عشرۂ ذی الحجہ فضائل و اعمال
﴿ فضائل ﴾
” ماہِ ذی الحجہ ” ہجری کیلنڈر کا سب سے آخری مہینہ ہے، جو رمضان المبارک کے بعد سب سے مہتم بالشان مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔ ماہِ ذی الحجہ میں سب سے زیادہ اہمیت اس کے ابتدائی دس دنوں کی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے ” وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ ” ( سورۃ الفجر، آیت ۱-۲ ) ” قسم ہے فجر اور دس راتوں کی ” مشہور مفسر قرآن حضرت امام بغویؒ اپنی تفسیر معالم التنزیل میں حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں کہ ( ولیال عشر ) سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ” وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ ” ( سورۂ حج، آیت ۲۸ ) ” اور معلوم ایام میں اللہ کا نام یاد کریں "۔ امام بخاریؒ نے بحوالہ عبد اللہ ابن عباسؓ نقل فرمایا ہے کہ ان معلوم دنوں سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ ( صحیح بخاری، کتاب العیدین )
سرور کونین ﷺ کا فرمان ہے: ” ما من ایام العمل الصالح فیھن احب الی اللہ من ھذہ الایام العشر، فقالوا یا رسول اللہ! ولا الجھاد فی سبیل اللہ؟ قال: ولا الجھاد فی سبیل اللہ الا رجل خرج بنفسہ و مالہ فلم یرجع من ذلک بشئ ” ترجمہ: ذی الحجہ کے ان دس دنوں سے بہتر ایسا کوئی دن نہیں جس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک محبوب ہو، صحابہؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ راہِ خدا میں جہاد کیلئے نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے یعنی اپنی جان و مال اسی راہ میں قربان کردے۔ ( سنن ابی داوٗد )
﴿ اعمال ﴾
۱) بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم: عشرۂ ذی الحجہ کی آمد پر سب سے پہلا حکم جو عائد ہوتا ہے وہ بال اور ناخن کے نہ کاٹنے کا ہے۔ان لوگوں کیلئے جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔( مسلم ) یہ حکم مستحب ہے۔ نیز بال اور ناخن نہ کاٹنے کی حکمت حجاج کرام کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہے کیونکہوہ بھی بحالت احرام یہ کام نہیں کرتے۔
۲) عشرۂ ذی الحجہ کے روزے: رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: تمام دنوں میں کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب نہیں جتنا ذو الحجہ کے عشرہ میں محبوب ہے، اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے، اور اس کی ہر رات کی نوافل شبِ قدر کے نوافل کے برابر ہے۔ ( ترمذی و ابن ماجہ ) ان دس ایام میں کوئی بھی عملِ صالح معمول سے زیادہ اجر و ثواب رکھتا ہے، اور روزہ تو بذاتِ خود ایک عظیم الشان عمل ہے اس لئیے ان ایام میں روزہ رکھنا عظیم سعادت اور ثواب کا ذریعہ ہے۔ مزید برآں یہ کہ خود نبئ اکرم ﷺ کا ذی الحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روزہ رکھنا ثابت ہے۔
۳) یومِ عرفہ کی اہمیت اور اس کا روزہ: نویں ذی الحجہ یعنی عرفہ کے دن کے روزے کی خاص فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ سے عرفہ کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ ( کے صغیرہ گناہوں ) کا کفارہ کردیتا ہے۔ ( مسلم )
عشرۂ ذی الحجہ میں نویں ذی الحجہ ہی تک روزے رکھے جاسکتے ہیں۔ دس ذی الحجہ کو عید ہوتی ہے جس میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، اسی طرح عید الاضحی کے بعد ۱۳،۱۲،۱۱ ذی الحجہ جو ایام تشریق کہلاتے ہیں اس میں بھی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ نیز صومِ عرفہ انہیں لوگوں کیلئے مشروع ہے جو حج ادا نہ کررہے ہوں، اور جو لوگ حج ادا کررہے ہیں ان کیلئے یہ روزہ مشروع نہیں ہے۔
۴) تکبیرِ تشریق: عشرۂ ذی الحجہ میں تکبیر و تہلیل اور تسبیح کا اہتمام کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، بطور خاص ایام تشریق میں تکبیراتِ تشریق کے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تکبیر تشریق ۹/ ذی الحجہ کی فجر سے ۱۳/ ذی الحجہ کی عصر تک ہر مرد و عورت، امام، مقتدی اور منفرد پر ہر فرض نماز کے فورا بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے۔البتہ عورت آہستہ آواز سے پڑھے۔ نیز جس شخص کی باجماعت نماز میں کچھ رکعتیں رہ گئی ہوں تو وہ اپنی باقی ماندہ رکعتوں کو پوری کرکے سلام پھیرنے کے بعد تکبیر تشریق پڑھے۔
تکبیرات تشریق یہ ہیں: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد!
۵) قربانی: ماہِ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو عید الاضحی منائی جاتی ہے۔ ہر صاحبِ حیثیت اور مالکِ نصاب پر ایامِ قربانی میں اپنی جانب سے قربانی دینا واجب ہے۔
﴿پیغام﴾
عشرۂ ذی الحجہ کی اہمیت و فضیلت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی تعظیم و تکریم کرنا چاہئیے، عبادات وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہئے، بالخصوص موجودہ حالات کے پیش نظر رب ذوالجلال، غفار و غفور کی بارگاہ میں اپنے جرائم و معاصی پر خوب ندامت کے آنسوں بہانا چاہئے، اور ہر مرض سے خاص طور پر کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری سے حفاظت کی ساری انسانیت کے حق میں دعاؤں کا التزام بھی ضروری ہے۔
اللہ رب العزت عمل کی توفیق بخشے آمین۔