اسلامیات

رمضان شریف میں کرنے کے پانچ اہم کام

رمضان المبارک کی رحمتیں برکتیں اور سعادتیں ہم عاصیوں پر سایہ فگن ہوچکی ہیں اور ہمارے اعمال کا بھاؤ بڑھ چکا ہے۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے خلاصی اور چھٹکارے کا ہے۔ اس ماہ کی عظمت کے پیش نظر جنت کو سال بھر آراستہ کیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ سرکش شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے تاکہ افرادِ امت سکون واطمینان اور دل جمعی کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو سکیں۔ ہر سال رمضان المبارک کی آمد سے قبل تمام مسلمان استقبال رمضان کے جلسوں، دینی اور تعلیمی حلقوں نیز ایک دو ہفتے پہلے سےحضرات علماءوخطباءکے جمعہ کے بیانات میں ماہ مبارک کے فضائل سن کر اس کی سعادتیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لیے مستعد ہو جاتے تھے اور بعض اللہ کے بندے مزید اہتمام کرتے ہوئے رمضان کا سارا سودا اور عید کی ساری تیاریاں بھی رمضان سے پہلے ہی کر لیتے تھے۔ لیکن ہماری شامت اعمال اور خدائے برتر کی ناراضگی ہےکہ کرونا وائرس کی منحوس وباء اور لاک ڈاؤن کے ناگفتہ بہ ماحول کی بنا پر رمضان سے بہت پہلے ہی یہ تمام سلسلے موقوف کردیئے گئے اور انہی حالات میں ماہ مبارک کا چاند نظر آگیا۔ لیکن حالات خواہ جیسے بھی ہوں رمضان المبارک کا مہینہ تو ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنی تمام رحمتوں برکتوں اور سعادتوں کے ساتھ حاضر ہوا ہے۔ لہذا ہر سال کی طرح اس سال بھی ہمیں ماہ مبارک کو اسی اہتمام بلکہ اس سے زیادہ اہتمام کے ساتھ گزارنا ہوگا کیونکہ روٹھے ہوئے خدا کو منانے کا یہ بہترین موقع ہمیں نصیب ہوا ہے، نیز اس رمضان میں لاک ڈاؤن کی بنا پر (اگر اس کی معیاد میں مزید توسیع ہوتی ہے) تو ہمیں جہاں اپنے اوقات کا وافر حصہ خالی ملے گا وہیں اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک اور غرباء ومساکین کی خیر خواہی کا بہترین موقع نصیب ہوگا نیز گھر پر رہنے کی بنا پر کبھی اپنے مزاج کے خلاف حالات کا سامنابھی ہوگا، جس میں ہمارے صبر کا بھی امتحان ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی آمد سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو انہی باتوں اور کاموں کی ترغیب دی ہے۔ آئیے پہلے اس حدیث کو پڑھ لیتے ہیں:
وعن سلمان الفارسي قال : خطبنا رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في آخر يوم من شعبان فقال : ” يا أيها الناس ، قد أظلكم شهر عظيم ، شهر مبارك ، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر ، جعل الله صيامه فريضة ، وقيام ليله تطوعا ، من تقرب فيه بخصلة من خصال الخير كان كمن أدى فريضة فيما سواه ، ومن أدى فريضة فيه كان كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه ، وهو شهر الصبر ، والصبر ثوابه الجنة ، وشهر المواساة ، وشهر يزاد فيه رزق المؤمن ، من فطر فيه صائما كان له مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار ، وكان له مثل أجره من غير أن ينتقص من أجره شيء ” ، قلنا : يا رسول الله ليس كلنا نجد ما نفطر به الصائم ، فقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : ” يعطى هذا الثواب من فطر صائما على مذقة لبن ، أو تمرة ، أو شربة من ماء ، ومن أشبع صائما سقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخل الجنة ، وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة وآخره عتق من النار ، ومن خفف عن مملوكه فيه غفر الله له ، وأعتقه من النار ” .(مشکوۃ ؛1965)
حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے اخیر دن ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
” لوگو تم پر عظيم الشان مہينہ سايہ فگن ہو رہا ہے، يہ بابركت مہينہ ہے، اس ميں ايك ايسى رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے روزے فرض كيے ہيں، اور اس مہينے كى راتوں كا قيام کو نفل بنایا ہے، جس نے بھى اس مہينہ ميں كوئى خير و بھلائى كا كام سرانجام دے كر قرب حاصل كيا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نےغیررمضان میں كوئى فرض ادا كياہو، اور جس نے اس مہينہ ميں كوئى فرض سرانجام ديا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نےغیررمضان میں ستر فرض ادا كياہو، يہ صبر كا مہينہ ہے، اور صبر كا ثواب جنت ہے، يہ خير خواہى كا مہينہ ہے.
اس ماہ مبارك ميں مومن كا رزق زيادہ ہو جاتا ہے، اور جس كسى نے بھى اس مہينہ ميں روزہ دار كو افطار كراياہو اس كے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں، اور اس كى گردن جہنم سے آزاد كر دى جاتى ہے، اور اسے بھى روزہ جیسااجروثواب حاصل ہوتا ہے اور كسى كے ثواب ميں كمى نہيں ہوتى.
صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم ميں سے ہر ايك كے پاس تو روزہ افطار كرانے كے ليے كچھ نہيں ہوتا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اللہ تعالى يہ اجروثواب ہر اس شخص كو ديتا ہے جس نے بھى كسى كا روزہ كھجور يا پانى كے گھونٹ يا دودھ كے ساتھ افطار كرايا، اور جس نے بھى كسى روزے دار كو پيٹ بھر كر كھلايا اللہ سبحانہ و تعالى اسے ميرے حوض کوثر كا پانى پلائےگا وہ جنت ميں داخل ہونے تك پياس محسوس نہيں كرےگا۔
اس ماہ كا ابتدائى حصہ رحمت ہے، اور درميانى حصہ بخشش اور اخیر حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے۔ جس كسى نے بھى اپنى لونڈى وغلام اورنوکرچاکےکےکام میں تخفيف کیااللہ تعالى اسے بخش ديےگا اور اسے جہنم سےآزاد كر دےگا۔
مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کے فضائل اور اعمال کے اجر و ثواب میں اضافہ کو بیان کرنے کے ساتھ چند باتوں اور کاموں کی ترغیب دی ہے، جن پر ہمیں عمل کر کے ماہ مبارک کے مقصد کو حاصل کرنا ہے۔
1)پہلی چیز ارشاد فرمائی کہ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ روزے کی شدت اور گرمی کی حدت کی بنا پر روزہ دار کو چھوٹی چھوٹی باتوں اور طبعیت کے خلاف کاموں پر غصہ آہی جاتا ہے۔ اس لئے نبی رحمت ﷺ نے پہلے ہی صبر کرنے کی تلقین فرمادی اور اس کے بدلہ میں جنت کی بشارت سنائی ہے۔
2) دوسری چیز مواساۃ و خیرخواہی ہے۔ کہ اپنا پیٹ جب خالی ہوگا تب ہی بھوکوں کی حالت زار کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔بالخصوص موجودہ حالات میں لاک ڈاون کی وجہ سےلوگ بھوک کی شدت سےتڑپ رہےہیں تواس میں اوربھی زیادہ اس کااحساس ہوناچاھئیے اس لئے ماہ مبارک میں غرباء و مساکین کے درد و الم کو محسوس کرتے ہوئے ان کے ساتھ خیر خواہی کا حکم دیا گیا ہے۔
3) تیسری چیز حدیث میں یہ بیان کی گئی ہےکہ اس ماہ میں مؤمن کے رزق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ حضرات علماءنےیہاں وضاحت فرمائی ہےکہ اس سےروزی اورکھانےپینے کی چیزوں میں برکت مرادہے ۔ اور اس کے فوراً بعد روزہ دار کو افطار کرانے کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔ یہ اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے کہ یہ تمہارے رزق میں جو زیادتی اور اضافہ کیا جارہا ہے صرف اپنا پیٹ بھرنے کے لیے نہیں بلکہ غریب روزے داروں کے سحر وافطار کا انتظام کرنے کے لئے ہے۔ اس لئیےاپنےکھانےکےساتھ ان کابھی خیال رکھاجائے
4) پھر روزہ افطار کرانے کے دو درجے بیان کئے گئے ہیں اور دونوں کا اجر بھی بتایا گیاہے،
پہلا درجہ ایک گلاس لسی یا دودھ یا ایک کھجور یا کم از کم ایک گلاس یا ایک گھونٹ پانی پلانا، اس پر اللہ کے نبی نے تین فضیلتیں بیان فرمائی ہیں :
1) ایک گناہوں کی معافی
2) دوسری جہنم کی آگ سے چھٹکارا اور خلاصی اور
3) تیسری روزہ دار کے ثواب کے بقدر ثواب۔
افطار کرانے کا دوسرا درجہ یہ کہ روزے دار کو پیٹ بھر کر کھلائے۔ اس کے ثواب کے طور پر پہلے درجے کی تین فضائل کے ساتھ مزید ایک بہت بڑی سعادت اور فضیلت اس بندے کو یہ نصیب ہوگی کہ اللہ تعالی میرے حوض کوثر سے اُس کو اُس دن جب ساری انسانیت پیاس کی شدت سے بے بس ہوگی ایسا پانی پلائیں گے کہ پھر جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔
5) پانچواں کام اپنے ماتحتوں (بیوی بچوں اور نوکر چاکر) پر نرمی اوران کےکام کےبوجھ کوکم کرناہے۔ لہذا لاک ڈاؤن کی بناء پر میسر آئے فرصت کے ان لمحات اور رمضان کے قیمتی اور بابرکت اوقات کو مذکورہ بالا پانچ کاموں میں اور تلاوت و عبادت، ذکر و اذکار میں صرف کریں۔ یہی ذخیرہ کل قیامت کے دن کام آئے گا۔
اخیر میں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ماہ رمضان سے متعلق ایک اہم ارشاد نقل کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں حضرت فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی رمضان المبارک کے لمحات(نیک اعمال کا اہتمام اور گناہوں سے بچنے کا التزام کرتے ہوے) جتنے عمدہ طریقہ پر گذارے گا،اللہ پاک بقیہ سال بھی اس کو ویسے ہی گذارنے کی توفیق عطا فرمائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×