اسلامیات

قربانی کی عظمت واہمیت

اللہ رب العزت نے ذی الحجہ کے مہینہ کو مختلف عبادات کی وجہ سے خاص مقام عطا فرمایا ،تمام مسلمانوں کے لئے اس مہینہ میں جو سب سے زیادہ مسرت اور خوشی کا سامان ہے وہ عید الاضحی ہے ،پورے سال میں مسلمانوں کی دو عیدیں ہیں ،ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحی ۔عید الفطر تو روزہ ،تراویح ،شبِ قدراوراعتکاف جیسی اہم ترین عبادتوں کے صلہ میں عطا کی گئی ہے ،لیکن عید الاضحی دراصل حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی یادگار ہے ،یہ ان کی بے مثال قربانیوں کی یادگار ہے ،جسے اللہ تعالی نے عظیم ترین عبادت قراردے کر اس کا احترام مسلمانوں پر لازم کردیا اورتمام ہی مسلمانوں کو اس کے اہتمام کی تاکید بھی کی ہے۔
یوں تو دنیا میں ہزاروں افراد قربانیاں دے چکے ہیں ،ہر مذہب اور ہر معاشرہ میں قربانیاں دی جاتی رہی ہیں اور دی جاتی رہیں گی ،لیکن حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی کو جو مقام بارگاہِ ایزدی میں عطا ہوا ہے ،تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی ۔
قربانی کے فضائل:
حضرت زید بن ارقم ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے صحابہ کرامؓ نے سوال کیا :یارسول اللہ ! یہ قربانی کیا ہے؟آپﷺ نے فرمایا :تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے ۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ ہمیں اس قربانی میں کیا ملے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا:ہربال کے بدلے میں ایک نیکی ،صحابہؓ نے پھر سوال کیا ،یا رسول اللہ ﷺ!اون ( کے بدلہ میں کیا ملے گا)؟آپ ﷺ نے فرمایا اون کے ہر بال کے بدلہ نیکی ملے گی(مرقاۃ المفاتیح ۳؍۱۰۸۸)، اربانی کی فضیلت کا اندازہ ا س بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور اس عرصہ میں آپ ﷺ مسلسل قربانی فرماتے تھے (المستدرک:۹؍۱۹ شاملہ)، دوسری حدیث میں حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عید الاضحٰی کے دن کوئی نیک عمل اللہ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اورکھروں سمیت آئے گا اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے پاس شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے، لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیاکرو۔(المستدرک ۴؍۲۴۶) نبی ﷺ نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا ائے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجاؤ (ذبح کے وقت قریب رہو) کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے گناہ معاف ہوجائیں گے ، حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ فضیلت کیا صرف ہمارے (یعنی اہل بیت) لئے مخصوص ہے یا سب مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ فضیلت ہمارے لئے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی ہے (المستدرک:۷۵۸۸)
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں قربانی کے مقصد اوراس کی حقیقت کو بیان فرمایا ’’لن ینال اللہ لحومہا ولا دماؤھا ولکن ینالی التقوی منکم‘‘(الحج:۳۷)اللہ کے پاس نہ اس ک اگوشت پہونچتا ہے نہ اس کا خون ،لیکن ا سکے پاس تمہارا تقوٰی پہونچتا ہے ، قربانی کرنے میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ جتنے اخلاص اور اور اللہ سے محبت کے ساتھ قربانی کی جائے گی اتنا ہی اجر و ثواب اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے اور یہ اصول صرف قربانی کے لئے نہیں بلکہ دوسری تمام عبادات نماز، روزہ، زکوۃ اور حج ہر عمل کے لئے ہے، یہ تمام اعمال اس وقت مقبول ہونگے جب کہ ان کے اندر ریاکاری ،شہرت،نام ونمود وغیرہ نہ ہو،اگر یہ عبادات اخلاصو محبت سے خالی ہیں تو صرف یہ صورت اور ڈھانچہ ہیں اصل روح موجود نہیں ، لہذا اخلاص اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے۔
قربانی نہ کرنے پر وعید:
قربانی کے متعلق جہاں رسول اللہ ﷺ نے بہت ساری فضیلتیں ارشاد فرمائی ہیں وہیں صاحب نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں پر وعید بھی بیان فرمائی ’’من کان لہ سعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا(ابن ماجہ: ۲؍۱۰۴۴) رسو اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص وسعت اور قدرت کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے، کتنی سخت وعید بیان فرمائی گئی ،رسول اللہ ﷺ جو اپنی امت سے بے پناہ محبت کرنے والے ہیں لیکن وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے کے لئے کتنی سخت وعید فرمارہے ہیں لہذا اگر اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہے تو قربانی کے عمل میں غفلت اور لاپرواہی سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
قربانی کے متعلق ذہن میں سوال آتا ہے کہ قربانی کے ذریعہ تو معاذ اللہ لاکھوں روپیہ خون کی شکل میں نالیوں میں بہائے جارہے ہیں اور معاشی اعتبار سے نقصان دہ ہے جانوروں کی تعداد میں کمی ہورہی ہے لہذا قربانی کے بجائے صدقہ خیرات کرکے غریبوں کی مدد کی جائے ،ا س کاجوب یہ ہیکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے زکوۃ کے علاوہ صدقہ خیرات کے ذریعہ غریبوں کی مدد کی ترغیب دی ہے مگر قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عظیم الشان کارنامہ کی یادگار ہے جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹادیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بلا چوں و چرا حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کیا تھا مگر اللہ نے فضل فرماکر جنت سے دنبہ بھیج دیا ، اس عظیم الشان کارنامہ پر عمل قربانی کرکے ہی ہوسکتا ہے محض صدقہ خیرات سے اس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوگی اور نبی ﷺ نے بھی فرمایا عید کے دن قربانی کا جانو(ر خریدنے )کے لئے پیسے خرچ کرنا اللہ کے پاس اور چیزوں میں خرچکرنے سے زیادہ افضل ہے(دار قطنی: ۵؍۵۰۸)
قربانی کا پیغام:
۱)جانور کی قربانی کے وقت حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کے عظیم الشان عمل کو یاد کریں کہ دونوں اللہ کے حکم پر بلا تاخیر سب سے محبوب چیز کی قربانی کے لئے تیار ہوگئے، لہذا ہم بھی احکام الٰہی پر عمل کرنے کے لئے جان ومال اور وقت کی قربانی دیں۔
۲)قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔
۳) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں صرف یہی ایک عظیم واقعہ نہیں بلکہ انہوں نے پوری زندگی اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گذاری جو حکم بھی اللہ کی طرف سے ان کو ملا فوراً اس پر عمل کیا ، جان، مال، ماں باپ، وطن اور لخت جگر غرض سب کچھ اللہ کی رضا میں قربان کردیا ، ہمیں بھی اپنے ا ندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ اللہ کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر ہم خوشی کے ساتھ عمل کریں گے۔

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×