی ہے اور اس سے دل بھر جائے تو اس چیز سے نفرت ہونے لگتی ہے، اگر پیٹ بھرنے کے بعد وہی کھانا دوبارہ اُس کے سامنے لایا جائے تو طبیعت اُسی سے نفرت کرتی ہے، جس کی وجہ سے رزق کی ناقدری اور ناشکری کا اندیشہ ہوتا ہے؛اِس لیے آپ نے یہ دعا تلقین فرمائی کہ اے اللہ اس وقت یہ دستر خوان ہم اپنے سامنے سے اٹھاتو رہے ہیں؛ لیکن اِس وجہ سے نہیں اٹھارہے ہیں کہ ہمارے دل میں اِس کی قدر نہیں؛بلکہ اِسی کھانے نے ہماری بھوک مٹائی ہے، اِسی سے ہمیں لذت ملی ہے اور نہ اِس وجہ سے اٹھارہے ہیں کہ ہم اس سے مستغنی اور بے نیاز ہیں، ہمیں دوبارہ اِس کی ضرورت ہے؛پس اِس دعا کی برکت سے رزق کی ناقدری بھی نہیں ہوگی اور دوسری طرف اللہ ہمیں دوبارہ رزق عطا فرمائیں گے۔(اسلام اور ہماری زندگی: ۷؍۳۳)

Email: mtalam800@gmail.com
Mob: 07207326739

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×