اسلامیات

حضرت لقمان ؒ:شخصیت اورنصیحتیں

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اپنے جن برگزیدہ بندوں کے واقعات کو بیان فرمایا ان میں ایک حضرت لقمان ؒ بھی ہیں۔قرآن کریم میں پوری ایک سورۃ ان ہی کے نام سے منسوب ہے ،اور بڑے اہتمام کے ساتھ اللہ تعالی نے ان کی قیمتی نصیحتوں کو اپنے آخری کلام میں ذکر فرمایا ،یقینا اس سے حضرت لقمان کے بلند مقام ومرتبہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔حضرت لقمان ؒ کے حکیمانہ اقوال اور ناصحانہ کلمات سے ایک جہاں مستفید ہوا اور آج بھی ان کی گراں قدر نصیحتیں اہل ِ ایمان کے لئے ایمان افروز اور سبق آموز ہیں۔
حضرت لقمان ؒ کا تعارف:
حضرت لقمان کا پورا نام’’ لقمان بن باعورائ‘‘ تھا ،آپ حضرت ایوب ؑ کے بھانجے یا خالہ زاد بھائی تھے ،تقریبا 1000سال کی عمر پائی ،حضرت داوؤد ؑ کے زمانہ میں ان سے علم حاصل کیا ۔( روح المعانی :21/82بیروت)حضرت لقمان ؒ اللہ تعالی کے نیک اور مقرب بندوں میں سے تھے ، جن کی زبان پر اللہ تعالی علم وحکمت کو جاری فرمایا دیا تھا ،اسی وجہ سے ان کو ’’حکیم لقمان ‘‘ کہاجاتا ہے۔لوگ ان کے حکیمانہ اقوال کو سننے کے لئے دور دراز کا سفر کرکے آتے تھے۔حضرت لقمان پیشہ کے اعتبار سے کیا تھے ؟بعض نے کہا کہ آپ درزی تھے اور بعض نے کہا کہ آپ ایک آدمی کی بکریاں چراتے تھے ،چناں چہ ایک مرتبہ ایک آدمی آپ کودیکھا جو پہلے سے پہنچانتا تھا اس نے کہا کہ: کیا تم فلاں کے غلام نہیں ہو؟آپ نے فرمایا:ہاں!اس نے پوچھا کہ تم اس مقام پر کیسے پہنچ گئے کہ لوگ تمہاری باتوں کو سننے کے لئے جمع ہیں؟آپ نے فرمایا: کہ تین باتوں کے اہتمام کی وجہ سے !ایک: امانت کی ادائیگی ،دوسری :سچ بات کا التزام،تیسری:غیر ضروری اور فضول کاموں سے اجتنا ب ۔( الجامع للقرطبی:16/469بیروت)
حضرت لقمان ؒ نبی تھے یا ولی؟
حضرت لقمان نبی تھے یا ولی تھے اس بارے میںجمہور سلف کا اتفاق ہے کہ حضرت لقمان ولی تھے ، نبی نہیں تھے ،اللہ تعالی نے آپ کو نبوت اور حکمت میں کسی ایک کے انتخاب کرنے کا اختیار دیا تو آپ نے حکمت کا انتخاب فرمایا، چناں چہ ایک مرتبہ آپ سوئے ہوئے تھے ،جبریل ؑ آئے آپ کو حکمت سے آراستہ کیا ،صبح ہوئی تو آپ کی زبان پر حکمت جاری ہوگئی۔ایک مرتبہ حضرت سعید بن مسیب ؒ کے پاس ایک سیاہ رنگ کا حبشی کوئی مسئلہ دریافت کرنے آیا تو آپ نے فرمایا کہ تم اپنے کالے رنگ ہونے پر غم نہ کرو ،کیوں کہ کالے رنگ والے تین بزرگ ایسے ہیں جو لوگوں میں سب سے بہتر تھے ، حضرت بلال حبشی ؓ ، حضرت مہجع ( حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام )اور حضر ت لقمان۔( تفسیر ابن کثیر:11/52قاہرہ)
قرآن میں ذکر کردہ نصیحتیں:
اللہ تعالی نے حضرت لقمان ؒ کو حکمت ودانائی کا وافر حصہ عطا کیا تھاوہ اپنے حکیمانہ اقوال اورنصائح کے ذریعہ ایک امت کو سیراب کرتے رہے ،ان کی قیمتی اور اثر انگیز نصیحتوں کو اللہ نے قرآن کریم میں بھی ذکر فرمایا ،جو انہوں نے اپنے بیٹے کو خطاب کرتے ہوئے کیں ،اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اس لئے ذکر فرمایا کہ قیامت تک آنے والے انسان اس سے سبق حاصل کریں اور ان نصیحتوں کو سامنے رکھ کر اپنے آپ کو بہتر سے بہتر بنانے کی فکر کریں ۔قرآن کریم میں مذکور چند نصیحتوں کو یہاں پر مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔
شرک سے بچنے کی نصیحت :
حضرت لقمان ؒ نے اپنے بیٹے کو شرک سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:یَابُنَیَّ لَاتُشْرِ کْ بِاللّہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ۔( لقمان:۱۳)اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا ،یقینا شرک بڑا ظلم ہے ۔پہلی نصیحت حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو عقیدہ کی درستگی کی فرمائی کہ جس پر دنیا وآخرت کی کامیابی منحصر ہے ،اگر توحید ہی متزلزل رہے گی تو پھر دوجہاں میں خسارہ اٹھانا پڑے گا۔شرک یہ اس کائنات میں سب سے بڑا اور سنگین گناہ ہے جس کی معافی نا ممکن ہے ۔اسی لئے ایک مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:اِنَّ اللّہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَائُ وَمَنْ یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً بَعِیْدًا۔( النساء :۱۱۶)’’ بے شک اللہ تعالی اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قراردیا جائے اور اس کے سوا جتنے گناہ ہیں جس کے لئے منظور ہوگا وہ گناہ بخشش دیں گے اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘
اللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں :
حضرت لقمان ؒ نے اپنے بیٹے کو دوسری نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:یَابُنَیَّ اِنَّھَا اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاتِ بِھَا اللّہُ ۔( لقمان :۱۶)’’اے بیٹے!اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو پھر وہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں اللہ اس کو حاضر کردے گا‘‘یعنی اس کائنات کی کوئی چیز اللہ تعالی سے چھپی ہوئی نہیں ہے ،انسان جو کچھ کرتا ہے اللہ تعالی اس سے باخبر ہے ،لہذا انسان کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر میں کوئی غلط کام کروں تو چاہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے لیکن اللہ تعالی کو اس کا برابر علم ہے اور وہ ایک دن اس کو اس کے سامنے ظاہر کردے گا۔قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا گیا: اَنَّ اللّہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ء ٍعِلْمًا۔( الطلاق: ۱۲) ’’اللہ تعالی ہر چیز کو اپنے احاطہ ٔ علمی میں لئے ہوئے ہے ۔اور ایک مقام پر فرمایا: وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْ ئٍ عَدَدًا۔(الجن :۲۸) ’’اور اللہ تعالی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر چیز کی گنتی معلوم ہے۔حضرت لقمان ؒ نے نہایت اہم نصیحت فرمائی کہ جس کے نتیجہ میں گناہ سے بچنا اور نافرمانی سے محفوظ رہنا انسان کے لئے آسان ہوتا ہے۔
نماز قائم کرنا:
تیسری نصیحت حضرت لقمان ؒ نے یہ فرمائی کہ:یَابُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ۔( لقمان:۱۷)’’اے بیٹے! نماز قائم کرو۔‘‘ایمان اور توحید کے بعد نماز قائم کرنا اسلام کا بنیادی رکن اور عظیم فریضہ ہے ،اگر نماز قائم کرنے والا بن جائے تو پھر دیگر عبادتوں کی انجام دہی بھی آسان ہوجائے گی ،اس لئے حضرت لقمان ؒ نے اس بنیادی عبادت کی طرف متوجہ کیا۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے : قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں حساب پوچھا جائے گا، اگر نماز اچھی رہی تو باقی اعمال بھی اچھے ہوں گے اور اگر نماز خراب ہوئی تو باقی اعمال بھی خراب ہوں گے۔( طبرانی:حدیث نمبر؛۱۸۹۸)
معاشرہ کی اصلاح کی فکر:
چوتھی نصیحت حضرت لقمان نے یہ فرمائی :وَامُرْبِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِوَاصْبِرْ عَلٰی مَا اَصَابَکَ ۔( لقمان:۱۷)’’ اچھائیوں کا حکم کرو اور برائیوں سے روکو،اور جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے ان پر صبر کرو۔‘‘اس نصیحت میں حضرت لقمان ؒ نے اپنے بیٹے کو اس حقیقت سے آگا ہ کیا کہ خود تنہا اپنے آپ کا نیک ہوجانا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں کو بھی نیک بنانے ،اچھائیوں کی تعلیم دینے اور برائیوں سے بچانے کی فکر بھی کرنا چاہیے ،اور’’ امربالمعروف ،نہی عن المنکر‘‘ اس امت کا امتیازی کا م ہے ،لہذا اس کے نتیجہ میں ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ تیار ہوگا ،جس میں دینی تعلیمات کا اثر ہوگا اور برائیو ں سے دور رہنے کاشوق ہوگا۔
اچھے اخلاق کو اختیار کرو:
پانچویں نصیحت یہ فرمائی:وَلَاتُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَاتَمْشِ فِی اْلاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّہَ لَایُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍوَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اِنَّ اَنْکَرَ اْلاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۔( لقمان:۱۸،۱۹)’’اورلوگوں کے سامنے( غرورسے ) اپنے گال مت پھلاؤ،اور زمین پر اتراتے ہوئے مت چلو،یقین جانو اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا ۔اور اپنی چال میں اعتدال اختیا ر کرو ،اور اپنی آوازآہستہ رکھو،بے شک سب سے بُری آواز گدھوں کی آواز ہے۔‘‘اس نصیحت میں حضرت لقمان ؒ نے اپنے بیٹے کو حسن ِ اخلا ق کا ایک نصاب عطا کیا کہ جن چیزوں کو اختیار کرنا انسان کے لئے بہترہے اور کون سی چیزیں اس کے مناسب نہیں ۔اگر انسان ان صفات کو اپنائے تو یقینا وہ ایک بااخلاق انسان بن کر دنیا میں اپنی مثال قائم کرسکے گا اور لوگ اچھے اخلاق والوں کی قدر کرتے ہیں اور ان سے محبت کا معاملہ کرتے ہیں۔
خلاصہ:ؤحضرت لقمان ؒ نے دین اسلام کے خلاصہ کو اپنے جامع نصائح میں بہت اختصار کے ساتھ ذکر فرمادیا ،ایمان ،عقائد ،عبادات ،معاشرت،اخلاقیات ان تما م کا آپ نے اپنی نصیحتوں میں احاطہ کیا ہے۔ علماء کرام اور مفسرین نے آپ سے منقول اور بھی بہت سی نصیحتوں کو کتابوں میں بیان کیا ہے یہاں ان ہی چند نصیحتوں کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×