اسلامیات

رو میں ہے رخش ِ عمر! ہنگامہ خیزیوں کے ساتھ رخصت ہوتا سال ۲۰۲۰ء

بہت جلد سال دوہزار بیس (۲۰۲۰ئ)بھی رخصت ہونے والا ہے،ہنگامہ خیزیوں ،حیرت انگیزیوں،الجھنوں اور نت نئی فکروں کے ساتھ رخت ِ سفر باندھنے والا ہے۔سال ۲۰۲۰ء تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے اور اس میںپیش آنے والے واقعات زمانہ دراز تک سنائے جائیں گے،کورونا وائرس کی وجہ سے اس سال میں جو قیامت برپا ہوئی اور کن سخت ترین حالات اور آزمائش سے پوری دنیا کو گزرنا پڑااسے کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا،اس کورونا وائرس کی وجہ سے مختلف قسم کے مسائل سے پوری دنیا کوجودوچار ہونا پڑا اور لوگوں کوجن مشکلات کا سامناکرنا پڑااور ابھی بھی حالات ومسائل سے دوچار ہیں اسے بھلاکیسے ذہن ودماغ سے نکالاجاسکتا ہے؟سال رخصت ہورہاہے ،اس سال نے دنیا کی بے ثباتی ،رشتوں کی ناپیداری ،تعلقات کی کمزوری ،اپنوں کی بیگانگی،حکومتوں کی بے بسی ،انسانوں کی لاچاری ،ترقی اور ٹکنالوجی کی بے اثری ،انسانی زندگی کی ناقدری ،غریبوں کی پریشان حالی ہر چیز کی حقیقت کو عیاں کرکے رکھ دیا۔
۲۰۲۰ میں کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا ساکت وجامد رہی ،تعلیم گاہیں بند رہیں،اور کتنے اچھے خاصے صحت مند وتندرست وائرس کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے،برصغیر پاک وہند کے کتنے ہی جید اور قابل ِ قدر علماء کرام کی رحلت اس سال ہوئی،کتنی ہی مشہور ِ زمانہ شخصیات کو خاموشی کے ساتھ سپر د ِ خاک کردیا گیا،بے روزگاری ،معاشی مسائل ومشکلات کے بھنور میں کتنی ہی زندگیا پھنس کر رہ گئیں؟دنیا کی چہل پہل ماند پڑگئی،ابھی دنیا اسی وائرس کی زد میں ہے مکمل طور پر اس سے آزادی نہیں ملی کہ وائرس کی دوسری لہر کے خوف میں پھر سے لوگوں کو جکڑنے کی تیاری ہورہی ہے۔زندگی کتنی قیمتی ہے اور موت کس قدر سستی ہے اس کا احساس دنیا کے ہر فرد کو بہ آسانی ہوگیا،کائنات پر قدرت صرف اللہ ہی کی ہے،ساری دنیا اس کی قدرت اور خدائی کے سامنے بے بس ہے اس کا اندازہ بھی بہ خوبی ہوگیا۔انسانوں کا پالنہا ر تو صرف رب کریم ہی ہے ،حکومتیں اور ارباب ِ اقتدار انسانوں کی ضروریات پوری کرنے میں کس قدر عاجز وکمزور ہے یہ حقیقت بھی کھل کرعیاں ہوگئی۔الغرض سال ۲۰۲۰ء رخصت ہورہاہے اور کھلے عام انسانوں کو عبرت وموعظت کا پیغام دے رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی قدر وقیمت کو سمجھیں ،ایام ِ زندگی کو لایعنی وفضول میں ضائع کرنے ،خواہشات کی دوڑ میں کھپانے سے بچائیں ۔انسانی زندگی کا گھوڑابڑی تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے،جس کی برق رفتاری پر کوئی قابو نہیں پاسکتا ہے،وہ انسانوں کو قبر کی منزل پر پہنچاکر ہی دم لے گا،جہاں پہنچنے کے بعد پھرکبھی کسی انسان کی واپسی نہیں ہوگی۔سال کی تبدیلی بچے کو بڑا،بڑے کو جوان ،جوان کوادھیڑ،ادھیڑکو بڑھاپے کے قریب کررہی ہے،سال کی تبدیلی حیات ِ مستعار کے ایام کو کم کررہی ہے اور مدت ومہلت کے دنوں کو گھٹارہی ہے۔اللہ تعالی نے جوحیات دی ہے اس کو فانی لذتوں میں تباہ کرنے کے بجائے ابدی نعمتوں کے حصول کے لئے لگائیں ۔ایک وقت آئے گا جب یہ اعلان ہوگا:
یہ گھڑی محشر کی ہے ، توعرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
ایک حدیث میںنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عَنْ اَبی ھُرَیْرَۃَ ؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّہِ ﷺ قال : بَادِرُوْابِالْاَعْمَالِ سَبْعَاً: ھَلْ تَنْتَظِرُوْنَ اِلاَّ فَقْرَاً مُنْسِیَاً، اَوْ غِنیً مُطْغِیًا، اَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا،اَوْ ھَرَمًا مُفَنِّدًا، اَوْ مَوْتًا مُجْھِزًا،اَوِ الدَّجَّالَ ،فَشَرُّ غَائِبٍ یُنْتَظَرُ اَوِ السَّاعَۃ فَالسَّاعَۃُاَدْھٰی وَ اَمرُّ۔( ترمذی:۲۲۳۸)حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:سات احوال سے پہلے اعمال ( آخرت) کرلو۔(۱) تم نہیں انتظار کرتے مگر بھلادینے والی محتاجی کا،(۲) یا سرکش بنانے والی مالداری کا(۳)یابگاڑدینے والی بیماری کا (۴)یاانتہائی بڑھاپے کا(۵)یافنا کرنے والی موت کا (۶)یا دجال کا ،پس وہ بن دیکھی ہوئی برائی ہے جس کاانتظار کیا جارہا ہے (۷)یا قیامت کا ،پس قیامت سخت حادثہ اور کڑوا گھونٹ ہے۔
ا نسان کی زندگی کے مختلف مراحل کو اللہ تعالی نے بیان فرمایا:ارشاد ہے: اعلموا انما الحیوٰ ۃ الدنیا لعب و لھو وزینۃ وتفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال و الاولاد کمثل غیث اعجب الکفار ثم یھیج فترہ مصفرا ثم یکون حطاما وفی الاخرۃ عذاب شدید ومغفرۃ من اللہ و رضوان وماالحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور۔( الحدید :۲۰)خوب سمجھ لو کہ اس دنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا،ظاہری سجاوٹ کا ،تمہارے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا،اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش جس سے اگنے والی چیزیں کسانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں ، پھر وہ اپنا زور دکھاتی ہے ، پھر تم اُس کو دیکھتے ہو کہ زد پڑگئی ہے ،پھر چورا چورا ہوجاتی ہے ۔اور آخرت میں ( ایک تو)سخت عذاب ہے ، اور( دوسرے ) اللہ کی طرف سے بخشش ہے ، اور خوشنودی ، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے انسانی زندگی کے مختلف مراحل کو ذکر فرمایا کہ انسان کن کن مرحلوں سے گذرکر انتہا کو پہنچتا ہے ، آخر انجام کے اعتبار سے اس کو اس دنیا سے کوچ کرنا ہے اور فانی جہاں کو چھوڑ کر ابد الآباد دنیا کی طرف جانا ہے ۔وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا کہ یہاں کہ رنگینوں میں مست ہوجائے اور آخرت کو فراموش کردے ،یہاں کی عارضی چمک دمک اس کو اپنی حقیقی منزل سے غافل کرنے والی نہ بنے ،اور وہ فنا ہونے والی زندگی میں مصروف ہوکر لافانی زندگی کو بھول نہ جائے ۔انسانی کی زندگی بچپن سے شروع ہوکر بڑھاپے پر ختم ہوجاتی ہے اس درمیان انسان کن چیزوں میں گم اور کھویا ہوا رہتا ہے اس کو اللہ تعالی نے مذکورہ آیت میں بیان فرمایااورا س کے لئے کسان اور کاشتکار کی مثال بھی بیان کی ہے جس طرح کھتی اور سبزی ابتدائی مرحلے میں بڑی خوشنمانظرآتی ہے لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی زد پڑجاتی ہے اسی طرح انسانی زندگی بھی شروع میں بڑی حسین و طاقت ور دکھائی دیتی ہے لیکن آخر کار بڑھاپا طاقت وقوت ، شوکت وشباب اور بہاروں کو ختم کردیتا ہے یہاں تک انسان مرکر مٹی ہوجاتا ہے ۔اور آخر میں منزل مقصود کی طرف متوجہ کیا کہ اصل دوڑ دھوپ اور محنت و کوشش آخرت کے لئے ہونی چاہیے ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:لاتزال قدما ابن اٰدم یوم القیامۃ عند ربہ حتی یسال عن خمس:عن عمرہ فیما افناہ، وعن شبا بہ فیما ابلاہ ، وعن مالہ من این اکتسبہ ، وفیما انفقہ ، وماذا عمل فیما علم ۔(ترمذی:حدیث نمبر؛۲۳۵۳)اقیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں بنی آدم کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے جب تک کہ پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے گا : (۱) اس کی عمر کے متعلق کہ اپنی عمر کو کہاں فنا کیا ؟(۲)اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس کو کس چیز میں گنوایا ؟(۳)اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا؟(۴)مال کہاں خرچ کیا ( ۵)اور علم کے بارے میں کہ جو علم اس کو حاصل تھا اس پر
کہاں تک عمل کیا؟
بہرحال اب بہت جلد سال ۲۰۲۰ء بھی ماضی کا حصہ بن جائے گا،اس سال میں پیش آنے والے واقعات ،حالات انسانی زندگی کاایسا حصہ بن جائیں گے جسے سنااور بتاکر لوگ اس کی کلفتوں اور سختیوں سے دوسروں کو آگاہ کریں گے،گزرنے والا ہر لمحہ انسان کی زندگی کو کم ،اور موت کو قریب کررہا ہے،سال کی تبدیلی ،کلینڈر کی نئی شروعات خوشی ومسرت نہیں بلکہ احتساب وجائزہ کی دعوت دیتے ہیں ،بچاکتنا ہے ؟کھویاکیاکیاہے اس پر نظر دوڑانے کی طرف متوجہ کرتے ہیں ،جس طرح ایک دکان دار شام کو جب دکان بند کرتا ہے تو اپنی آمدنی اور دن بھر کی وصولی پر نظر ڈال کر حساب کرتا ہے ،مسافر دنیا کو بھی سال کے اختتا م پراپنے گزرے ہوئے لیل ونہار پر نظر ڈال کر کمیوں کودور کرنے،کوتاہیوں کی تلافی کرنے کی فکر کرنی چاہیے ۔آج ہم ہیں کل ہماری جگہ کوئی اور ہوگا،خداکو جب تک مقصود ہے کائنات کا نظام چلے گا،انسان بدلتے رہیں گے،کوئی پیدائش کی خوشیاں لے کر آئے گا،کوئی جدائی کا غم دے کر جائے گا،اس میں کامیاب وبامراد وہ ہے جس نے اپنی دین ودنیا کو سنوارنے ،بہتر بنانے ،مقصود کو حاصل کرنے میں اپنی زندگی لگائی ،وہ دنیا میں نیک نام رہااور دین میں قابل قدر سمجھاجاتارہاہے،اس کا رشتہ خالق سے اچھا تھااور مخلوق سے بہتر،وہ غافلوں ،مدہوشوں کی طرح بلکہ فکرمندوں اور ہوشیاروں کی طرح زندگی گزارتارہا،اس نے اپنے مقصدِ تخلیق کو فراموش نہیں کیا۔نئے سال کی آمد عبرت ہے،موعظت ہے اور دعوت ِ فکر وعمل ہے۔مزرا غالب نے کیا خوب کہا ہے:
؎ رو میں ہے رخش ِ عمر،کہاں دیکھیے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×