اسلامیات

اسلام عد ل وانصاف کا علم بردار

عدل وانصاف دین اسلام کاامتیاز اور اس کی خوبی ہے،اسلام نے دنیا سے ظلم وستم کا خاتمہ کیااور عدل انصاف کی گراں قدر تعلیمات سے مزین کیا،انسانی معاشرہ میں جو طبقہ بھی کسی بھی طرح کی ناانصافی ،زیادتی اور ظلم کا شکار تھا،اسلام نے انہیں مظالم سے چھٹکارادلایااور اسلام کی عدل وانصاف والی ٹھنڈی چھاؤں کے سائے میں جگہ دی۔قرآن وحدیث میں بہت اہتمام کے ساتھ عدل وانصاف کی تعلیم دی گئی اور اس کو اختیارکرنے کا حکم دیاگیا،ناانصافی سے بچنے اور انسانوں کے ساتھ زیادتی کا معاملہ کرنے سے سختی سے منع کیا۔یقینا یہ اسلام کاایک عظیم کارنامہ اور اس کی عظیم تعلیمات کا خوبصورت باب ہے۔اسلام کے اسی حسن وکمال کو ایک موقع پر حضرت ربعی بن عامرؓ نے بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا تھا۔واقعہ یہ ہے رستم کی درخواست پرحضرت ربعی بن عامرؓ کو اس سے بات چیت کے لئے بھیجاگیا۔ایرانیوں نے رستم کا دربار خوب سجارکھاتھا،ریشم وحریر کے گدے ،بہترین قالین ،سونے چاندی کے اشیاء اور دیگر اسباب زینت سے آراستہ وپیراستہ کردیاتھا۔نہایت سادگی کے ساتھ حضرت ربعی بن عامرؓ رستم کے دربار میں داخل ہوئے ،دربارکا کروفر ان کو بالکل کو متاثر نہ کرسکا،رستم نے پوچھاکہ آپ لوگ کیاچاہتے ہیں ؟حضرت ربعی بن عامرؓ نے جو جواب دیا وہ تاریخ کا ایک بے مثال اور یادگارجواب بھی ہے اور اسلام کے حقیقی مقصد کا بہترین تعارف بھی ۔انہوں نے فرمایا:’’اللہ ابتعثنالنخرج من شاء من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ ،ومن ضیق الدنیا الی سعتھا،ومن جور الادیان الی عدل الاسلام ‘‘۔اللہ نے ہمیں اس لئے بھیجا ہے کہ ہم اللہ کے بندوں میں سے اللہ جس کو چاہے ان کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی طرف لائیں،اور دنیا کی تنگیوںسے نکال کر اس کی وسعتوں میں لے جائیں اور دنیا کے مختلف مذاہب کے ظلم وجور سے اسلام کے عدل وانصاف کی طرف لائیں۔(البدایہ والنہایہ:۹/۶۲۱)
قرآن وحدیث میں عدل وانصاف کے قیام کی بہت زیادہ تعلیم دی گئی ،جن میں سے چند ارشادات یہ ہیں۔ان اللہ یامرکم ان تؤدواالامانات الی اھلھاواذا حکمتم بین الناس ان تحکموابالعدل ،ان اللہ نعمایعظکم بہ ان اللہ کان سمیعا بصیرا۔(النسائ:۵۸)’’بے شک اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے مالکوں کو اداکردو،اورجب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو،توانصاف سے فیصلہ کیا کرو،اللہ تعالی تم کو اچھی نصیحت کرتا ہے،بے شک اللہ تعالی سننے اوردیکھنے والا ہے‘‘۔
حضرت داؤد ؑ کو فرمایاگیا:یاداؤد اناجعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولاتتبع الھوی فیضلک عن سبیل اللہ ۔(ص:۲۶)’’اے داؤد!ہم نے آپ کو ملک میں نائب بنایا ہے؛لہذاآپ لوگوں میں انصاف سے حکومت کیجیے اور اپنی نفسانی خواہش پر نہ چلئے کہ وہ آپ کو اللہ کے راستہ سے ہٹادے۔‘‘
دشمنی میں بھی عدل وانصاف پر قائم رہنے اور اسی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا،چناں چہ ارشاد ہے:یاایھاالذین امنواکونواقوامین للہ شھداء بالقسط ،ولایجرمنکم شنان قوم علی الاتعدلوا،اعدلواھواقرب للتقوی۔(المائدۃ:۸)اے ایمان والو!کھڑے ہوجایاکرواللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگزنہ چھوڑو،عدل کرو،یہی بات تقوی سے زیادہ نزدیک ہے۔‘‘قرآن کریم میں دیگر مقاماتؤ پر بھی نظام ِ حکومت کو عدل وانصاف کے ساتھ چلانے اور لوگوں کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنے کی تعلیم دی گئی ۔
نبی کریمﷺ نے بھی عد ل وانصاف کو قائم کرنے اور بہترین نظامِ حکومت سنبھالنے کی ترغیب دی اور ایسے انصاف پرور حکمرانوں کو کامیابی کی خوش خبری بھی سنائی۔ارشاد ِ نبوی ہے:ان المقسطین عنداللہ علی منابرمن نور عن یمین الرحمن وکلتایدیہ یمین،الذین یعدلون فی حکمھم واھلیھم وماولوا۔( مسلم :۳۴۱۲)عدل وانصاف سے کام لینے والے اللہ کے نزدیک نور کے ممبروں پر رحمن کے دائیں جانب(اور اس کی دونوںجانبیںداہنی ہی ہیں) تشریف فرماں ہوگے،جواپنے فیصلوں میں اوراپنے گھروالوں کے ساتھ اور اپنی ذمہ داریوں میں عد ل وانصاف کرتے ہیں۔
اسی طرح ارشاد ہے :اھل الجنۃ ثلاثۃ :ذوسلطان مقسط موفق ،ورجل رحیم رقیق القلب،لٔکل ذی قربی مسلم ،وعفیف متعفف ذوعیال۔( مسلم:۲۸۶۷)تین طرح کے لوگ جنتی ہیں (۱)عادل حکمراں،جسے اللہ کی طرف سے توفیق نصیب ہو۔(۲)وہ شخص جو ہر قریبی مسلمان رشتہ دار کے لئے مہربانی کرنے والااور نرم دل ہو،(۳)وہ شخص جو پاک دامن اور پاک باز عیال دار ہو۔
قیامت کے سخت ترین دن میں جن لوگوں کو عرشِ الہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں ایک عادل حکمراں اور بادشاہ بھی ہوگا۔نبی کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے:عن ابی ھریرۃ ؓعن النبی ﷺ قال سبعۃ یظلھم اللہ فی ظلہ یو م لاظل الاظلہ الامام العادل۔۔۔۔(بخاری:۶۶۰)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالی اس دن عرش کا سایہ عطا فرمائے گا جس دن عرش ِ الہی کے علاوہ کسی چیز کا سایہ نہ ہوگا۔(جن میں ایک)حاکم ِ عادل۔۔۔۔ہوگا)
انہی تعلیمات اور ترغیبات نیز نبی کریمﷺ کا عملی اسوہ اورنمونہ تھا جس نے حضرات صحابہ کرام ؓ کو دنیا کا بہترین عادل حکمراں بنایااور انہوں نے اپنے دور ِ خلافت میں عدل وانصاف کا بے مثال نظام قائم فرمایا؛حضرت ابوبکر ؓ جو سب سے پہلے خلیفہ ہیں ،جب خلافت کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر آئی ،تو اس وقت آپ نے سب سے پہلے جو خطبہ دیا اس کا ایک ایک جملہ درس ِ عبرت اور بالخصوص حکمرانوں کے لئے بیش قیمت نصیحت ہے۔آپ ؓ نے جوخطبہ دیا اس کی تلخیص یہ ہے کہ:’’اے لوگو!مجھے تمہاری قیادت کی ذمہ داری دی گئی ہے ،میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔لیکن قرآن کریم نازل ہوااور پیغمبر ﷺنے سنتیں پیش فرماکر ہمیں سکھلایاچناں چہ ہم نے انہیں سیکھ لیا۔بے شک سب سے بڑی دانش مندی تقوی اور پر ہیز گاری ہے ۔اور سب سے بڑی بے وقوفی گناہ کا ارتکاب ہے۔میرے نزدیک تم میں سے زیادہ طاقت ورضعیف ( مظلوم ) شخص ہے،حتی کہ میں اس کا واقعی حق دلاکر رہوں گا،اور میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ کمزورطاقت ور (ظالم ) شخص ہے حتی کہ میں اس سے ( دوسرے کا) حق لے کر رہوں گا۔اے لوگو!میں سنت کا پیروکار ہوں ،اور بدعتی نہیں ہوں۔پس اگر اچھا کام کروں تو تم میرا تعاون کرنا،اور اگر میں راہ ِ حق سے اِدھر اُدھر ہونے لگوں تو تم مجھے سیدھے راستہ پرگامزن کردینا،میں یہ بات کہہ کر اللہ تعالی سے تمہارے لئے اور اپنے لئے مغفرت کا طلبگار ہوں۔‘‘(موسوعۃ اثارالصحابہ:۱/۳۵ بحوالہ لمحات ِ فکریہ :۶۴)
حضرت عمر ؓ نے زمام ِ خلافت سنبھالنے کے بعد جو خطابات فرمائے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ:’’میں کسی شخص کو کسی پر زیادتی کرنے کا موقع نہ دوں گا۔ایسا کرنے والے کا ایک گال زمین پر ہوگا اور دوسرا میرے قدموں کے نیچے ،یہاں تک کہ وہ حق کے آگے سپر انداز ہوجائے۔لوگو!مجھ پر تمہارے کچھ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں۔میں انہیں شمار کرتا ہوں تاکہ تم ان کے متعلق میرا احتساب کرسکو۔میری یہ ذمہ داری ہے کہ تمہارا خراج اور وظیفے کی رقم مقررہ طریقوں سے وصول کروں اور جب اموال میرے ہاتھ آجائیں تو انہیں ٹھیک ٹھیک مصرف میں صرف کروں۔میری ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ میں تمہارے وظائف میں اضافہ کروں ،تمہاری سرحدوں کا تحفظ کروں،تمہیں ہلاکت کے منہ میں نہ ڈھکیلوں اور سرحدوں پر طویل عرصے تک مامور نہ کئے رکھوں۔اپنے عمال وحکام کو خطاب کرکے فرمایا:لوگو!میں تمہیں شہروں کے گورنروں پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں اس لئے بھیجا ہے کہ عوام کو دین برحق کی تعلیم دیں،نبی کی سنت سکھائیں ،ان کا مال غنیمت ان کے درمیان تقسیم کریں اور ا ن کے ساتھ عدل وانصاف برتیں‘‘۔( حکمران صحابہؓ:۱۵)
اسلام کا نظام ِ عدل کس قدر پیارااورنرالا ہے اس کا اندازہ حضرت علی ؓ کے واقعہ سے بھی لگایاجاسکتا ہے،کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کی زرہ کھوگئی،آپ نے وہ زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی،آپ نے یہودی سے فرمایا( جب کہ آپ خلیفۃ المسلمین تھے) اے یہودی!یہ زرہ جو تمہارے پاس ہے میری ہے ،فلاں روز مجھ سے کھوگئی تھی۔یہودی کہنے لگا:میرے قبضے میں موجود زرہ کے بارے میں آپ کیسی بات کررہے ہیں ،اگر آپ میری زرہ پر دعوی کرتے ہیں تو اب یہی ایک چارہ ہے کہ میرے اور آپ کے درمیان مسلمانوں کا قاضی فیصلہ کرے۔چناں چہ حضرت علی ؓ اور وہ یہودی دونوں فیصلے کے لئے قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے،جب قاضی شریح کی نگاہ امیر المؤمنین پر پڑی تو اپنی مجلس سے اٹھ کر کھڑے ہوئے،حضرت علی ؓ نے فرمایا:بیٹھے رہیں ،قاضی شریح بیٹھ گئے۔پھر فرمایا کہ میری زرہ کھوگئی تھی،میں نے اس یہودی کے پاس دیکھاہے،قاضی شریح نے یہودی سے پوچھا تمہیں کچھ کہنا ہے؟یہودی نے کہا:میری زرہ میرے قبضے میں ہے اور میری ملکیت ہے۔قاضی شریح نے زرہ دیکھی اور یوں گویاہوئے کہ :اللہ کی قسم اے امیر المؤمنین !آپ کا دعوی بالکل سچ ہے،یہ آپ کی زرہ ہے ،لیکن قانون کے مطابق آپ کے لئے گواہ پیش کرنا واجب ہے۔حضرت علی ؓ نے بطور گواہ اپنے غلام قنبرکو پیش کیا،اس نے آپ کے حق میں گواہی دی ،پھر آپ نے حسن ؓ اور حسین ؓ کو عدالت میں پیش کیا،ان دونوں نے بھی آپ کے حق میں گواہی دی۔قاضی شریح نے کہا :آپ کے غلام کی گواہی تو میں قبول کرتا ہوں ،لیکن ایک گواہ مزید درکار ہے اور آپ کے دونوں صاحبزادوں میں سے کسی کی گواہی قبول نہیں کرسکتا۔پھر حضرت علی ؓ نے فرمایا:قسم اللہ کی !میں نے عمربن خطاب ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے:حسن ؓ اور حسین ؓ نوجوانان ِ جنت کؤے سردار ہیں۔قاضی شریح نے کہا :بالکل یہ حق ہے۔حضرت علی ؓ نے فرمایا:پھر آپ نوجوانان جنت کے سرداروں کی گواہی کیوں قبول نہیں کریں گے ؟قاضی شریح نے کہا کہ یہ دونوں آپ کے صاحبزادے ہیں ، باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی مقبول نہیں ۔یہ کہہ کر قاضی شریح نے حضرت علی ؓ کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ سنادیااور زرہ یہودی کے حوالے کردی۔یہودی تعجب سے کہا:مسلمانوں کاامیر مجھے اپنے قاضی کی عدالت میں لایااورقاضی نے اس کے خلاف میرے حق میں فیصلہ صادرفرمایااور امیرالمؤمنین نے اس فیصلہ کو بلاچون وچرا قبول بھی کرلیا!!پھر یہودی نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب ؓ کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہنے لگا:امیر المؤمنین !آپ کا دعوی بالکل سچ ہے۔یہ زرہ آپ ہی کی ہے،فلاں دن یہ آپ سے گرگئی تھی تو میں نے اسے اٹھالیاتھا،لہذایہ آپ ہی کی ملکیت ہے ،آپ لے لیں ،پھر کلمہ شہادت پڑھ لیا۔حضرت علی ؓ نے فرمایا :میری زرہ بھی اور یہ گھوڑا بھی تمہارا ہے۔(سنہرے فیصلے:۲۶)
اس طرح اسلام نے اپنے ماننے والوں کو عدل وانصاف قائم کرنے کی تعلیم دی اور اسلام کے جیالوں نے اسلامی عدل کے نظام کو ایسے نافذکیا کہ لوگ اس سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے۔اپنے اور پرائے کی تفریق کے بغیر حقائق اور سچائیوں کی بنیاد پر فیصلے کرنا،تعلقات اور رشتوں کا خیال کئے بغیر درست اور حق کوبیان کرنااور حق دار کو اس کا حق دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کروانا یہ صرف اسلام کا امتیازہے۔
آج دنیا بہت سے مسائل اور مشکلات کا شکار ہے،ناانصافی ،ظلم وزیادتی حکومتوں کا امتیاز بن چکا ہے،بے قصور وں پر تشد دکرنا،حق اور سچ کو دبادینا،عدل وانصاف کو پامال کرنا ،مظلوموں پر ستم ڈھانا،ظالموں کو راحت دلانا ،قصورواروں کو آزادی مہیاکرنا،مجرموںکو غلط فیصلوں کے ذریعہ بری کرنا اس وقت ارباب ِ اقتدار کا طرہ امتیاز ہے،سچ کو جھوٹ بناکر پیش کرنا،حقائق کو چھپانا،اور شواہد وگواہیوں کو ناانصافی کی بھینٹ چڑھاناان کا محبوب مشغلہ بن گیا۔ایسے دور میں اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ہمیں عدل وانصاف کو قائم کرناچاہیے اور معاشرہ کو عدل وانصاف کی تعلیمات پر استوارکرنا اہل ایمان کی ذمہ داری ہے،ہم کہیں اپنے ارد گردناانصافی کرنے والے نہ بنیں ،جن پر ہمارا حق چلتا ہے انہیں ظلم کا نشانہ بنائیں ،دنیا کی حکومت ،کرسی کے غرور وگھمنڈاوراقتدار کے نشے میں جو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کررہے ہیں اور اپنی عدالتوں کے ذریعہ ناانصافی پر مبنی فیصلے صادر کروارہے ہیں ،ایک دن کو کائنات کے رب کی عدالت میں یقینا مجرم بن کر پیش کئے جائیں گے اور انہیں ان کے ظلم وستم اور ناانصافیوں کی سزا ضرور ملے گی ،یہ دنیا ہے چند دن کے بعد ختم ہوجائے گی، عہدے اور منصب بھی چھوٹ جائیں گے ،پھر ایک دن سب سے بڑے انصاف کرنے والے کی بارگاہ میں پیش ہونا ہوگا اور وہاں کوئی ظالم ناانصاف چھوٹ کر بھاگ نہیں سکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×