سیاسی و سماجیمفتی محمد صادق حسین قاسمی

لاک ڈاؤن سے متاثر ہ گھرانوں کی امداد؛اور ہماری ذمہ داری

عالمی وبائی بیماری ’’کورونا‘‘ کی وجہ سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔اس بیماری نے جہاں خوف ودہشت خوب پھیلائی اور بہت سے مسائل کھڑے کئے وہیں اس کی وجہ سے روز مر ہ کا م کرنے والے مزدور،یومیہ کماکر کھانے والے بے شمار ضرورت مند بے روزگار وبے کارہوگئے ،ان کے ذرائع آمدنی بند ہوگئے ،کیوں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورا نظام ٹھپ پڑگیا،دکانیں بند ہوگئیں ،تعمیراتی کام رک گیا،کاروبار ختم ہوکر رہ گیا ۔بھوک وفاقہ سے لوگ پریشان حال ہیں،ایک طرف اپنے گھر وںسے دور ہیں،دوسری طرف روزگاربھی نہیں ہے۔ان سخت ترین حالات سے ملک کے مختلف مقامات پر ضرورت مند لوگ گزررہے ہیں،ان حالات میں ریاستی حکومتیں ان کی ہر ممکنہ مدد کرنے،ان کے راشن اور کھانے کا نظم کرنے کی کوششیں کررہی ہیں ،راحت رسانی میں لگی ہوئی ہیں۔ایسے سخت حالات میں بہت سی رفاہی ،فلاحی تنظیمیں بھی ان ضرورت مندوں کی امداد اور غلہ واناج کے ذریعہ تعاون کررہی ہیں۔یقینا ایسے موقع پر ضرورت مندوں کی مدد کرنا انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے،اور اسلام نے مسلمانوں کو اس پر خوب زور بھی دیا کہ وہ بھوکوں کو کھاناکھلائیں ،ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش میں لگے رہیں،پریشان حال انسانوں کے کام آئیں ،بے سہارا لوگوں کے مددگار بنیں ،مسافروںکوراحت پہنچائیں،اپنے گردوپیش سے بے خبر نہ رہیں،اس کے پڑوس میں کوئی بھوکا رہنے نہ پائے ۔
اس سلسلہ میں قرآن وحدیث میں جو اہمیت بیان کی گئی ہے اور کھاناکھلانے کی ترغیب اور اس عمل کو انجام دینے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے اس کو مختصرملاحظہ کریں۔قرآن کریم میں طعم اور طعام کے مصدر سے 48الفاظ آئے ہیں ۔ان میں سے ایک تہائی یعنی 16الفاظ کھاناکھلانے کی تاکید اور فضیلت کے بارے میں یاکسی دوسرے صاحب ِ حیثیت کو کھاناکھلانے کی ترغیب وتحریض دلانے کے بارے میں ہیں۔( اسلام میں رفاہ عام کا تصور:86)
چناں چہ قرآن کریم میں نیک بندوں کی صفات کو ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیماواسیرا انما نطعمکم لوجہ اللہ لانرید منکم جزاء ولاشکورا ۔( الدھر:8،9)اور وہ اللہ کی محبت کی خاطر مسکینوں ،یتیموںاورقیدیوں کو کھاناکھلاتے ہیں،(اوراُن سے کہتے ہیںکہ:)ہم توصرف اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کھلارہے ہیں۔ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں،اورنہ کوئی شکریہ!۔جو لوگ بھوکوں کو کھاناکھلانے سے اعراض کرتے ہیں اور صاحب ِ حیثیت ہونے کے باجود کھانانہیں کھلاتے ان کے بارے میں سخت مذمت بھی آئی ہے ۔ایک جگہ ارشاد ہے:انہ کان لایؤمن باللہ العظیم ولایحض علی طعام المسکین ۔( الحاقہ :33،34)یہ نہ تو خدائے بزرگ وبرترپر ایمان لاتا ہے اور نہ غریب کوکھاناکھلانے کی ترغیب دیتا ہے ۔نیک لوگ جہنمیوں سے پوچھیں گے کن کاموں کی وجہ سے تم جہنم میں ڈالے گئے ؟تو جہنمی جہاں اپنے کرتوں کو بیان کریں گے وہیں یہ بھی کہیں گے:ولم نک نطعم المسکین ۔( المدثر:44) اورہم مسکین کو کھانانہیں کھلاتے تھے ۔مسکینوں اور بھوکوں کو کھلانے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایاگیا:فکلوامنھا واطعموالبائس الفقیر۔( الحج:28)چناں چہ ( مسلمانو!) اُن جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اورتنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو بھوکوں کو کھاناکھلانے کی ترغیب دی اور اس عظیم خدمت کی فضلیت اتنی بیان کی کہ ان حضرات کا معمول بن گیا تھا کہ خود بھوکے رہتے لیکن کسی کو بھوکا رہنے نہیںدیتے ،خود فاقہ برادشت کرلیتے لیکن کسی پڑوسی کو فاقوں میں رکھنا ان کے لئے مشکل تھا،ایثاروقربانی ان کے رگ وپے میں سرایت کرگئی تھی اور وہ مسافروں ،مسکینوں،محتاجوں اوربھوکوں کو کھلانے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ،اُ ن کی اِن ہی خوبیوں کی تعریف کرتے ہوئے قرآن میں فرمایاگیا:ولایجدون فی صدورھم حاجۃ ممااوتوا ویؤثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ ۔( الحشر:9) اورجو کچھ اُن ( مہاجرین) کو دیاجاتا ہے،یہ اپنے سینون میں اُس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے ،اوران کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں ،چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزررہی ہو۔
نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:ماامن بی من بات شبعانا وجارہ جائع الی جنبہ وھو یعلم بہ۔ (العجم الکبیر للطبرانی:751)کہ وہ آدمی مجھ پر ایمان نہیں لایا جو ایسی حالت میں اپناپیٹ بھرکے رات کو بے فکری سے سوجائے کہ اس کے برابر رہنے والا پڑوسی بھوکا ہواور اس آدمی کو اس کے بھوکے ہونے کی خبر ہو۔آپ ﷺ نے فرمایا:اطمعوالجائع ۔(بخاری:4979)کہ بھوکوں کو کھاناکھلاؤ۔ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:ایما مؤمن اطعم مؤمناعلی جوع اطعمہ اللہ یوم القیامۃمن ثمار الجنۃ۔( ابوداؤد:1434)کہ جو کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے اللہ تعالی اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا ۔ایک مرتبہ ایک صحابی نے نبی کریمﷺ سے سوال کیا:ای الاسلام خیر؟کہ بہترین اسلام کیا ہے؟نبی کریم ﷺ موقع کی مناسبت سے ان کو جواب ارشاد فرمایا:تعطم الطعام وتقری السلام علی من عرفت ومن لم تعرف۔(بخاری:12)کہ تم کھاناکھلاؤ اورجاننے اورنہ جاننے والوں دونوں کو سلام کرو۔اس طرح کے بہت سے ارشادات ہیں جن میںنبی کریمﷺ نے بھوکوں کوکھاناکھلانے کی فضیلت بیان کی اور عملی طور پر بھوکوں کو کھاناکھلاکر بتلایااور صحابہ کرام کو اس عمل پر ابھارا۔
یہ اسلام کی تعلیمات ہیںکہ بھوکوںکوکھلانا،پریشان حال لوگوں کی ضرورت کو پوراکرنے کی کوشش کرنا ۔پیغمبر اسلام سیدنا محمد رسول اللہﷺ نے عملی طور پر انسانوں کی خدمت کرکے اور ضرورت مندوں کے کام آکر قیامت تک آنے والے انسانوں کو بتایا بھی کس طرح خدمت کی جاتی ہے ۔
صدقہ و خیرات اور دوسروں کی امداد کرنے کے سلسلے میں بہت ہی اہتمام آپ ﷺ نے فرمایا ،اور اس میں سائل کی عزت نفس کی حفاظت کا بہت خیال فرمایاتاکہ اس کی حاجت بھی پوری ہو اور اس کی ساکھ بھی بنی رہی ۔دینے والے کو اس کا اجر بھی ملے گا ۔جس کے لئے دے رہاہے وہ اس سے بخوبی واقف بھی ہو گا اور ایک ضرورت مند کی ضرورت بھی پوری ہوگی ۔قیامت کے ہولنا ک دن میں جہاں سارے انسان نفسی نفسی کے عالم میں ہو گے ایسے سخت حالات میں جن خوش نصیب بندوں کو عرش کا سایہ نصیب ہوگاان میں ایک میں ایک وہ آدمی بھی ہوگا جو اس قدر چھپا کر صدقہ کرنے والا ہوکہ اس کے دائیں ہاتھ نے جو خرچ کیا ہو اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ :سبعۃ یظلھم اللہ فی ظلہ یوم لا ظلالا ظلہ۔۔۔۔ورجل تصدق اخفی حتی لاتعلم شمالہ ماتنفق یمینہ۔(بخاری:623)ایک حدیث میں فرمایا کہ :صدقۃ السر تطفیء غضب الرب۔( المعجم الصغیر للطبرانی:1023)چھپا کر کیا ہوا صدقہ اللہ کے غضب ہو ختم کردیتا ہے۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی اللہ تعالی کو محبوب ہیں اور تین ناپسندیدہ،تین محبوب بندوں میں ایک وہ بندہ ہے جوکسی قوم میں آکر ضرورت کا سوال کرے جن سے اس کی کوئی قرابت نہ ہو اور سب نے دینے سے انکار کردیا ،مگران میں ایک شخص ا ن سب سے الگ ہوکر چپکے سے اس سائل کو کچھ عطیہ اس طرح دے کہ اللہ تعالی اس لینے والے کے علاوہ کسی خبر نہ ہو۔( ترمذی:2509)
اس وقت بہت سی تنظیمیں ان خدمات کو انجام دے رہی ہیں ،اللہ تعالی ان تمام کو جزائے خیر عطا کرے ،اس سلسلہ میں ایک بات یہ بطور خاص ملحوظ رکھنی چاہیے کہ امدادی کاموں میں ضرورت سے زیادہ مستحقین کو تعاون دیتے ہوئے جو تصویرکشی کی جاتی ہے ،اس سے احتیاط کرنا چاہیے ۔ورنہ اس وقت ایک طوفان برپا ہے کہ معمولی امداد پر بھی مستحقین کے ساتھ تصویروں کی بھرمار ہے ،ایک پیکیج کئی کئی افراد مل کر ایک غریب وضرورت مند کودیتے ہیں،بے چارہ مجبوری ولاچاری کی وجہ سے اپنی غیرت کو دفن کردیتا ہے ،اولاد اور اہل خانہ کی فاقہ کشی اس کو مجبور کردیتی ہے ،ورنہ کو ن چاہتا ہے کہ ایک ہزار کے پیکیج کی تصویر پوری دنیا میں گھومے اور ہر کوئی اس کی مفلسی کو دیکھے۔اس غیر ضروری تصویروں کی وجہ سے ناجانے کتنے ضرورت مند ومجبور ایسے ہوں گے کہ وہ چاہ کر بھی امداد نہیں لیتے کہ کہیں ان کی تصویر عام نہ ہوجائے اور زمانہ بھر کی شرمندگی کا ذریعہ نہ بن جائے۔
اس کے لئے ایک طریقہ یہ بھی اختیارکیاجاسکتا ہے کہ ذمہ داران ایک ساتھ کھڑے ہوکر راشن اور سامان کے ساتھ تصویر لے لیں ،تاکہ ریکارڈ رہ جائے اور معاونین کو بتانے اور خدمات پیش کرنے میں کام آئے۔اگرکسی کو دیتے ہوئے کچھ تصویر یں لے لی بھی جائے تو کم از کم اس میں مستحق کے چہرہ کو چھپادیا جائے ،اور اس کی شناخت کوغیر معلوم کردیا جائے،باقی اپنے پاس ریکارڈ میں رکھ لیں،اس سے خدمت بھی ہوجائے گی اور ضرورت مند کی ضرورت بھی پوری ہوگی اور اس کی غیرت وعزت بھی بچ جائے گی،وہ جگ بھر میں شرمندہ ہونے سے بچ جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×