اسلامیات

ماہِ محرم الحرام اور یومِ عاشورہ کی حقیقت

محرم الحرام اسلامی ہجری سال کا پہلا مہینہ ہے، جو عظمت وبرکت میں بہت ساری نوعیتوں سے دیگر مہینوں پر فوقیت وبرتری رکھتا ہے، ہجری کیلنڈر رسول اللہ ﷺ کی ہجرت سے منسوب ہے جب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو ہجری سال اس عظیم ہجرت کے ساتھ منسوب کر دیا گیا تاکہ رہتی دنیا میں یادگار بن کر رہے اسلامی ہجری سال محرم سے شروع ہوتا ہے اور ذی الحجہ پر ختم ہوتا ہے،
زمانہ جاہلیت سے ہی لوگ اس محرم الحرام کے عظمت واحترام میں قتل وقتال، جنگ وجدال، غارت گری ورہزنی اور لوٹ مار سے باز رہتے تھے اسلام نے اس ماہ کی عظمت ومرتبت کو جاری رکھا یہی وجہ ہے کہ محرم کے مہینہ کو محرم الحرام کہا جاتا ہے،

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے إِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثنَا عَشَرَ شَہراً فِی کِتَابِ اللّہِ یَومَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالارضَ مِنہَا اَربَعَة  حُرُم ذَلِکَ الدِّینُ القَیِّمُ فَلاَ تَظلِمُوا فِیہِنَّ اَنفُسَکُم۔ (سورة التوبة آیت 36 )

”مہینوں کی تعداد اللہ سبحانہ وتعالی کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہیں، اسی دن سے جب سے اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، ان میں چار مہینے ادب و احترام والے ہیں، یہی سیدھا و درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو“۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جن میں سے چار ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب قابل احترام اور حرمت والے مہینے ہیں۔

ان مہینوں کو حرمت والا اس ليے کہتے ہیں کہ ان میں لڑائیاں، ڈاکہ زنی اور امن و امان کی حالت خراب کرنے سے منع فرمایا گیا اور ہر ایسے کام سے جو فتنہ و فساد پیدا کرے، آپس میں لڑائی جھگڑا اور ظلم و زیادتی وغیرہ سے بھی منع کیا گیا ہے نافرمانی کے کام کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے،

یوں تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تیس دن اللہ تبارک وتعالی کے پیدا کئے ہوئے ہیں، لیکن اللہ عزوجل نے اپنے پورے سال کے بعض ایام کو خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے، اور ان ایام میں کچھ مخصوص احکام مقرر فرمائے ہیں، ان ہی مقدس ومبارک ایام میں سے محرم الحرام کا مہینہ بھی ہے جس میں ﷲ تبارک وتعالیٰ کی خصوصی توجہات ہیں، اس لئے اس ماہ میں جتنا ہوسکے عبادات کثرت سے کرنی چاہیے، جیسا کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے،

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ یوم عاشورہ یعنی دسویں محرم کا روزہ ہے۔

حضرت عباسؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم سب سے زیادہ اہتمام نفلی روزوں میں عاشورہ کے روزہ کا فرمایا کرتے تھے۔

حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ 10ھ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور صحابہؓ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ آئندہ سال میں اس دن کو پاﺅں گا تو نویں و دسویں محرم یا دسویں و گیارہویں محرم کو روزہ رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے روزے اور ہمارے روزوں میں امتیاز وفرق پیدا ہوسکے۔

حضرت عبدﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میرا جو امتی عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر رزق میں فراخی کرے گا تو ﷲ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں کثرت اور فراوانی عطا فرمائے گا۔ (مشکوة شریف)

اس ماہ مبارک میں جن امور کی ہدایات پیغمبر صلی ﷲ علیہ وسلم نے کی ہیں وہ دو چیزیں ہیں۔ ایک نویں دسویں یا دسویں گیارہویں محرم کا روزہ رکھا جائے، دوسرے دسویں محرم کو حسب استطاعت اہل و عیال پر کھانے پینے میں وسعت و فراخی کرنا چاہیئے، ان کے علاوہ جن بدعات و رسومات کا رواج ہمارے زمانے میں ہورہا ہے وہ سب قابلِ ترک ہیں اور موجبِ وبال ہیں۔

اس ماہ مبارک کی برکت و عظمت اور فضائل کا تقاضا یہ ہے کہ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول ہوکر انوارِ الٰہیہ حاصل کئے جائیں۔
ایک اور چیز جس کا رواج عام طور پر بہت زیادہ ہو چکا ہے کہ یہ مہینہ غم کا مہینہ سمجھا جانے لگا ہے، اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، شادی بیاہ نہیں کرنا چاہیئے، کچھ لوگ تو اس ماہ کو منحوس مہینہ سمجھتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس مہینے میں نواسۂ رسول حضرت حسین اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بے دردی سے شہید کر دیا گیا، ان کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے، سوچنا تو یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہنمائی ملتی ہے؟

اس بارے میں سب سے پہلے علامہ ابن کثیر کا ایک قول ملاحظہ کرتے ہیں : ہر مسلمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ غمگین کر دے، اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے سردار اور اہلِ علم صحابہ میں سے تھے۔ آپ جناب رسول اللہ کی سب سے افضل لختِ جگر کے بیٹے یعنی آپ کے نواسے تھے، آپ عبادت کرنے والے، بڑے بہادر اور بہت زیادہ سخی تھے۔ آپ کے والد (حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ) آپ سے زیادہ افضل تھے، اُن کو چالیس ہجری سترہ رمضان جمعہ کے دن جب کہ وہ اپنے گھر سے نمازِ فجر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے‘ شہید کر دیا گیا، اسی طرح حضرت عثمان غنی اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے افضل ہیں، جنہیں چھیالیس ہجری عید الاضحی کے بعد انہی کے گھر میں شہید کر دیا گیا، لیکن لوگوں نے ان کے قتل کے دن کو بھی اس طرح ماتم نہیں کیا، اسی طرح حضرت عمر بن خطاب ان دونوں حضرات (حضرت عثمان اور حضرت علی) سے افضل ہیں، جن کو مسجد کے محراب میں نماز کی حالت میں جب کہ وہ قراء ت کر رہے تھے‘ شہید کر دیا گیا، لیکن ان کے قتل کے دن بھی اس طرح ماتم نہیں کیا جاتا، اور جناب نبی اکرم جو دنیا وآخرت میں بنی آدم کے سردار ہیں، ان کی وفات کے دن کو بھی کسی نے ماتم کا دن قرار نہیں دیا۔‘‘ اس قول کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سمجھنا چاہیے کہ ’’شہادت ‘‘کا مرتبہ خوشی کا ہے یا غم اور سوگ کا ؟

تعلیماتِ نبویہ سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہا سعادت کی بات ہے: حضرت فاروقِ اعظم کا شوقِ شہادت  یہی وجہ تھی حضرت عمر فاروق مستقل حصولِ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے۔(صحیح البخاری)

حضرت خالد بن ولید کا شوقِ شہادت حضرت خالد بن ولید جنہیں بارگاہِ رسالت سے سیف اللہ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف رہے، لیکن اللہ کی شان انہیں شہادت نہ مل سکی، تو جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں۔
اسی طرح حضور اکرم ﷺ کو بھی شہادت کا شوق تھا اور امت کو بھی اسکی ترغیب دی،

معلوم ہوا کہ شہادت ایسی چیز نہیں کہ اس پر رنج و غم کا اظہار کیا جائے یا ماتم اور تعزیہ کیا جائے، تاریخ اسلام میں بڑے بڑے انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام اور اولیاء عظام کی بھی شہادتیں ہوئی ہیں، پس اگر شہیدوں کے ماتم کی اجازت ہوتی تو سال بھر کے دنوں میں کوئی دن ماتم سے خالی نہ جاتا،

الغرض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شہادت ایسی نعمت ہے جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی ہے یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس پر افسوس اور غم منایا جائے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ماہ محرم میں منکرات ورسومات اور خرافات وبدعات سے مکمل طور پر بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور عبادت وبندگی کرکے رب کائنات کو راضی کرنے کی توفیق بخشے اور افراط وتفریط سے بچتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رکھے۔ آمین یا رب العالمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×