تہوار کا بہانہ، غریب پر نشانہ اوربہار ہے ہتھیانا
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت ہمارا عزیز ترین ملک معیشت کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے پڑوسی ممالک ہمیں آنکھ دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ حتی کہ بھوٹان جیسا ملک بھی ہم سے آنکھیں ملانے کو تیار ہے۔ جب کہ چین اور نیپال تو ہمارے سینوں پہ سوار ہی ہیں۔ ادھر شری لنکا بھی چین سے ہاتھ ملانے کامتمنی ہے۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ان ممالک سے ماضی میں ہمارے تعلقات استوار، رہے ہیں۔ رشتوں میں کشیدگی ابھی حالیہ ایام میں آئی ہے۔ جس کے لیے برسر اقتدار حکومت کی خراب پالیسیوں کا انکار ممکن نہیں اور سیاست کی سب بڑی خوبی ڈپلومیسی کی کمی بھی خوب کھلی۔ وہیں دوسری طرف دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہمارا ملک کورونا وبا کی شکارگاہ بنا ہوا ہے۔
لیکن ہمارے ملک کے وزارت عظمیٰ جیسے منصب پر فائز مسٹر مودی جی اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھی ان کی پارٹی (بی۔جے۔پی۔) اپنی گندی سیاست سے باز آنے کو تیار نہیں اور زر خرید میڈیا بھی اپنے ان آقاؤں کی نمک حرامی نہیں کرنا چاہتی۔ ہمیں یہ بات بہ خوبی معلوم ہے کہ چین اس وقت اپنی سرحدوں کو تجاوز کر ہماری سرزمین پر بوریا،بستر جمائے ہوئے ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک کا میڈیا عوام کو خوب گم راہ کرنے میں لگاہے۔ کبھی یہ بتا رہاہے کہ چین کی فوج واپس پیچھے جارہی ہے تو کبھی یہ کہ ٹک ٹاک نامی موبائل ایپ بین کرنے سے چین کا ڈیجیٹل اسٹرائک ہوا ہے اور اس کی کمر ٹوٹنے کے قریب ہے۔ تو کبھی نیپال جس نے خود ہند-نیپال سرحد پر فوجی دستہ تعینات کیا اسی ناکہ بندی سے خود اس کی معیشت کا جنازہ نکلنے کو ہے۔ جب کہ حقائق بالکل برعکس ہیں۔ اب کیا کریں گے شاید ملک کا مستقبل ہی دھندھلا پڑنے والا ہے ورنہ خود حکومت اور عدالت ایسی میڈیا پہ لگام کسنے میں ذرہ برابر بھی تامل نہ کرتی۔
اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ پوری قوم کو مخاطب کرتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم نے چین اور نیپال کے مسئلہ پر ذرا سا بھی روشنی ڈالنی مناسب نہ سمجھی!!! جب کہ اب تک ۲۰؍ ہندستانی فوجی چین کی نیچ حرکتوں کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا چکے ہیں ساتھ ہی نیپالی پولیس دستہ کے ہاتھوں ہمارے ملک کے پانچ شہری بھی موت کا جام پی چکے ہیں۔۔۔اور صرف اسی خطاب میں نہیں بلکہ جب سے چین اور نیپال کا مسئلہ سامنے آیا تب سے ہی برسر اقتدار پارٹی کے وزرا وحکمراں سب کے سب اس معاملہ کو لے کر خاموشی کے گہوارے میں ہیں۔ جب کہ یہی وزرا اور یہی پارٹی جب اقتدار میں نہیں آئی تھی تو انھیں ممالک کی چھوٹی، بڑی ہر ایک حرکت پر حکومت سے برجستہ سوال پوچھتی تھی۔ اس معاملہ میں حزب اختلاف کی پارٹیاں بھی کم سزوار نہیں کہ وہ کچھ بولنے کی ہمت نہیں جٹا پارہی ہیں۔ یا انھیں اعظم خاں، اور کشمیری نیتاؤں کا انجام ستائے جارہا ہے۔ یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی خستہ حالی جمہوریت نے انھیں خاموش تماشائی بنا دیا ہے کہ جب راہل گاندھی جیسے نیتا کو حکومت کی پالیسیوں پر استفار کی وجہ سے دیش دروہی کہا جاسکتا ہے تو وہ کس کھیت کی مولی ہیں۔۔۔ غرض کہ یہ بہت بڑا المیہ بن چکا ہے کہ کوئی کچھ بولنے کو تیار نہیں ہے۔ البتہ ہاں! اگر کسی کو انتخابی عنوان پر تقریر کرنے کو کہہ دیا جائے تو کسی کی زبان کو لقوہ نہیں مارتا۔
ابھی حالیہ بیان میں ملک کے وزیر اعظم مسٹر مودی صاحب نے تہواروں کی بات کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے وقت میں کئی ایک تہوار ہیں مثلاً دیوالی، چھٹ پوجا ۔۔۔ اس لیے ملک میں ہر شخص کو پانچ کلو غلہ نومبر کے ماہ تک مفت دیا جائے گا۔ بڑی اچھی بات ہے کہ چلئے صاحب کو غریبوں کی فکر ہے کہ کہیں وہ بھوک مری کا شکار نہ ہو جائیں۔۔۔ لیکن تہواروں کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے صاحب ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے بڑے تہواروں میں شمار ’’بقرہ عید‘‘ کا نام لینا ہی بھول گئے۔۔۔ ہوسکتا ہے کام کے بوجھ تلے بات ذہن سے نکل گئی ہو اگر چہ صاحب بڑے سنجیدگی سے ہر ایک بات بڑی تول مول کر بولتے ہیں۔ یہ بات تو ضمناً قلم بند کردیا ورنہ اس سے ہم مسلمانوں کو کوئی سروکار نہیں۔۔۔ البتہ سوال یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے ابتدائی ایام میں جب کہگھر سے باہر نکلنا انتہائی مشکل تھا، غریب پریشاں حال تھے اس وقت ان غریبوں کی یاد کیوں نہیں آئی؟ جب بھوک سے بلکتے بچوں کے ساتھ ایک ماں نے پھانسی لگا لی تھی؟ جب لوگ اپنے گھروں کی جانب پیدل سفر کرنے پر مجبور تھے؟ جب دنیا کی حسین ترین مخلوق جانوروں سے بد تر لاریوں میں بھر بھر کر سفر کرنے پر مجبور تھی باوجود کہ انھیں اب بات کا بھی ڈر تھا کہ کب انتظامیہ لاٹھی چارج شروع کردے؟ جب آدی واسی ہی سہی لیکن ملک کے شہری گھاس کھا کھا کر اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے پر مجبور تھے؟۔ کیا حکومت کے پاس اس وقت جمع پونجی بالکل بھی نہیں تھی؟ کیا حکومت کے خزانے میں کھوٹے سکے بھی نہیں تھے کہ ان بے چاروں کی اسی وقت مدد کی جاتی؟۔ بہ ہر حال ’دیر آید درست آید‘ لیکن ایک بات میرے ذہن میں ابھی بھی کھٹک رہی ہے کہ حکومت نے نومبر تک غلہ مفت دینے کا اعلان کیا، خاص کر چھٹ پوجا نامی تہوار کے اختتام تک؟ اب ہمیں تہواروں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ تہوار ، تہوار ہوتا ہے خواہ کسی بھی مذہب کا ہو اس میں حکومت کی جانب سے چھوٹ؍ تہواری بھی ملنی چاہیے۔۔۔ لیکن یہ یاد رہے مذکورہ تہوار ملک کے اسی حصہ میں زیادہ تر منائی جاتی ہے جہاں نومبر میں ہی انتخاب ہونا ہے۔اور اسی صوبہ کے زیادہ تر لوگ مزدوری بھی کرتے ہیں، وہیں کی عوام کچھ دنوں پہلے تک بے کسی، بے بسی اور مجبوری کے عالم میں پیدل ہی اپنے گھروں کی جانب نکل چکی تھی، پاؤں میں چھالے تک پڑ چکے تھے، کتنوں نے تواپنی جان بھی گنوا دی تھی ۔ اب حکومت کی جانب سے اعلان کردہ نومبر تک مفت اناج دینا حکومت کی غریبوں کے تئیں ذمہ داری ہے یا پھر ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی؟ کہ ان بہار واسیوں کے زخموں پر مرہم لگا کر ان کا ووٹ حاصل کیا جائے جن کے زخموں پر کچھ دنوں پہلے نمک رگڑا جا رہا تھا۔