ماہ محرم الحرام کی فضیلت ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں
اسلامی سال نو کا آغاز ماہ محرم الحرام کے ذریعہ سے ہوتا ہے، محرم کے لغوی عظمت والا، لائق احترام، حرام کردہ کے آتے ہیں ،اللہ تعالی کی تخلیق کردہ کائنات کے حسن کا راز یہ ہے کہ تمام اشیاء رنگ و بو کے اعتبار سے نفع و نقصان کے لحاظ سے صورت و شکل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، جنس کے اتحاد کے باوجود اسی اختلاف میں ان کا جمال اور ان کی نافعیت اور جامعیت پہناںہے، آفتاب میں جو تیزی اور حدت ہے وہ ماہتا ب میں نہیں پائی جاتی، ستاروں میں جو جمال نظر آتا ہے دوسرے سیاروں میں وہ تابناکی نہیں ہیں اور مرتبہ و مقام کے لحاظ سے سے بھی تمام خطوں میں یکسانیت نہیں ہے ،جو مقام و مرتبہ مسجد کے حصے کو حاصل ہے عام جگہ اس سے محروم ہیں، حرمین شریفین کو جو امتیازی حیثیت حاصل ہے وہ دوسرے علاقے کا مقدر نہیں،ـ ٹھیک اسی طرح رب کائنات نے زمانوں اور لمحات میں بھی انفرادی شان رکھی ہے، ایک کو دوسرے پر فوقیت عطا کی ہے اور مرتبے کے اعتبار سے اور برکتوں اور سعادتوں کی دولت کے لحاظ سے، کچھ ایام کو دوسرے ایام پر، کچھ مہینوں کو دوسرے مہینوں پر فضیلت اور امتیازی مقام اور انفرادی شان حاصل ہے ،چنانچہ سال کے بارہ مہینوں میں چار مہینے ذو القعدہ، ذو الحجہ محرم اور رجب اپنی ذات کے اعتبار سے دوسرے مہینوں پر فضیلت اور حیثیت رکھتے ہیں، اللہ تعالی کی رحمت ان ایام میں جوش میں ہوتی ہے، ان لمحات میں برکتوں کی بارش میں موسلادھار ہوجاتی ہے، توبہ کے دروازے کھل جاتے ہیں، مغفرت کی گھٹائیں ہرسو چھا جاتی ہیں۔
محرم کی فضیلت قرآن کریم کی روشنی میں
محرم ان چار مہینوں میں سے ہے جس کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کیا ہے ،’’ ان عدہ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السماوات والارض منہا اربعۃ حرم‘‘(توبہ: ۳۶) بے شک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں ،یہی درست دین ہے، پس تم ان میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، چار مہینے محرم رجب ذوالقعدہ ذوالحجہ ہے،تفسیر جامع البیان میں ہے :’’فان الظلم فیہا اعظم وزرا فیما سواہ والطاعۃأ عظم اجرا‘‘ (یعنی ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں عبادت کا بہت اجر و ثواب ہے )قرآن کریم میں دوسری جگہ ’’ولاالشھر الحرام‘‘( المائدہ:۲) (محترم مہینہ ماہ محرم کو حلال نہ سمجھو)
محرم کی فضیلت احادیث کی روشنی میں :
اسلام کی آمد کے بعد بھی اس ماہ کی حرمت و عظمت کو اس کے سابقہ حالت میں برقرار رکھا گیا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے باقیات میں سے تھے جس کو لوگ اپناتے آ رہے تھے ،چنانچہ حدیث میں اس ماہ کو’’ شھر اللہ‘‘( اللہ کا مہینہ )( مسلم۔باب فضل صوم المحرم، حدیث :۲۸۱۳) قرار دیا گیا ہے، امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ: اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ محرم کو اللہ عزوجل کا مہینہ قرار دیا ہیـ جو اس کی عظمت اور تقدس کو بتلانے کے لئے کافی ہے ؛چونکہ اللہ عزوجل اپنی نسبت صرف اپنے خصوصی مخلوقات کے ساتھ ہی فرماتے ہیں (شرح النووی علی مسلم:۸؍۵۵)
ماہ محرم الحرام سے اسلامی سال نو کا آغاز:
ماہِ محرم الحرام سے اسلامی سال نو کی ابتدا ہوتی ہے، زمانے جاہلیت میں لوگ اپنے فوائد منافع کی خاطر مہینوں کو آگے پیچھے کیا کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج الوداع کے موقع سے یہ اعلان کر دیا کہ اللہ عزوجل نے جب سے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا ہے اسی دن سے اس نے مہینوں کی ترتیب و تنظیم قائم کر دی ، چنانچہ آیت ہے:’’ بے شک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا‘‘ (التوبہ: ۳۶) اسلامی تاریخ جس کو ہجری تاریخ کہا جاتا ہے، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور یہ تاریخ حضرات صحابہ کرام کے مشورے سے طے پائی تھی، چنانچہ علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں کہ صحیح اور مشہور یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی، اس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے موصول ہوتے ہیں؛ مگر اس پر تاریخ لکھی نہیں ہوتی ہے ، یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ خط کب کا لکھا ہوا ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا، بعض حضرات نے مشورہ دیا کہ نبوت کے سال سے تاریخ لکھی جائے، بعض نے سال ہجرت کا اور بعض نے وفات کے سال کا مشورہ دیا ؛مگر اکثر کی رائے یہ تھی ہجرت سے ہی اسلامی تاریخ کی ابتداء ہو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی پر فیصلہ دیا( الکامل فی التاریخ : ۱؍۹، دارالکتاب العربی )کیوں کہ ہجرت نے ہی حق اور باطل کے درمیان حد فاصل کا کام کیا، بعض روایتوں میں ہے کہ پھر ان لوگوں نے کہا کہ کس مہینے سے ابتدا ہو تو بعض نے کہا: رمضان سے، بعض نے محرم سے؛ کیونکہ لوگ اس مہینے میں حج سے واپس ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ یہ محترم اور معزز مہینہ ہیے (الکامل فی التاریخ: ۱؍۱۰)
اس کے علاوہ ماہ محرم سے سال کی ابتدا کی وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا جو عزم و ارادہ فرمایا تھا وہ محرم میں ہی فرمایا تھا، البتہ ہجرت عملی طور پر ماہ ربیع الاول میں ہوئی ( فتح الباری: ۷؍۲۶) بڑا افسوس ہوتا ہے کہ قمری ماہ و سال اور تاریخ جس پر ہماری ساری عبادتیں اور ہماری عیدیں اور خصوصی فضیلت کے حامل ایام موقوف ہیں مثلا رمضان ،عید ، حج کے ایام، محرم، شب برات کے روزے ،عشرہ ذی الحجہ کے اعمال یہ سارے کے سارے امور قمری تاریخ سے متعلق ہیں، آج ہم نے قمری تاریخ کو بالکل فراموش کر دیا ہے، شمسی تاریخ سے اپنے امور میں مدد ضرور لیجئے ، لیکن قمری تاریخ سے بے اعتنائی یہ ہماری غیرت قومی اور حمیت ایمانی اور ملی دیوالیہ پن ہے۔
ماہ محرم کے روزے احادیث کی روشنی میں:
ماہ محرم کے روزوں کی فضیلت وارد ہوئی ہے تمام ہی مہینے کے روزوں کی بابت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے چنانچہ ایک حدیث مبارک میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ : سب سے زیادہ فضیلت والے روزے رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے مہینہ محرم الحرام کے روزے ہیں( مسلم شریف ، باب فضل صوم المحرم، حدیث۲۸۱۳) نعمان بن سعد، علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے علاوہ کون سے مہینے کے روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں، حضرت علی نے فرمایا: میں نے صرف ایک آدمی کے علاوہ کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے نہیں سنا، میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا ،اس نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا :اگر رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہے تو محرم کے روزے رکھا کرو ؛کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اس دن دوسری قوم کی بھی توبہ قبول کرے گا ۔(ترمذی: صوم المحرم ، حدیث:۷۴۱)مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ہے کہ : علامہ سندھی کہتے ہیں کہ اس حدیث میںمکمل مہینہ کے روزوں کے استحباب کو بتلانا ہے۔ اس لئے اس مہینہ میں روزہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے ۔(مرعاۃ المفاتیح، ۷؍۴۳،الجامعۃ السلفیۃ بنارس)
یوم عاشورہ کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کو ’’عاشورہ ‘‘ کہتے ہیں ، ’’عاشورہ‘‘ یہ عشر سے ماخوذ ہے ، اس سے مراد محرم الحرام کی دسویں تاریخ ہے ۔بطور مبالغہ کے’’ عاشورہ‘‘’’ فاعولا‘‘ کے وزن پر استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ یوم عاشورہ سے انبیاء کے خصوصی وابستگی اور ان کی حیات سے متعلق اہم واقعات کا اس روز میں پیش آنا ،یوم عاشورہ کی فضیلت کی بین دلیل ہے ۔چنانچہ صاحب عمدۃ القاری یوم عاشورہ سے متعلق وقائع کا تذکرہ کرشتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:عاشورہ کے دنيحضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی،اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے۔اور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی،اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی بھی جبل جودی پر آٹھہری، اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ، اسی دن نمرود کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالے گئے،اسی دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہوگیا۔حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی بیماری سے شفاء نصیب ہوئی، حضرت ادریس علیہ السلام کو اسی دن آسمانوں کی جانب اٹھالیا گیا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک کی عظیم بادشاہت نصیب ہوئی۔حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی، اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے نکالے گئے ، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ نکالاگیا، حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت اسی دن ہوئی اور اسی دن آسمانوں کے جانب اٹھا لئے گئے ۔( عمدۃ القاری شرح البخاری، باب صیام یوم عاشوراء :۷؍۸۹)یہ بے شمار فضائل یوم عاشورہ سے متعلق ہیں ، جس سے یوم عاشورہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
عاشورہ کا روزہ احادیث کی روشنی میں
عاشورہ کے روزے بے انتہا فضیلت کے حامل ہیں ،چنانچہ ابو قتادہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یوم عاشورہ کے روزے کے تعلق سے امید کرتا ہوں کہ وہ پچھلی سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائیں گے (ترمذی: الحث علی صوم یوم عاشوراء، حدیث:۷۵۲)اور ایک روایت میں عاشورہ کے روزہ کی فضیلت یوں بیان کی گئی :حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دن روزہ کا ارادہ کرتے ہوں اور اس دن کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں۔ مگر اس دن یعنی یوم عاشوراء کو اور اس مہینہ یعنی ماہ رمضان کو دوسرے دن اور دوسرے مہینہ پر فضیلت دیتے تھے۔(بخاری: باب صیام یوم عاشوراء،حدیث:۱۹۰۲)
عاشورہ کے روزہ احادیث کی روشنی میں
بنو اسرائیل فرعون اور اس کے ظلم وستم سے نجات کی خوشی میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے، حضرت موسی علیہ السلام کے دور سے ان کا یہ معمول تھا، جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تویہودیوں کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو اس روزہ کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتلایا کہ ہم موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے فرعون سے نجات کے شکرانے میں یہ روزہ رکھتے ہیں ،تو نبی کریم ﷺنے فرمایا : ہم موسی علیہ السلام کی موافقت کرنے کے زیادہ حق دار ہیں (مسلم : باب صوم یوم عاشوراء، حدیث: ۲۷۱۲)لیکن آپ ﷺ نے یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ رہے ؛ اس کے لئے فرمایا کہ دسویں محرم الحرام کے روزہ کے ساتھ نویں یا گیارہویں کا روزہ بھی ملالیا جائے ،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورا کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!یہ تو وہ دن ہے جو یہود و نصاری کے ہاں بڑا باعظمت ہے اور چونکہ یہود و نصاری کی مخالفت ہمارا شیوہ ہے؛ لہٰذا ہم روزہ رکھ کر اس دن کی عظمت کرنے میں یہود و نصاری کی موافقت کیسے کریں ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کو ضرور روزہ رکھوں گا۔(مسلم: باب أی یوم یصام ، حدیث:۱۱۳۴) اسی مشابہت سے بچنے کے لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ نے فرمایا: ’’نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو‘‘(ترمذی: عاشوراء أی یوم ھو،حدیث:۷۵۵)مسند البزار میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عاشوراء کے روزے کے تعلق سے فرمایا: یہ روزے رکھو، یہودیوں کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد بھی روزہ رکھو‘‘(مسند بزار، مسند ابن عباس، حدیث:۵۲۳۸)
محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ عاشورے کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے ؛مگر اس کے ساتھ ہی عاشورہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھنا مستحب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف عاشورا کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے ؛کیونکہ اس سے یہود کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔(مرقاۃ المفاتیح:باب صیام التطوع:۴؍۱۴۱۲)۔
عاشورہ کے روزہ کا استحباب احادیث کی روشنی میں
رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا فرض تھا؛ لیکن رمضان کی روزوں کی فرضیت نازل ہونے کے بعد محرم کے روزہ کو مستحب قرار دیا گیااوراس کی فرضیت منسوخ ہوگئی،عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزہ رکھتے تھے جب مدینہ آئے تو وہاں خود اس کا روزہ رکھا۔ اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے، تو عاشورہ کے دن روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔ جس کی خواہش ہوتی اس دن روزہ رکھتا اور جس کی خواہش نہ ہوتی اس دن روزہ نہ رکھتا۔(بخاری: سورۃ البقرۃ: حدیث:۴۲۳۴)۔بہرحال ان احادیث کی روشنی میں عاشورہ کے روزہ کی فضیلت اور اس کا مستحب ہونا اور رمضان کے روزوں کے بعد اس کی فرضیت کا منسوخ ہونامعلوم ہوا؛ لہٰذا اب دسویں محرم کا روزہ نویں یا گیارہوں کو ملاکر رکھنا مستحب ہے ۔
شہادتِ حسین :
گو شہادتِ حسین کا غمناک اور المناک واقعہ اسی ماہِ محرم میں پیش آیا، شہادتِ حسین بلا شبہ تاریخ اسلامی کا عظیم سانحہ ہے ، جو آج بھی اہل ایمان کے دلوں کو بے تاب کئے جاتاہے ، لیکن ماہ محرم کی فضیلت کو صرف شہادتِ حسین پر منحصر کرنا یہ صحیح نہیں ہے ، اسی مہینہ کی یکم تاریخ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقع ہوئی اور دیگر بڑے بڑے امور اس ماہ میں پیش آئے ، یہ سب چیزیں مجموعی طور پر اس ماہ کی فضیلت واہمیت کی وجہ بنتے ہیں۔
بہر حال یہ مہینہ نہایت فضیلت واہمیت کا حامل مہینہ ہے، بہت سے بڑے بڑے امور اس مہینہ میں پیش آئے ، انبیاء علیہم السلام کو بہت سارے امور میں فتح وکامرانی اسی میںنصیب ہوئی، حق واضح ہوا، باطل ناکام نامراد ہوا، حق کے خاطر ،حصول حق کے لئے جدوجہد ، محنت وجستجو بھی اس ماہ کا خاصہ ہے ، دین حق کے خاطر ظالم وجابر بادشاہ اور وقت کے حکمراں کے سامنے سینہ پر ہوجانا اور اپنی جان کی بازی لگادینا یہ اس ما ہ کا خصوصی سبق ہے ، صرف واقعہ شہادت پر غم وافسوس کا اظہار ہی واقعہ شہادتِ حسین کا حق ادا نہ کرسکا، جس احقاق اور ابطال باطل کے حضرت حسین نے اپنے پاکیزہ اور پاکباز خانوادہ کی جانوں کو میدان جنگ کے نذر کردیایہ صفت اور احقاقِ حق کا جذبہ ہمارے اندر پیدا ہوجائے یہ اس ماہ کا اصل سبق ہے ۔