اسلامیات

سکھ مت — ایک تعارف

مذہب کی تحقیق :
دنیا میں جہاں کہیں انسانی آبادی ہے اس کا اپنا ایک طرز معاشرت ہے جسے وہ شدت سے اختیار کئے ہوئے ہے، یہی وہ مفہوم ہے جو از روئے لغت ـ’’مذہب ‘‘ میں شامل ہے ۔مذہب اسم ظرف کا صیغہ ہے جو مصدر میمی کے طور پر استعمال ہوتا ہے ، جس کے معنی ہیں چلنے کی جگہ چلنے کا راستہ وغیرہ ۔اور جن اصولوں اور قوانین پر زندگی گزاری جاسکے ، یہ مفہوم اس کی اصطلاحی حقیقت ہے ۔ اسی سے ملتاجلتا ایک لفظ(دین) بکثرت استعمال ہوتا ہے جسے مذہب کا مترادف بھی قرار دیا جاتاہے ؛چنانچہ قرآن میں ہے : ان الدین عند اللہ الاسلام ۔(آل عمران :۹۱)۔
یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دین اور مذہب میں ایک بڑا باریک فرق یہ ہے کہ دین نام ہے ان اصول وضوابط کا جو حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضور اقدس ﷺ تک تمام انبیاء اکرام کے درمیان مشترک رہے ؛ جب کہ’’ ــــــ ــ مذہب ‘‘انہی اصول کی فروع کانام ہے؛ اس سے معلوم ہوا کہ دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے ؛البتہ مذاہب تبدیل ہو تے رہے ہیں۔ مذہب کے اس تناظر میں ہمیں بعض ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جن کا کوئی نظر یہ اور مذہب نہیں ہے ،انہیں ’’دہریہ ‘‘کہا جاتا ہے ؛لیکن دہریہ کی یہ تعریف :’’جو خدا اور پیغمبر خدا کامنکر ہو‘‘ زیادہ جامع ہے ۔
مذاہب کی دو قسمیں ہیں :
مذاہب عالم کو دو قسموںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے : الہامی ، غیر الہامی،
الہامی سے مراد وہ ادیان ہیں جو خدا اور اس کے رسولوں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کی طرف منسوب ہوں اور غیر الہامی مذاہب وہ ہیں جن کے ماننے والے خود کو اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ تعلیمات اور عقائد کے تابع نہیں سمجھتے، الہامی مذاہب میں یہودیت ، عیسائیت اور اسلام سر فہرست ہیں ، جبکہ غیر الہامی مذاہب میں ،بقیہ مذاہب آتے ہیں ۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ابتدائے آفرینش سے انسان کااصلی مذہب توحید ررہا ہے ، شرک اس وقت پیدا ہوا جب انسانی آبادی میں اضافہ اور پھیلاؤ ہوا اور انبیاء کی تعلیمات دھندلی پڑ گئیں ؛چنانچہ آج بھی غیر الہامی اور شرک پر مبنی مذاہب : ہندومت ، جین مت ، بدھ مت ، اور سکھ مت وغیرہ میں الہامی تعلیمات کی ہلکی پھلکی جھلک دیکھی جاسکتی ہے ۔ سکھ مت بھی غیر الہامی مذاہب کا حصہ ہے ،ذیل میں کچھ ضروری اور معلوماتی باتیں درج کی جاتی ہیں ۔
سکھ مت کی حقیقت :
سکھ مت کے بارے میں آج کل دو نظریے پائے جاتے ہیں ، بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ ایک جدید اور خود مختار مذہب ہے ؛ جبکہ بعض حضرات کہتے ہیںکہ یہ کوئی با قاعدہ مذہب نہیں ہے ، بلکہ یہ ہندومت کی ایک اصلاحی تحریک کا نام ہے جس نے ہندوانہ عقائد اور نظریات کی اصلاح کا بیڑ ہ اٹھایا تھااور اس کا نصب العین ہندوؤں کے مذہبی عقائد کی تطہیر تھا۔
(تاریخ دعوت و عزیمت : ۵؍۲۸۵ = ، تقابل ادیان ، ص: ۱۰۵)
سکھ مذہب کے بانی :
سکھ مت کے حقیقی بانی کا نام ’’ بابا گرو نانک ‘‘ ہے ، آپ ۱۴۶۹ء؁ میں لاہور سے قریب پچاس میل جنوب مغرب میں ایک گاؤں ’’تل ونڈی ‘‘ میں پیدا ہوئے تھے ، یہ گاؤں اب ننکانہ کے نام سے مشہور ہے ، جائے پیدائش سے متعلق یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ گروجی اپنے ننہال میں پیدا ہوئے تھے ، اسی نسبت سے انکا نام’’ نا نک‘‘ تجویز ہواجس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بچہ جو اپنے ننہال میں پیدا ہوا ہے ۔آپ کے باپ کا نام بابا کلیان چند سنگھ تھا مگر وہ کالو کے نام سے زیادہ مشہور تھے ، آپ کے والدین مذہبی طور پر ہندو تھے ، گرو نانک جی کو مذہب اور شعر و شاعری سے بہت لگائوتھا، کاروباری اور عملی زندگی سے گھبراتے تھے ،مجبور ہوکر والدین نے بارہ سال کی عمر میں شادی کردی جس سے ان کے یہاں دو بیٹے پیداہوئے ،جب اولاد کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر پڑی تو انہیں روزگار کی فکر ہوئی اور اپنے والد کی کو ششوں سے سلطان پور کے نواب دولت علی خاں لودھی کے یہاں ’’گھریلو سازوسامان کے محافظ‘‘مقرر ہوئے اور ایک طویل عر صہ وہاں کام کیا؛تاہم اس دوران انہیں جب بھی فرصت ملتی تو اپنے دل کو تسکین دینے کے لئے جنگلات میں جا کر مراقبہ میں مشغول ہوجاتے ۔
(تقابل ادیان ،ص: ۱۰۶=گرونانک جی اور اسلام،ص: ۱۲)
سکھ مذہب کی شروعات :
کہاجاتا ہے کہ ۱۴۹۹ء؁ میں ایک روز نانک جی اپنے دوست ’’مردانہ‘‘ کے ساتھ ندی میںنہانے کے لئے اترے تو غوطہ لگانے کے بعد باہر نہیں نکلے ،تلاش بسیار کے بعد کچھ پتہ نہیں چلا،تین دنوںکے بعد اسی جگہ سے ظاہر ہوئے جہاں دریامیں اترے تھے ،لیکن کچھ دن بالکل خاموش رہے اور جب زبان کھولی تو یہ کہا: اِک اونکار ستّ نام، کرتاپرکھ ، نِربھَو، نِر وَیر ( یعنی خدائے واحد ہی سچ ہے ، وہی خالق ہے ، اسے کسی کا ڈر نہیں ،اس کی کسی سے دشمنی نہیں ) جب ان جملوں کا مطلب پوچھاگیا تو کہا : نہ کوئی ہندو ہے نہ کوئی مسلمان۔ دریا میں غائب ہونے کے بارے میں بتا یا کہ مجھے خدا کی بارگاہ میں لے جایا گیاتھا ، وہاں مجھے امرت کا پیالہ دیاگیا اور حکم ہوا کہ نام ِ خدا کی عقیدت کا پیالہ ہے اسے پی لو اور میرے نام کی خوشی منائو اور دوسروں کو اس کی تبلیغ کرو،اس واقعہ کے بعد نانک جی کو ’’ گرو‘‘ بمعنی استاذ کہا جانے لگا۔ ( ہندوستانی مذاہب – ایک مطا لعہ ،ص : ۶۱)
اور بعض محققین نے لکھا ہے کہ جب بابا نانک کی عمر تیس سال کے قریب پہنچی تو سکھوں کی روایات کے مطابق انہیں اللہ کا دیدار نصیب ہوا اور انہیں پیغمبر کے طور پر منتخب کر لیا گیا اور انہیں ’’کوئی مسلمان ہے نہ کوئی ہندو‘‘ کا پیغام دیا گیا؛ اس کے بعد انہوں نے ملازمت چھوڑدی۔اس کے بعد بابا نانک نے اسلام اور ہندو مت کے درمیان اتحاد کی تبلیغ کرتے ہوئے مستقل اسفار شروع کئے اور اپنے ساتھی مر دانہ کے ساتھ اس نئی تعلیم کے مبلغ بن گئے ،اپنی تعلیم پر زور دینے کے لئے نانک جی نے مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی پوشاک پہنی اور اپنے عقائد کے پر چار میں لگ گئے اور اس طرح سے سکھ مذہب کا آغاز ہوا،نانک کے ابتدائی دور میں انکے پیرو کار کو بھائی کہا جاتا تھاجو غالبا پانچویں گرو کے دور میں ’’سکھ ‘‘ کے نا م سے متعارف ہوئے،سکھ پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مقلد کے ہیں ۔ ( مذاہب عالم کا انسائکلوپیڈیا ،ص: ۲۵۳)
سکھ مت کا تاریخی ارتقاء :
گرو نانک ۱۵۳۹؁ء کو کرتاپور پاکستان میں فوت ہوئے ،اب وہاں ایک گردوار ہ بنا ہوا ہے ،یہ بات سکھوں کے یہاں مشہور ہے کہ بابا گرونانک کی لاش چادر کے نیچے سے غائب ہو چکی تھی اور اس جگہ مقامی لوگوںکو پھول پڑے ہوئے ملے تھے ، اِس لئے نہ ان کو جلایا جا سکا اور نہ ہی دفن کیا جا سکا۔ نانک جی کی وفات کے بعد اس تحریک کی قیادت انگد نامی شخص نے سنبھالی ،جس نے سکھوںکا اپنا رسم الخط’’ گورمکھی ‘‘ ایجاد کیا اور سکھ کی مذہبی تحریروں کو مرتب کیا،اس کے بعد کے گروؤں نے بھی نانک کے تعلیمات کی پیروی کی اس کے علاوہ تیسرے گرو امرداس نے سکھوں کو بائیس حلقوں میں تقسیم کیا،اور چوتھے گرو رام داس نے سکھوں کی شادی اور مرنے کی رسومات ہندومذہب سے الگ متعین کیں اور ایک قدرتی چشمہ اکبر بادشاہ سے حاصل کر کے ایک شہرکی بنیاد رکھی اور اس چشمہ کو بڑے تالاب کی شکل میں تبدیل کرادیا ،بعدمیں یہ تالاب امر تسر (چشمہ آبِ حیات) کے نام سے مشہور ہوا اور شہر کا بھی یہی نام پڑگیا۔
پانچویں گرو ارجن دیو سنگھ (۱۵۶۳-۱۶۰۶ء) کے آنے پر گرو کے عہدے اور مذہب میں نمایاں تبدیلیاںرونما ہوئیں، اس نے سکھ مت کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب تیار کی، اسی کے دور میں سکھوں میں امن پسندی کے بجائے جارحیت کا رجحان پید ا ہوا، جس کے نتیجہ میں جہانگیر بادشاہ سے ٹکراؤ ہوا اور جہاں گیر کے حکم سے اسے قتل کردیا گیا،اس کے بعد اس کا بیٹاہر گوبند (۱۵۹۶-۱۶۴۵ء) چھٹا گرو منتخب ہوا جس نے حفاظتی پہرے کے لئے خود کو مسلح کیا جس کی وجہ سے سکھوں میں دشمنوں کے لئے انتقامی جذبات میں اور اضافہ ہوا، نویں گرو تیغ بہادر تھے ،اورنگ زیب ؒ نے جب اس پر اسلام پیش کیااور اس نے انکار کردیا تو اورنگ زیبؒ نے اس کو قتل کرادیا، جس کے بعد اس کا بیٹا گرو گوبند سنگھ (۱۶۶۶-۱۷۰۸ء) آخری گرو کے طور پر منتخب ہوا،چوںکہ اس کے باپ کو قتل کیاگیا تھاجس کی وجہ سے یہ اور اس کے ماننے والے مغل حکومت کے سخت مخالف ہو گئے اور اس نے سکھوں کو جنگ کے لئے زیادہ منظم کیا، جس کے لئے اس نے سخت ترین امتحان کے بعد سب سے پہلے پانچ سکھوں کو جو مختلف ذاتوں کے تھے ایک مخصوص رسم کے ذریعہ مریدین کے حلقہ میں داخل کیا جو خالصہ کہلائے ،اس کے بعد ہزارورں سکھ اس میں داخل ہوئے ، گرو گوبند نے اس کے لئے کچھ مخصوص قوانین بھی بنائے اور مردوں کے لئے اپنے نام میں سنگھ ( شیر ) اور عورتوں کو اپنے نام میں کور( شہزادی) کا استعمال اور پانچ چیزوں کا جو ’’ ک ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں رکھنا ضروری قرار دیا یعنی ’’ کیس ‘‘ (بال) کنگھا، کڑا، کچھہ ( جھانگیہ) اور کرپان( تلوار)۔ خالصہ کی تشکیل کے بعد ہی گرو گوبند سنگھ نے مغل سلطنت سے لڑنے کے لئے فوجی کار وائیاں شروع کر دیں ، گرو گوبند نے اپنی موت سے پہلے یہ طے کر دیا تھا کہ اب آئندہ کوئی آدمی سکھوں کا گرو منتخب نہیں ہوگا،بلکہ ان کی کتاب گرنتھ صاحب ہی ان کے لئے ہمیشہ گرو کا کام دے گی، اس لئے اب گرو کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے ۔ (ہندوستانی مذاہب، ص : ۶۶ –مذاہب عالم کا انسائیکلو پیڈیا، ص : ۲۵۷)

جدید سکھ مت :
اگرچہ دنیا کے اکثر حصوں میں سکھ برادریاں موجود ہیں ؛ البتہ جدید سکھ زیادہ تر ہندوستان میں پائے جاتے ہیں ، اب سکھوں کے مختلف فرقے ہیں ،چونکہ اس مذہب کی اولین بانیوں کی تعلیم میں ’’ عدم تشدد اور امن پسندی ‘‘کو بنیادی حیثیت حاصل تھی، اس کی وجہ سے موجودہ سکھ برادری میں زیادہ تر لوگ سادگی کی طرف مائل ہیں ۔ کچھ مشہور فرقوں کے نام یہ ہیں :
(۱) نانک پنتھی ( یہ لوگ امن پسند ہوتے ہیں اور لمبے بال رکھنے پر اصرار نہیں کرتے اور ڈاڑھی منڈوانے کو ترجیح دیتے ہیں )
(۲) اداسی ( یہ لوگ رہبانیت پسند ہوتے ہیں، اداسی کے معنی ہیں : تارک ِدنیا)
(۳) اکالی فرقہ ( اکالی کے معنی ہیں ’’اللہ‘‘ یعنی خدا کی پوجا کرنے والافرقہ ، یہ لوگ انتہائی جنگجو ہوتے ہیں)
(۴) سنگھ ( اس کا تذکرہ پہلے آچکا ہے )
نوٹ : اب عام طور سے سکھ وہ ہیں جو اپنے کو دس گروؤں کے شاگرد مانتے ہیں او ر ان کے ملفوظات اور تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں۔
سکھوں کے گردوارے :
سکھو ں کے گردوارے پنجاب کے اکثر علاقوں میں پائے جاتے ہیں ،جن میں زیادہ مشہور گردوارے : امرتسر، گورداس پوراور فیروزپور کے اضلاع میں ہیں ، سکھوں کے نزدیک سب سے زیادہ مقدس گردوارہ امرتسر کا طلائی مندر یعنی دربار صاحب ہے اور گرو نانک کی جائے پیدائش ننکا نہ صاحب ہے ، جہاں ہر سال مقررہ اوقات پر میلے لگتے ہیں ، ہر سکھ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کم از کم ایک مرتبہ وہ ’’ امرتسر کے گردوارے میں حاضر ہوجائے ، آج کل اسے گولڈن ٹیمپل کہا جاتاہے ۔ (تقابل ادیان ، ص: ۱۱۳)
سکھوں کی مذہبی کتاب :
سکھوںکی مذہبی کتاب گرنتھ ہے جسے سکھوں کے پانچویں گرو ارجن سنگھ نے لکھا تھا، گرنتھ کے کل اشعار کی تعداد ۳۳۸۴ ہے ، کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب حضرت ابراہیم فرید چشتی کی شاعری سے لبریز ہے اور بعض کا خیال ہے کہ حضرت بابا فرید گنج شکر کا کلام ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے ہر شعر کے اخیر میں ’’ فرید ‘‘ تخلص موجودہے ۔
سکھ مت کی تعلیمات :
سکھ مت کی تعلیمات میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ ــ ’’ اخوت اور مساوات کا پر چار ،، ہے ؛ چنانچہ گرو نانک نے یہی نعرہ دیا تھا کہ ’’کوئی مسلم ہے نہ کوئی ہندو ہے ،، سکھ مذہب کا رجحان اس جانب بھی ہے کہ ہندومت اور اسلام دونوں افراط اور تفریط کا شکا ر ہیں ، گرونانک کی تعلیمات میں ، توحید ، عشق الٰہی ، تزکیہ نفس ، خدمت خلق ، ارکان اسلام ، رسالت ، قر آن کریم اور قیامت اور اسلامی تصورات کے ساتھ ساتھ آواگون اور گرو جیسے ہندوانہ تصورات بھی پائے جاتے ہیں ؛چونکہ گرونانک کی تعلیمات میں اسلام کے عقائد واحکام کاتصور بھی ہے جس کی بناء پر بعض لوگ انہیں مسلمان مانتے تھے ، اور ہندوانہ تصور کی وجہ سے انہیں ہندو بھی کہاجاتاہے ۔
کیا سکھوں کو مسلمان مانا جاسکتا ہے ؟
موجودہ سکھ مت اور اسلام کاتقابل کیا جائے تو یہ حقیقت خوب واضح ہوجاتی ہے کہ سکھ مسلمان نہیں ہیں ،اور خود بھی اپنے کو مسلمان نہیں سمجھتے اور نہ ان کے نام مسلمانوں جیسے ہوتے ہیں ،شواہد کے طور پر چند نمونے ملاحظہ فرمائیں ۔
(۱) گرونانک کا اخوت مساوات کاتصور ( نہ کوئی مسلم ہے نہ کوئی ہندو ہے ) اسلامی نظریہ مساوات سے بالکل الگ ہے ، اسلام ایک دین ہے اور کفر خواہ کسی بھی صورت اور شکل میں ہو وہ الگ دین ہے الکفر ملۃ واحدۃ، دونوں مساوات کے نام پر جمع نہیں ہوسکتے۔
(۲) تناسخ اور آواگون کا ہندوانہ عقیدہ سکھ مت نے قبول کیا ہے جبکہ یہ اسلام کے مخالف ہے ۔
(۳) نبوت وپیغمبری : سکھ لوگ اپنے بانی گرونانک کو ایک پیغمبر کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں ؛جبکہ اسلام میں نبیﷺ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوسکتا۔
(۴) خلاف فطرت امور : سکھ جسم کے کسی حصہ کابال نہیں کاٹتے ہیں ؛جبکہ اِسلام دین فطرت ہونے کی وجہ سے غیر ضروری بالوں کے تراشنے کاحکم دیتاہے۔ (تقابل ادیان ، ص: ۱۱۴)
سکھوں کے شب وروز :
سکھوں کے شب وروز کے معمولات کچھ اس طرح ہیں کہ صبح سویرے اٹھ کر سب سے پہلے غسل کرتے ہیں ،پھر مخصوص بھجن گاتے ہیں اوردعائیں پڑھی جاتی ہیں، رات میں بھی اس کارواج ہے ۔ سکھ اجتماعی عبادات کے لئے گردوارے میں جمع ہوتے ہیں جہاں عبادت کا مرکزی عنصر گرنتھ ہوتا ہے ،کیوں کہ سکھوں کاکوئی مذہبی پیشوا نہیں ہوتاہے ۔ (مذاہب عالم کاانسائیکلو پیڈیا ، ص: ۲۵۹)

اس موضوع پر تفصیلی کتابیں :
(۱) دین اسلام گرونانک جی کی نظر میں تالیف: عبیداللہ گیلانی، کتب خانہ انجمن ترقی جامع مسجد دہلی۔
(۲) گرونانک جی اور اسلام، مفتی محمد فاروق صاحب ، مکتبہ محمودیہ ہاپوڑ روڈ میرٹھ۔
(۳) ہندوستانی مذاہب ایک مطالعہ ، ڈاکٹر ر ضی احمد کمال ، مکتبہ الحسنات دہلی ۔
(۴) تاریخ پنجاب، لالہ کھنیا لال جی۔
(۵) تاریخ دعوت وعزیمت جلد پانچ ، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ۔
(۶) مذاہب عالم کا انسائیکلو پیڈیا، مصنف: لیورس مور ، ترجمہ سعدیہ جواد ، یا سر جواد ، نگارشات پبلیشرز لاہور۔
(۷) تقابل ادیان، مولانا پروفیسر محمد یوسف خان ، بیت الاسلام انار کلی لاہور۔
(۸) سکھ مت ، آزاد دائرۃ المعارف ، ویکیپیڈیا۔

Email:mtalam800@mail.com
Mob:07207326739

Related Articles

One Comment

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    اللہ تعالی آپ کوسلامت رکھے دنیاوآخرت کی بھلائیوں سے نوازے سکھ دھرم کے بارے میں کافی گیان پراپت ہوا مزید استفادہ کرنا چہاتاہوں –
    کیونکہ میں سکھ دھرم پر کام کررہا ہوں حال مقیم کویت

اسلام عبدالحکیم ریاضی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×