اسلامیات

ماہِ محرم الحرام فضائل، اعمال، اور بدعات

﴿ فضائل ﴾
چاند کی سالانہ گردش ایک بار پھر اپنا دور مکمل کر چکی ہے اور اسلامی سال ( 1441 ) ختم ہوکر اسلامی سالِ نو ( 1442 ) کا ماہِ اوّل محرم الحرام شروع ہوچکا ہے۔ یہ مہینہ اپنے خصوصیات و امتیازات کی وجہ سے دیگر مہینوں سے علحدہ شناخت رکھتا ہے۔ اس ماہِ حرام کی حرمت و تعظیم زمانۂ جاہلیت سے چلی آرہی ہے، کفار و مشرکین اس ماہ مقدس میں اپنی لڑائیاں موقوف کردیا کرتے تھے، اور جنگ و جدال سے باز آجاتے تھے۔ گویا محرم کا یہ مہینہ نہ صرف اسلام میں عظمت و احترام کا حامل ہے بلک اس کا تقدس و احترام اور اس کی قدر و عظمت زمانۂ جاہلیت سے چلی آرہی ہے۔
اللہ عز و جل نے قرآن مجید میں اس ماہ کی عظمت و حرمت کا اعلان فرمایا ہے ارشادِ باری ہے: ” بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جس دن سے اللہ نے آسمان و زمین پیدا کیا ان میں سے چار عزت والے ( مہینے ) ہیں۔ ( سورۃ التوبہ: ۳۶ ) جو ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب ہیں جس کا تذکرہ حدیث میں آیا ہے ( صحیح بخاری، ح: ۳۱۹۷ )۔
ماہِ محرم کی عظمت و حرمت کیلئے یہی کافی ہے کہ نبی ﷺ نے اس کو اللہ تعالی کی طرف منسوب فرمایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ﴿ افضل الصیام بعد شھر رمضان شھر اللہ المحرم ﴾ ( مسلم شریف، ج: ۱، ص: ۳۴۸ ) ” رمضان کے فرض روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ تعالی کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔ ویسے تو سارے مہینے اللہ تعالی ہی کے ہیں لیکن یہ مہینہ بہت محترم اور مبارک ہے اس لئیے حضور ﷺ نے اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا ہے۔ جیسے مساجد تو سب اللہ تعالی ہی کے گھر ہیں مگر مسجد حرام کو بیت اللہ اس کی عظمت و حرمت کی وجہ سے کہا جاتا ہے، اسی طرح تمام انبیاء کرام علیہم السلام بھی اللہ تعالی ہی کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول ہیں مگر آقاء مدینہ، محمد عربی ﷺ کو ان کی عظمت و حرمت کی وجہ سے ” مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ” فرمایا گیا ہے، اسی طرح مہینے تو سب خدا تعالی ہی کے ہیں لیکن محرم الحرام کو اس کی حرمت و فضیلت کی وجہ سے ” شھر اللہ ” فرمایا گیا ہے۔
علامہ ابن رجبؒ فرماتے ہیں: ہمارے اسلاف تین عشروں کی بہت عظمت و لحاظ کرتے تھے۔ ۱) رمضان المبارک کا آخری عشرہ، ۲) ذی الحجہ کا پہلا عشرہ، ۳) محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔ نیز فرماتے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اللہ جل جلالہ نے حضرت موسی علیہ السلام کے تیس دن کے بعد چالیس دن کی تکمیل کیلئے جن دس دنوں کا اضافہ کیا تھا وہ یہی محرم الحرام کے دس دن تھے اور حضرت موسیؑ کو ۱۰/ محرم الحرام کے دن باری تعالی سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ ( بحوالہ: مومن اور اسلامی سال، ص: ۴۶ )
﴿ اعمال ﴾
۱) ماہ محرم میں مسنون عمل بالخصوص روزے ہیں: نبئ اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ اس مہینہ میں بکثرت روزے رکھتے تھے اور صحابۂ کرامؓ کو بھی روزے رکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ جیسے فرائض کے بعد نوافل میں قیام اللیل اللہ تعالی کو سب سے زیادہ پسند ہے اسی طرح فرض روزوں کے بعد نفل روزوں میں محرم الحرام کے روزے اللہ تعالی کو سب سے زیادہ پسند ہیں ( مسلم شریف )۔ ایک حدیث میں ہے: ﴿ من صام یوما من المحرم فلہ بکل یوم ثلاثون یوما ﴾ ” یعنی ایام محرم میں سے ایک دن کا روزہ رکھنا دوسرے مہینوں کے تیس دن روزہ رکھنے کے برابر فضیلت رکھتا ہے۔
۲) صومِ یومِ عاشوارء کا اہتمام: ویسے تو اس پورے مہینہ میں کسی بھی دن روزہ رکھنا عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے مگر اس مہینہ میں ایک دن ایسا بھی ہے جس کے مراتب و فضائل احادیثِ نبویہ میں مذکور ہیں۔ عاشوارء کے روزے کے سلسلہ میں مروی روایات کو دیکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں رسولِ اکرم ﷺ کا اپنا معمول اس دن روزہ رکھنے کا تھا لیکن آپ نے دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیا۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں لوگوں کو تاکید سے اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا البتہ جب ماہِ رمضان کے روزے فرض کردئیے گئے تب آپ ﷺ نے اس کا حکم ترک فرما دیا تاہم حضور اکرم ﷺ کا معمول اخیر عمر تک یومِ عاشوارء کو روزہ رکھنے کا تھا نیز آپ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو اس کی ترغیب بھی دی اور اس کا بے پناہ اجر و ثواب بھی بیان فرمایا چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ: ” مجھے اللہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن روزہ رکھے تو اس کے پچھلے ایک سال کے ( صغیرہ ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا ( مشکوۃ شریف )۔
۳) ماہِ محرم کی دس تاریخ یعنی عاشورہ کے دن اپنے گھر کے دسترخوان کو وسیع کرنا، گھر والوں پر خرچ کرنا رزق میں وسعت و فراخی کا باعث بنتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر نفقے ( خرچ ) کو وسیع کیا تو اللہ تعالی اس پر سارا سال رزق کی وسعت و فراخی فرماتا ہے۔ حضرت سفیان ثوریؒ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اسے بالکل ایسے ہی پایا۔ ( مشکوۃ شریف )
﴿ بدعات ﴾
بعض لوگ ماہ محرم کی نو اور دس تاریخ کو بڑے اہتمام کے ساتھ سبیلیں لگا کر دودھ یا شربت پلاتے ہیں، حلیم، چاول، اور دیگر مختلف انواع کے کھانے پکا کر تقسیم کرتے ہیں یہ اور اس جیسے تمام وہ کام جن کو نو اور دس محرم کے دن خصوصیت کے ساتھ نیک عمل سمجھ کر ثواب کی نیت سے انجام دئیے جاتے ہیں جن کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہوتا ہے ایسے سب کام بدعات کے زمرے میں آتے ہیں جن سے اجتناب و پرہیز کرنا ضروری ہے۔
﴿ پیغام ﴾
محرم الحرام کی فضیلت و اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں بدعات و خرافات، معصیات و سیئات اور بے جا توہمات سے خصوصی طور پر اجتناب کرنے کے ساتھ ساتھ عبادات کا اہتمام کیا جائے۔ ہر شخص اپنی وسعت و طاقت کے مطابق پورے مہینہ کے شب و روز میں موقع محل کے اعتبار سے جس قدر فرائض، واجبات، سنن، مستحبات، نوافل، ذکر و تلاوت، دعاؤں، صدقات، روزوں، اور دیگر نیک اعمال کا اہتمام کرے یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×