سیاسی و سماجیمفتی محمد صادق حسین قاسمی

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری

اس وقت ہمارا ملک ’’آزادی ‘‘ کے نعروں سے گونج رہا ہے،’’انقلاب‘‘ کی صدائیں ہر جانب سنائی دے رہی ہے۔ظلم وستم اور ناانصافی وزیادتی کے خلاف بلاتفریق مذہب وملت ہر ملک ووطن کا خیر خواہ سراپا احتجاج بناہوا ہے۔جوانوں سے لے کر بوڑھوں تک ،مردوں سے لے کر عورتوں تک ہر کوئی ملک کی سلامتی کی فکر میں،ظالمانہ قوانین کے خلاف سڑکوں پر آکر احتجاج کررہے ہیں۔دودھ پیتے بچوں کولے کر مائیں آزادی کی آوازیں لگارہی ہیں،چھوٹے چھوٹے بچے اپنا جوش وجذبہ دکھارہے ہیں ،نوجوان بے خوف وخطر ہوکر ظالمانہ نظام کے خلاف ناقابل ِ فراموش کردارادا کررہے ہیں۔تاریخ اس دور کو کبھی بھول نہیں سکتی اور کوششیں کرنے والوں کو زمانہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
مسلمانوں نے ہر دور میں اپنے انقلابی کارناموں کے ذریعہ تاریخ رقم کی ہے اور ظلم وستم کے خلاف دیوار ِ آہنی بن کر کھڑے رہے ہیں۔آج پھر وطن کی حفاظت ،ملک کی سالمیت کے لئے وہی جوشِ جنوں اور فکرِ اندروں کی سخت ضرورت ہے۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کے خلاف خصوصا تعصب وتنگ نظری کا سلوک کررہی ہے اور مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچانے ،انہی کے ساتھ زیادتی کرنے کے لئے نت نئے قوانین کو منظور کرواکر نافذکرنا چاہتی ہے۔علامہ اقبال ؒ نے بجا کہا ہے کہ:
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور ِ زماں ہمارا
ہماری ہستی کو مٹانے اور ہمارے وجود کو ختم کرنے کی بہت کوششیںکی گئیں،منصوبے بنائے گئے ،جبر وتشدد کا سلوک کیا گیا، لیکن خدا مظلوموں کا حامی ہوتا ہے ،اس نے ظالموں کوقیامت تک کے لئے نشان ِ عبرت بنایااور کمروزوں ،ستم رسیدوں کی مددفرمائی۔
دنیا میں بسنے والے ان گنت انسان اپنے مفاد کی دوڑ دھوپ میں رہ سکتے ہیں،اور مادیت کی گہماگہمی میں صبح و شام بسر کر سکتے ہیں ،نہ انہیں حالات کی فکر اور نہ گر و پیش کا احساس ۔لیکن ایک مومن دنیا میںانسانیت فراموشی کی زندگی نہیں گذارسکتا ،اور بندگانِ خدا کو بھول کر سفینۂ حیات کو آگے نہیں بڑھا سکتا ،کیوں کہ اس کو جس سانچے میں ڈھا لا گیا،جن تعلیمات سے آراستہ کیا گیا اور جس درد و احساس کی متاع ِ گراں مایہ سے نوازا گیاوہ کبھی اس کو مفادات کی حد تک کوشش کرنے والا اور اپنی ہی زندگی کو چمکا نے والا نہیں بنا سکتی۔
نبی کریمﷺ کاارشاد ِ مبارک ہے:من لایھتم بامر المسلمین فلیس منھم۔( طبرانی:۷۴۷۳)کہ جوشخص مسلمانوں کے مسائل ومعاملات کو اہمیت نہ دے اور ان کے لئے فکر نہ کرے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے مسلمانوں کے علاوہ عام انسانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی تعلیم دیتے فرمایا: ألا من ظلم معاھدا أو انتقصہ أو کلفہ فوق طاقتہ أو اخذ منہ شیئا بغیر طیب نفس فأنا حجیجہ یو م القیامۃ۔( ابوداؤد:۳۰۵۲)’’خبردار ! جس کسی نے کسی معاہد پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضاکے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو قیامت کے روز میں اس کی طرف سے جھگڑوں گا۔‘‘
اس روئے زمین پر مسلمانوں نے نہایت عد ل وانصاف کے ساتھ حکمرانی کا فریضہ انجام دیااور خلق ِ خدا کے ساتھ ہمدردی ومحبت کا ایسا معاملہ کیا کہ دنیا حیران رہ گئی،اور اعتراف کرنا پڑا کہ نظام ِ حکومت چلانا ہوتو پھر اسلامی نظام سے فائدہ اٹھاناہوگا ۔ایک مرتبہ قیصر ِ ِروم نے اپنا ایک قاصد حضرت عمر فاروق ؓ کے حال واحوال معلوم کرنے کے لئے بھیجا ،جب وہ قاصد مدینہ آیا تو دیکھا کہ یہاں کوئی محل وغیرہ نہیں ہے اور نہ ایسا کوئی گھر ہے جس سے پتہ چلے کہ یہاں کوئی بادشاہ رہتا ہے۔مدینہ کے لوگوں سے پوچھا :تمہارا بادشاہ کہاں ہے؟لوگوں نے کہا کہ ہمارا کوئی بادشاہ نہیں ہے ،ہاں البتہ ہمارے ایک امیر ہیں جو اس وقت مدینہ سے باہر کہیں گئے ہوئے ہیں۔وہ قاصدحضرت عمرؓ کی تلاش میں نکلا تو ایک جگہ دیکھا کہ حضرت عمر ؓ زمین کو فراش بنائے ایک درخت کے سایہ میں سورہے ہیں،اپنا سراپنے درّہ پر رکھا ہوا ہے اور آس پاس کوئی پہرے دار بھی نہیں ہے۔جب اس نے یہ حالت دیکھی تو دل میں ہیبت بیٹھ گئی ،کہ یہ ایسا آدمی ہے کہ بادشاہوں کو اس کی ہیبت اوررعب کی وجہ سے چین نہیں آتا،اور اس کی ظاہری حالت یہ ہے!اے عمر!واقعی تونے لوگوں میں عدل قائم کیا ،ان کو امن دیا تبھی تو آرام کی نیند سورہا ہے ۔اس کے مقابلہ میں ہمارا بادشاہ ظلم کرتا ہے،ہروقت خوف اس کے سرپرسوار رہتا ہے،راتوں کو نیند نہیں آتی۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا دین،دین ِ حق ہے۔اگر قاصد بن کر نہ آیا ہوتا تو ضرور اسلام کے آتا،البتہ میں واپس جاکر مسلمان ہوجاؤں گا۔‘‘( حضرت عمر کے سو واقصے:۶۴)یہ باتیں اس نے اپنے دل میں کہی او ر غیر معمولی عقیدت ومحبت کو دل میں بسالیا۔
نظامِ عدل کو جب دنیا میں قائم کیا گیا تو اس کے اثرات وبرکات سے نہ صرف انسانوں نے فائدہ اٹھایا بلکہ جانور تک بے خوف ہوکر رہا کرتے تھے ۔چناں چہ موسی بن ایمن الراعی کہتے ہیں کہ وہ حضرت عمربن عبدالعزیز ؒ کے دورِ خلافت میں ایران کے مشہورعلاقہ کرمان میں محمد عیینہ چرانے پر مامور تھے،فرماتے ہیں کہ ایک چراگاہ میں بکریاں ،شیر،بھیڑئیے ایک ساتھ چراکرتے تھے ،کبھی کسی شیر یا بھیڑئیے نے بکریوں پر حملہ نہیں کیا،انسانوں سے جب ظلم اٹھ گیا تو جانوروں اوردرندوں سے بھی ظلم ختم ہوچکا تھا۔مگر جس وقت حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی وفات ہوئی ،عین اسی وقت یہاں پر ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پر حملہ کردیا ،موسی بن ایمن نے اِناَّللہ پڑھااور کہا کہ اللہ تعالی کے کسی ولی کامل اور عبدصالح کی وفات ہوچکی ہوگی ،ورنہ ایسا نہ ہوتا،جب بعد میں معلوم ہوا کہ اسی وقت حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی وفات ہوگئی تھی۔( انوار ِ ہدایت:۲۳۰)
کسی ایک مظلوم کی فریاد رسی کے لئے پورا لشکر تیارکرنے جانے والا حکمراں معتصم باللہ بھی ہے ۔تفصیلی واقعہ کا اختصار یہ ہے کہ :عموریہ میں جب مسلمان مردوں کو قتل کرکے ان کی عورتوں اور بچوں کو گرفتارکرلیاگیا،گرفتار شدہ عورتوں میں ایک ہاشمی عورت بھی تھی ،اس نے’’وامعتصماہ‘‘اے معتصم میری مددکر کی فریادکی؛معتصم کو جب وحشیانہ مظالم اور مسلمانوں کی دردناک حالت اور اس عورت کی فریاد کی خبر پہنچیں،اس وقت وہ دربار میں تخت پر بیٹھا تھا ،وہیں سے بیٹھے بیٹھے بولا ’’لبیک،لبیک‘‘میں پہنچا،میں پہنچا،اور فوراً تخت سے اتر کرفوج میں کوچ کی منادی کرادی اور انہیں جمع کراکے خود ایک مسافر کی ضرورت کے بقدر سامان لے کر دربار ِ عام میں آیااور بغداد کے قاضی عبدالرحمن بن اسحاق ودیگر حکام کے روبرو وصیت کرکے نکل پڑا۔(تاریخ ِاسلام :۳/۱۷۳ازشاہ معین الدین ندوی)
مسلمان دل ِ دردمند رکھنے والا اور شعور وآگہی کے ساتھ جینے والا ہوتا ہے،محبت اور انسانیت کے جذبے اس کے رگ وپے میں سرایت ہیں،اسلامی تاریخ اور مسلم حکمرانوں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وہ ملک کو بنانے ،سنوارنے اور ملک میں رہنے والے ہر شہری کو انصاف دلانے،مساوات قائم کرنے اور ہمدردی والا معاملہ کرنے میں ہمیشہ آگے رہے ہیں،اپنا سکون وراحت قربان کرکے،عیش وعشرت کو تج کرکے انہوں نے لوگوں کی نفع رسانی میں زندگی بسر کی ،انہوں نے دنیا کو بتایا کہ کیسے نظام ِ حکومت چلایا جاتاہے اور کیسے لوگو ں کو حقوق دلائے جاتے ہیں۔ناانصافی ،ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھانے اور صحیح رخ اور راستے کی طرف رہنمائی کرنے کا پورا حق ان لوگوں نے اپنے ماتحتوں اور رعیت کو دے رکھا تھا۔
ہمارا یہ ملک محبت کا گہوارہ رہا ہے اور ہم مسلمانوں نے اس کو اپنے خون ِ جگر سے سینچا ہے ،اس کے ذرہ ذرہ پر ہماری قربانیوں کے نشانات اور ہماری محبتوں کے نقوش ثبت ہیں،مسلمانوں نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر اس کی حفاظت کے لئے تن من کی بازی لگائی ہے،مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے ملک کے مفاد کو پیش ِ نظر رکھااور اس کی رنگارنگی تہذیب اور الفت ومحبت کو باقی رکھنے کے لئے ایثار وقربانی کی ایک ولولہ انگیز تاریخ لکھی ہے۔نفرتوں کے سوداگروں کی مکر وفریب کی چالوں کو ناکام بنانے کے لئے مسلمانوں میں شعور و آگہی بہت ضروری ہے۔
مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن ندوی ؒ نے کس درد اور فکر کے ساتھ کہاتھا اور آج سے بہت پہلے حالات اور ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا کہ:’’میں صاف کہتا ہوں کہ یہ ملک تباہی کے کنارے کھڑا ہے ،کیوں کھڑا ہے ،پیسے کی لالچ کی وجہ سے،بے ایمانی کی وجہ سے ،رشوت کی وجہ سے ،کام چوری کی وجہ سے ،فرض ناشناسی کی وجہ سے ،اور یہ بھید بھاؤ جو ہیں ،ذاتوں اور برادریوں کے اس کی وجہ سے،آپ اس پورے بحرِ ظلمات میںروشنی کا مینار ہیں،روشنی کامیناراِدھراُدھر نہیں جاتا،کھڑا رہتا ہے ،سب کو راستہ رکھاتا ہے ،آپ ہمت سے کام لیں اور اپنے اندر فرقان پیداکرنے کی کوشش کریں۔ایمانی صفات ،اسلامی اخلاق اور دعوت وہدایت اور ہمدردی خلائق کے جذبے کے ساتھ آپ کو یہاں زندگی کٹنا بھی نہیں چاہیے ،آپ یہ نہ کہیں کہ صاحب ہماری بلا سے یہ ملک ڈوبے یا بچے ہم نہیں جانتے ،ہم تو بس اپنی عاقبت کی فکر میں ہیں،نہیں یہ بات ٹھیک نہیں ہے،مسلمان کا منصب نہیں ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے ملک تباہ ہوجائے،خدا آپ سے پوچھے گا،آپ جس کشتی پر سوار ہیں ،وہ کشتی ڈوبے ،پھر آپ کی کیا خصوصیت رہی ،آپ ڈوبتی کشتی کو ہاتھ لگادیں تو ساحل تک پہونچ جائے گی ،یہ آپ کی شان ہے۔‘‘( خطبات ِ علی میاں:۸/۱۳۰)
ملک کی سالمیت کے لئے کوشش کرنا اور کوشش کرنے والوں کا بھرپور ساتھ دینا ہماری ذمہ داری ہے ،جس سے ہم کبھی راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتے ،ہماری قوت ،ایمانی طاقت،دعاؤں کی برکت،یقین ِ کامل کی دولت ،عزم وحوصلہ اور اتفاق واتحاد کا عظیم سہارا اندھیروں میں نئی روشنی پیداکرے گا،حالات ومشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کی راہیں فراہم کرے گا،ملک کے ان حالات میں مسلمانوں کو بیدار بھی ہونا ہے ،اور وں کو بیدار بھی کرنا ہے ،نئی صبح کے لئے عزم ویقین کا چراغ روشن کرکے جدوجہد بھی کرنا ،اور ایک پورے انقلاب کے لئے جہدِ مسلسل وعمل ِ پیہم کا حصہ بھی بننا ہے،کیوں کہ :’’زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری ‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×