سیاسی و سماجی
پُرسکون خانگی زندگی کے بنیادی اصول
سکون واطمینان زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے ، اگر آدمی کسی بھی وجہ سے ٹینشن میں ہے، تو اس کی جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے اور کام کرنے کی صلاحیتوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ نے بیوی کو پر سکون زندگی کا مرکز ومحور قرار دیا ہے، قرآن کریم میں بیوی کی تخلیق کو اللہ کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور اس کے بنیادی مقاصد میں محبت والفت کا ذکر ہے ،ا س لیے اچھے خاندان اچھے گھر کی خصوصیت اس کا ٹینشن فری زون ہونا ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ ہمارے گھروں سے یہ خصوصیت نکل گئی ہے، کسی نہ کسی وجہ سے گھروں میں میاں بیوی، ساس بہو ، دیور، نند ، بھائی بہن کے جھگڑے عام ہیں، جس کی وجہ سے گھر کا چین وسکون رخصت ہو گیا ہے اور خانگی زندگی در ہم برہم ہو کر رہ گئی ہے، تحمل وبرداشت کا مزاج ختم ہو گیا ہے، جھگڑے بڑھتے رہتے ہیں، کبھی تو یہ طلاق پر ختم ہوتے ہیں اور کبھی دنیاوی عدالت میں حاضر ہو تے ہوتے عمر تمام ہوجاتی ہے، نتیجہ ہر دو کا، تباہی وبربادی ہی ہے۔
گھر کو پُر سکون کیسے بنایا جائے؛ یہ ایک سوال ہے جو ہر آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ گھر کے ہر فرد کے حقوق کی رعایت اور ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی ، رواداری، اور محبت کے اظہار سے گھر کو جنت نشاں بنایا جا سکتا ہے، لیکن یہ کسی ایک کے کرنے سے نہیں ہوگا، سب کا مزاج اسی انداز کا ہو اور افراد کی تربیت اسی نہج سے کی گئی ہو تو یہ ماحول بنانا چنداں مشکل نہیں ہے۔
گھریلو زندگی کا خاص محور بیوی ہوتی ہے، اس کی قربانی اس اعتبار سے بڑی مثالی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے لیے والدین ، بھائی ، بہن ، گھر ، در ، گاؤں اور عام حالات میں علاقہ تک چھوڑ کر سسرال آجاتی ہے، جہاں اصلاً شوہر کے علاوہ اس کا کسی سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا ، سارے رشتے شوہر کے واسطے سے بنتے ہیں، شوہر کے والدین اس کے ماں باپ بن جاتے ہیں، شوہر کے بھائی بہن کہنے کے لیے دیور نند ہوتی ہیں؛ لیکن اصلا وہ بھی خاندان میں بھائی بہن کی طرح ہوتے ہیں، اب اگر عورت کو شوہر ہی کی جانب سے لعن ، طعن کا سامنا ہو اور اسی کا رویہ غیر مناسب ہو ، تو وہ بھلا کس کے بل بوتے زندگی گذارے گی ، وہ اپنا سب کچھ تو اس کے لیے چھوڑ آئی تھی،لیکن جس کے لیے چھوڑ آئی تھی وہی اسے ستاتا ہے، مارتا ہے، گالیاں دیتا ہے، نوکرانی کی طرح کام لیتا ہے، اس کی آرام وآسائش کی اسے پرواہ نہیں ہے تو وہ بھلا کس طرح پر سکون رہے گی، اور جب اس کے ذہن ودماغ میں آندھیاں چلیں گی تو یہ آندھی کسی بھی چیز کو اپنی جگہ پر نہیں رہنے دیگی ، اب یہ طوفان پاگل آندھی کی طرح بند دروازوں کو بھی توڑ کر رکھ دیگا ، اس اتھل پتھل میں ساری زندگی بے سکونی کا شکار ہو گی اور خاندان تباہ وبربادہو جائے گا۔
اس لیے اگر پر سکون زندگی گذارنی ہے تو بیوی کی نفسیات کی رعایت انتہائی ضروری ہے ، اس رعایت کے لیے کبھی تو محبت کے دو بول کافی ہوتے ہیں، کبھی چھوٹی موٹی ضرورتوں کی تکمیل کرکے یہ کام نکل جاتا ہے ، کچھ لوگ گھروں میں سخت مزاج بن جاتے ہیں اور باہر میں ان کی خوش مزاجی کے چرچے ہوتے ہیں، گھر میں بھی خوش مزاج ہونا چاہیے، سخت مزاجی سے کام بگڑ جاتا ہے، خوش مزاجی میں محبت کا اظہار بھی ہے، کچھ لوگ اسے ’’چونچلے‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، خوش مزاجی چونچلا نہیں ہے، یہ اپنے خوش رہنے کے ساتھ دوسروں کو خوش رکھنے کا مؤثر ذریعہ ہے، رشتے جامد نہیں ہوتے ، مختلف موقعوں سے مختلف انداز میں اس رشتے کے تقاضوں کا اظہار ہونا چاہیے،ا س خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ محبت کو بیوی خود سمجھ لے گی ، اظہار محبت کی کیا ضرورت ہے، اس اظہار میں کمی اور کنجوسی بھی رشتوں کو بے رس اور سپاٹ بنا دیتی ہے، اور زندگی بے کیف ہو کر رہ جاتی ہے، سخت مزاجی اور ضرورت سے زیادہ احتیاط بھی عورتوں کے لیے کوفت کا سبب ہوتا ہے، ذہنی سکون کے لیے سخت مزاجی اور نرم دلی میں اعتدال کی ضرورت ہوتی ہے، یہ اعتدال اور توازن کھوگیا تو زندگی غیر متوازن ہوجاتی ہے او رعورتیں اس بے اعتدالی کا فائدہ اٹھا کر بھی گھر کو جہنم زار بنا سکتی ہیں، حالاں کہ عورتیں مردوں سے کچھ بے جا تو قعات نہیں رکھتیں وہ وہی سب پسند کرتی ہیں، جو مرد اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتا ہے، وہ عزت نفس ، محبت بھری باتیں، صاف ستھرا لباس اور خوش بو کو پسند کرتا ہے، بیوی بھی انہیں اوصاف کو اپنے شوہر میں دیکھنا چاہتی ہے، مردوں کی کمی یہ ہے کہ وہ بیوی سے ان چیزوں کی طلب رکھتا ہے اور خود ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتا ، مردوں کا گھریلو معاملات میں بے جا دخل اندازی بھی گھر کے نظام کو خراب کرتا ہے، بعض مرد کیا پکے گا اس میں بھی اپنی ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں، کبھی کبھی اپنی خواہش کے اظہار میں مضائقہ نہیں، لیکن ہر وقت اسی کی مرضی کی ڈش تیار ہو اس پر اصرار قطعا صحیح نہیں ہے، عورت گھر کی ملکہ ہے اور وہ اپنے حدود مملکت میں کسی کی بے جا دخل اندازی پسند نہیں کرتی، خواہ وہ اس کا شوہر ہی کیوں نہ ہو ، گھر کو پر سکون رکھنے کے لیے بیوی کے میکے والے کی رعایت ان کے والدین بھائی بہنوں کا اکرام واحترام ان کی ضیافت ودعوت بھی اکسیر کا درجہ رکھتی ہے، یہ اکرام ضیوف کے نبوی فرمان کی تکمیل بھی ہے اور بیوی کی دلجوئی ، دلداری کا بڑا ذریعہ بھی ، اس کے بر عکس بیوی کے والدین کی برائی اور انہیں گالیاں دینا خاندان کے ٹوٹنے کا باعث ہوجاتا ہے ۔ بیوی کی جانب سے شوہر کے والدین اور عزیزواقربا کے ساتھ حسن سلوک اس ماحول کو پروان چڑھانے اور بر قرار رکھنے میں انتہائی معاون ہوتا ہے۔بہت سارے لوگ عورتوں کی بد مزاجی کے لیے اس کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہونے کی بات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، حالانکہ یہ تو اس کا حسن ہے، بائیں پسلی کے اوپر دل ہوتا ہے چنانچہ اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ دل کے قریب رہنے والی چیز ہے، رہ گئی بات ٹیڑھے پن کی تو بھنووں کو اگر سیدھا کر دیا جائے تو اس کا حسن جاتا رہے گا ، اسی طرح عورتوں کا ٹیڑھا پن ختم ہو جائے تو زندگی سپاٹ ہو کر رہ جائے گی، اس لیے ٹیڑھے پن کو معیوب نہیں سمجھنا چاہیے ، اسی طرح شوہر کی نا قدری اور نا شکری بھی عورتوں کے مزاج کا حصہ ہے، لیکن اس سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے؛ کیوں کہ اس چھوٹے سے عیب کے ساتھ ان کے اندر بہت ساری خوبیاں بھی تو ہیں، ایک عیب کے پیچھے پڑ کر ان کی خوبیوں کو نظر انداز کر دینا عقل مندی نہیں ہے، محبت سارے اوصاف کے ساتھ کی جاتی ہے ، ایسا نہ ہو کہ اس کی کمی کوتاہی کی وجہ سے اس کی خوبیاں نظروں سے اوجھل ہوجائیں، عورتوں پر ہر ماہ ایسی حالت طاری ہوتی ہے ، جس سے وہ کمزور ہوجاتی ہے ،اس پر جھنجھلاہٹ طاری ہوتی ہے ،کمزوری کے ان ایام میں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک جاری رکھنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے تو کمزوری کا اتنا خیال رکھا کہ نمازیں معاف کر دیں اور روزے مؤخر کر دیئے کیا ہم ان پر سے کام کا بوجھ ان ایام میں ہلکا نہیں کر سکتے ، خوب یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں کو شوہروں کی نگرانی میں دیا ہے ، ان کی جائز خواہشوں کی تکمیل حسب استطاعت ضروری ہے ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ امہات المؤمنین کے ساتھ ہمارے سامنے ہے، اس میں دو بار حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ بھی شامل ہے، پُر سکون رہنا چاہتے ہیں تو اس اسوہ کو اپنا ئیے۔کیوں کہ یہ پر سکون خانگی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔