اسلامیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

عالم ِانسانیت کی رہنمائی کے لئے تمہارا انتخاب کیاگیا!

مرشد العلماء حضرت مولاناشاہ محمد جمال الرحمن صاحب مدظلہ(صدر مجلس تحفظ ِ ختم نبوت تلنگانہ وآندھرا) ریاست کے ممتاز عالم ِ دین ہیں،علمی وروحانی اعتبار سے مرجع ِ خلائق ہیں،اللہ تعالی نے تعلیم ،تدریس ،تزکیہ اور تبلیغ ہر میدان میں آ پ سے خوب کام لیااور آج بھی بے شمار تشنگان ِ علوم ومعرفت آپ سے فیض یاب ہورہے ہیں،اورتیرہ وتاریک زندگیوں کو ایمان واعمال سے روشن ومنورکررہے ہیں۔اللہ تعالی آپ کی عمر میں برکت نصیب فرمائے اور آپ کے فیض کو پوری دنیا میں عام فرمائے۔
شہر کریم نگر میں ’’دارالخیر ویلفیئرسوسائٹی ‘‘ کی جانب سے ائمہ مساجد ،علماء اور رفاہی ،فلاحی خدمات انجام دینے والے فکرمنداحباب کے لئے ایک خصوصی پروگرام بتاریخ 14ستمبر2020ء بروز پیر بعد نمازمغرب پیکاک ریسٹورنٹ میں منعقد ہوا۔جس میں بطور مہمان خصوصی حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب مدظلہ نے شرکت فرمائی اور اپنے فکر انگیز،علمی ،اصلاحی اورتربیتی بیان سے مستفید فرمایا۔موجودہ حالات میں کس طرح کام کرنے کی ضرورت ہے اور افراد ِ امت کو کس طرح اپنی صلاحیتوں کو لگاکر دین وانسانیت کی خدمت کرنی چاہئے اس موضوع پر قیمتی خطاب فرمایا،اس خطاب کا کچھ حصہ پیش ِ خدمت ہے۔
’’ایک ہے خالق کی عبادت اور ایک ہے مخلوق کی خدمت ۔اللہ سے سچے تعلق اور اس تعلق کی وجہ سے اللہ کی مخلوق سے اچھا سلوک کرناہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا :تمام لوگوں میںسب سے بہتر وہ ہے ،جو لوگوں میں سب سے زیادہ نفع کاذریعہ ہو۔خیر الناس من ینفع الناس۔یا خیر الناس انفعھم۔تمام لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لئے سب سے زیادہ نفع کاسبب ہو ۔موجودہ زمانہ میں،موجودہ حالات میں ہر آدمی فکر مندہے کہ ہمیںکیاکرنا چاہیے؟بہت سے لوگوں کے فون آتے ہیں کہ کیاکریں؟اس کے لئے ایک مستقل خاکہ اور کام کی ایک مخصوص شکل اختیارکرناضروری ہے،اس کی نافعیت بہت زیادہ ہے ۔(آپ کے خطاب سے قبل محلہ اور مسجدکی سطح پر کس طرح کام کرنے کی ضرورت ہے پروجیکٹرکے ذریعہ اس کی ترتیب بھی بتائی گئی ۔)
اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری زندگی کے جتنے بھی شعبہ ٔ حیات ہیں ان سب میں دینی نقطہ ٔ نظر سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اللہ کی مخلوق کی ہمدردی وخیر خواہی میں ،اور اللہ کے نبی ﷺکی امت کی تعمیرمیںکوشش کی جائے ۔آپﷺ نے جو خدمات انجام دی ،ضرورت مندوں کے جو کام آئے ،اس میں آپ ﷺ نے یہ نہیں دیکھا کہ اپنا کون ہے ،پرایا کون ہے؟اس سلسلہ میں مشہور حدیث آپ سب کو معلوم ہے کہ حضرت خدیجہ الکبری ؓنے پہلی وحی کے نازل ہونے پرآپﷺ کی جو صفات بیان فرمائے تھے وہ کیاہیں؟حضرت خدیجہ الکبری ؓ نے فرمایاتھا:آپ رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات اچھے رکھتے ہیں،آپﷺ بے سہارالوگوں کا سہارا بنتے ہیں،آپ پریشان حال آدمی کی فریاد کو سنتے ہیں،آپ لوگو ں کے لئے کماتے ہیں ،اور آپ ہر اچھے کام میں مددگارثابت ہوتے رہے ہیں۔جس میںیہ صفات ہیں اللہ ایسے کو ضائع نہیں کرتا۔مجھے اس موقع پر جو نکتہ آپ کے سامنے رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ ابھی تک اعلان ِ نبوت ہوا نہیںاوریہ بھی معلوم ہے کہ مکہ میں مشرکین ہی کا غلبہ تھا،اب یہ جتنی خدمات تھیں وہ کس کے ساتھ میںتھیں؟ایک بات تو یہ ذہن میں رکھناکہ یہ خدمات کیسے لوگوں کے ساتھ میں تھیں؟پھراعلان نبوت کے بعد سخت مزاج کے لوگ اورمختلف قسم کی خرابیوں میں مبتلا لوگوں نے کیسے آپ پرخود کوقربان کرناشروع کردیا۔ان لوگوں نے دیکھا نبی رحمت ﷺ کی زندؤگی کو،مشاہدہ کیاان کے حالات کا،دیکھا آپ کے اخلاق کو ،آپ کے اعمال کو ،جذبات کو،دیکھا آپ کی نیت کی پاکیزگی کو،دیکھا آپ کی ہمدردی وغم خواری کو۔بات یہ ہے کہ صحیح رخ پرعالم ِ انسانیت کوڈالنے کے لئے جن صفات کی ضرورت ہے اورجو لوگوں کے لئے قابل قبول ہونے کے لئے،حق کے قبول کرنے کی استعداد دلوں میںآنے کا جو سبب ہے یہ وہ چیزیں ہیں جسے آج امت نے بھلادیا۔اسی لئے اس پروگرام کے ذریعہ سے آپ دانشوروں کی خدمت میں یہ پیغام پہنچاناہے کہ سب مل کر اگر کچھ کام کریں گے تو ان شاء اللہ خیر وجود میں آئے گا۔ہماری صلاحیتیں کم ہیں ،مگر تمام صلاحیتیں والے جب جمع ہوجائیں گے کام ہوگا۔ہم لوگ صرف زبانیں باتیں کرتے ہیں ،جہاں بیٹھے بس یہ تذکرہ یہ یہاں یہ ہورہا ہے وہاں وہ ہورہا ہے،ہمارا کیسا ہوں گا ؟بولنے سے کہیں کام نہیں بنتا ،ہمارے بزرگوں نے بتادیا کہ:
کامیابی تو کام سے ہوگی
نہ کہ حسن ِ کلام سے ہوگی
آپس میں ہم چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھ کر رہ گئے ہیں،ہفتہ میںتین چار دن تو ایسے آتے ہیں کہ لوگ پہنچ کر کہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں جھگڑا ہے ،میاں بیوی کاجھگڑا ہے،ماں باپ کا جھگڑا ہے،توسنتے سنتے کبھی کبھی اظہارِ ناراضگی کے طورپر کہنا پڑتا ہے کہ’’عالم ِانسانیت کی رہنمائی کے لئے تمہارا انتخاب کیاگیااورتم اپنے گھروں کے چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھے ہوئے ہو۔‘‘اوراپنے اپنے معمولی معمولی اغراض سے اوپر نہیں اٹھتے ۔جب کہ ایمان اخلاص کا نام ہے ،اغراض سے جب تک اٹھیں گے نہیں اور اپنے ذاتی ،مادی ،نفسانی تقاضے کی تکمیل نکلیں گے نہیں،اس وقت تک کوئی کام کسی سے ہونے والا نہیں ،یہ سب چیزوں کو بھلاکر بڑے کام میں لگیں۔حدیثوں میں آتا ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا :کہ تم اپنے اللہ کو راضی کرنے والے اعمال میں (یعنی عبادت ) میں لگا دو،تو اللہ تمہارے سینوں کو فکروں سے خالی کردیں گے۔اس حدیث شریف میں لفظ عبادت ہے،اس لفظ عبادت کو لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد نماز ہے،یا اس سے مراد تلاوت ہے،ایسا نہیں ہے بلکہ پوری زندگی عبادت کرنا ہے،یعنی پوری زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق گزارنا ہے،پوری زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق گزارنا ہے کامطلب یہ ہے کہ اللہ کاحق بھی اداکرنا ہے ،مخلوق کا حق بھی اداکرنا ہے،حلال کمانا بھی ہے،بندوں پر خرچ کرنا بھی ہے،لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی ہے،دوسروں کے حقوق کو دبانے سے اپنے آپ کو بچانا بھی ہے،کسی پر ہونے والے ظلم وستم کو روکنا بھی ہے،کسی کا حق دلانے کی پوزیشن میں ہوتو اس کا حق دلانا ہے،تمام چیزیں عبادت ہیں،بلکہ بزرگوں نے یہاں تک فرمایا ہے کہ:مخلوق کی خدمت کے سوا عبادت کچھ نہیں۔عبادت بجز خدمت ِ خلق نیست۔عبادت تومخلوق کی خدمت کانام ہے۔اس لئے جب بڑی چیزوں میں (بڑے کاموں اور خدمات) میں نہیں لگیں گے تو چھوٹی چھوٹی چیزوں میں آپس میں الجھے ہوئے رہیں گے یاپھر ایسے کاموں میں رہیں گے جس کا نہ دین میں فائدہ نہ دنیا کا۔
اس پروگرام میں موجود نوجوانوں سے بھی آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی صحت کی قدر کریں،اپنے اوقات کو ضائع کرنے سے بچائیں،نوجوان ساری کتابوں چھوڑکر موبائل میں لگے ہوئے ہیں،جس سے ان کے اوقات بھی ضائع ہورہے ہیں اور قابلتیں بھی ختم ہورہی ہیں،اللہ کو طاقت نوجوان پسند ہے،ذہین انسان مضبوط جسم کی علامت ہے،جب نگاہوںکو،دل اور جذبات کو غلط جگہوں پر لگائیں گے تو پھر اس سے قوت وطاقت کہاں سے آئے گی۔ہم نے عبادت کے لئے فارغ نہیں کیا تو ہم حاجتوں میں ،ضروتوں میں اور مسائل میں الجھ کر رہ گئے،ہمیشہ سینہ مخلوقات سے جڑگیا،خالق سے ہٹ گیا۔
اللہ نے ہر ایک کو صلاحیتوں سے نوازا ہے،کسی کی کچھ اور کسی کی کچھ صلاحیت ہے،سب کے سب مل کر ایک بڑے مقصد کے لئے تمام امور میں اپنی توانائیوں کولگادیںتوپھر ایسی صورت میں کام صحیح ہوگا۔تمام اعضاء کی اہمیت برابر ہے۔اگر آپ بچوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے کی دلچسپی لے رہے ہیںآپ کا کام بھی بہت بڑا ہے،آپ بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو آپ کا کام بھی بڑا ہے،آپ بچوں کو ہنر سکھارہے ہیں حلال کمال کے لئے تو آپ کا کام بھی بڑا ہے،آپ مالدار ہے غریبوں کی مددونصرت کررہے ،ان کو کھلارہے ہیں،کپڑے پہنارہے ہیںآپ کاکام بھی بڑا ہے،کوئی ڈاکٹر ہے یاحکیم ہے مریضوں کا علاج مفت کررہاہے یہ کام بھی بڑا ہے،کسی کو صحیح راستہ معلوم نہیں ہے ،اس کو صحیح راستہ بتارہے ہیں یہ کام بھی بڑا ہے،سارے کاموں کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔
ہندوستان کے جو حالات ہیں یہ دوچار دن میں بنائے ہوئے نہیں ہیںاور یہ آئے ہوئی پانچ چھ سال کی حکومت کے نہیں ہیں،بلکہ ان کی محنت اور کوشش چل رہی ہے برسہا برس سے،کئی دہے گزرچکے ہیں،تب کہیں جاکریہ صورت حال سامنے آئی ہے،باطل پر لوگ مستقل لگے ہوئے ہیںاورہم حق کے اوپر جمتے نہیں ہیںڈٹے ہوئے نہیں رہتے،قائم نہیں رہتے،دوچار زورمیں اپنے سارے جذبا ت سرد خانے میں ڈال دیتے ہیں،ایسا نہیں بلکہ مسلسل اگر محنت ہوگی آج نہیں کل ،کل نہیں پرسوں ان شاء اللہ العزیز اس کے نتیجے نکلیں گے۔
اگر آج ہم محنت کریں گے تو ہماری نسلوں کو اس کا ثمرہ ملیں گا،اور ان شاء اللہ اس میں ہم بھی حصہ دار ہوں گے،مایوسی کی ضرورت نہیں ہے،ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں ہے،لوگوں کے منصوبوں کو دیکھ کر خوف کھانے کی ضرورت نہیں ۔وہ لوگ کئی دہوں سے محنت کررہے ہیں اس لئے آج یہاں تک پہنچے،اگر امت مسلمہ کام کے لئے کھڑے ہوگی،وہ چوں کہ صاحب ِ اغراض ہیںاورہم صاحب ِ اخلاص بن کر اگر کام کوشروع کریں گے تو کام بہت تیزی سے آگے بڑھے گا۔
اس لئے بھائیوں ہمت کریں ،اور کچھ کرگزریں دین کے لئے ،اپنے اللہ کی رضا کے لئے ،اسلام کی تعلیمات پر عمل کے لئے ،اور اس کی روشنی کو عام کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا ہمیں اہتمام کرناہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×