اسلامیات

زبان کو فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رکھیے!

زبان اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے،قوت ِ گویائی کا نصیب ہونا پروردگار ِ عالم کابڑا احسان ہے، زبان ہی ذریعہ انسان اپنے جذبات ،خیالات اوراحساسات کا اظہار کرتا ہے،انسانی جسم میں زبان کی بڑی اہمیت ہے،زبان ظاہری اعتبار سے مختصر ہے لیکن کام اور خدمات کے لحاظ سے بہت بڑی ہے۔زبان کے ذریعہ خیر بھی وجود میں آسکتا ہے اور شر کو بھی موقع مل سکتا ہے،زبان کے ذریعہ اچھائیوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور زبان ہی کے ذریعہ معاشرہ کو تباہ وبرباد کرنے میں کردار ااداکیا جاسکتا ہے۔فساد وبگاڑ،اصلاح ودرستی زبان کے صحیح استعمال پر موقوف ہے۔اس لئے نبی کریم ﷺ نے بہت اہتمام کے ساتھ زبان کے درست استعمال کرنے کی تعلیم دی او ر تاکید فرمائی ،قرآن کریم میں زبان کے اچھے استعمال کرنے کی بھرپور ترغیب دی گئی ہے۔
قرآن کریم میں فرمایاگیا:مایلفظ من قول الالدیہ رقیب عتید۔(ق ٓ:۱۸)انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا ،مگراُس پر ایک نگراں مقرر ہوتا ہے ،ہروقت(لکھنے کے لئے) تیار!۔‘‘زبان کے درست استعمال پر پورے جسم کی سلامتی ہے اور جیسے ہی زبان بگڑی تو آفت ومصیبت پورے جسم پر آجاتی ہے ،اس لئے انسانی جسم کے دیگر اعضاء زبان سے سلامتی کی درخواست کرتے ہیں۔نبی کریمﷺ نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا:جب آدمی صبح سوکر اٹھتا ہے تو سارے اعضا ء زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے واسطے اللہ سے ڈرتی رہ!اس لئے ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہے تو ہم سیدھے رہیں گے،اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم ٹیڑھے ہوں گے۔(ترمذی:۲۴۰۷)
زبان ہی کے استعمال پر انسان جنت یا جہنم کا حق دار بنتا ہے،اچھا استعمال کرکے جنت کا مستحق اور بُرا ستعمال کرکے جہنم میں داخل کیا جاتا ہے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا تم جانتے ہوکیا چیزلوگوں کو سب سے زیادہ جنت میں داخل کرے گی؟وہ اللہ کا تقوی اور خوش اخلاقی ہے۔اور کیا تمہیں معلوم ہے سب سے زیادہ کیا چیز لوگوں کو جہنم میں پہنچائے گی؟وہ دودرمیانی چیزیں ،یعنی منہ اور شرم گاہ ہیں۔( ترمذی:۲۰۰۴)نبی کریمﷺ نے یہ بھی فرمایا:جو شخص مجھ سے اس چیز کی ضمانت لے لے جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے(یعنی زبان) اور اس چیز کی جو اس کے پیروں کے درمیان ہے ( یعنی شرم گاہ) تو اس کے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں ۔(بخاری:۶۴۷۴)
ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:جو شخص تین چیزوں کے شر سے محفوظ ہوتا ہے وہ دنیا کے تمام شرور اور فتنوں سے محفوظ رہے گا۔(۱) لقلقہ:یعنی زبان کی فضول گفتگوکے شر سے محفوظ رہنا ہے۔(۲)قبقبہ:یعنی اپنے منہ کے شر سے محفوظ رہتا ہے ،اس کے منہ میں کبھی حرام اور ناجائز غذا نہیں پہنچ سکتی۔اور اپنے آپ کو تمام حرام غذاؤں سے دور رکھتا ہے۔(۳)ذبذبہ:یعنی اپنی شرم گاہ کے فتنوں سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے ۔(شعب الایمان :۵۱۴۱)انسان کے لئے بھلائی اور سعادت کی بات یہ ہے کہ وہ زبان سے اچھی بات نکالے یا خاموش رہے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہواسے چاہیے کہ یاتوخیر کی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔(بخاری:۶۰۱۸)زبان کی لغزش قدم کی لغزش سے زیادہ خطرناک ہے اور جتنا انسان زبان سے پھسلتاہے قدم سے نہیں پھسلتا ۔اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:بلاشبہ بندہ کوئی کلمہ کہہ دیتا ہے،اور صرف اس لئے کہتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے،اسی کلمہ کی وجہ ایسی ہلاکت والی گہرائی میں گرتاچلاجاتا ہے جس کا فاصلہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے جتنا فاصلہ آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔پھرفرمایا:بلاشبہ انسان اپنی زبان سے اتنا زیادہ پھسل جاتا ہے جتنا اپنے قدم سے نہیں پھسلتا۔(شرح السنہ:۴۱۳۱)
نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کو بھی زبان کے درست استعمال کی تعلیم دی ،اور ان کوکامیابی کا طریقہ یہ بتایا کہ زبان کو قابومیں رکھنے والے بنیں۔اس سلسلہ میں آپﷺ کے بہت سے ارشاد ات ہیں جو صحابہ کرام ؓ سے متعلق ہیں ان میں سے چند نقل کئے جاتے ہیں۔نبی کریمﷺ نے اپنے صحابی حضرت عقبہ بن عامر ؓ کو چند باتوں کی نصیحت فرمائی،جب انہوں نے نجات کا ذریعہ معلوم کرنے کے لئے نبی کرمﷺ سے سوال کیا تھا،ا ن میں سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ:احرس لسانک۔(مسند احمد:۱۶۸۸۳)اے عقبہ !اپنی زبان کی حفاظت کرو۔حضرت ابوذر ؓ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اے ابوذر!کیا میں تمہیں ایسی دو عادتیں نہ بتاؤںجو پیٹھ پر ہلکی (یعنی کرنے میں آسان)اور میزان عمل میں بھاری ہیں۔انھوں نے عرض کیا :ضرور بتائیں!تو آپﷺ نے فرمایا(۱)لمبی خاموشی ۔(۲)خوش اخلاقی ۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،مخلوق نے ان دو عادتوں سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں کیا۔(شعب الایمان:۸۰۰۶)ایک موقع پر ان سے یہ بھی فرمایا:تم لمبی خاموشی اختیارکرو،کیوں کہ اس کے ذریعہ شیطان ذلیل ہوکر دورہوگااور اس سے تمہارے دینی کاموں میں مدد ملے گی۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:جب تم کسی بندے کو دیکھو جسے دنیا سے بے رغبت ہونے اور کم بولنے کی نعمت دے دی گئی ہو تو اس سے قریب ہو جاؤ۔(یعنی اس کی صحبت اختیار کرو)کیوں کہ اس پر حکمت کا ارتقاء ہوگا۔(یعنی اللہ تعالی اس کے دل میں حکمت کی باتیں ڈالتے ہیں۔)(مشکوۃ)حضرت سفیان ابن عبداللہ ثقفی کہتے ہیں (ایک دن ) میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ!آپ میرے بارے میں جن چیزوں سے ڈرتے ہیں ان میںسب سے زیادہ خوفناک کونسی ہے؟حضرت سفیان کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے یہ سن کر اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایاکہ یہ چیز یعنی تمہارے بارے میں مجھے سب سے زیادہ ڈر اس زبان سے لگتا ہے کہ گناہ کی اکثر باتیں اس سے سرزد ہوتی ہیں ،لہذا تم اس زبان کے فتنہ سے بچو۔(ترمذی:۲۴۱۰)
زبان کی حفاظت کا اہتمام صحابہ ؓ اور اولیائے امت میں کس درجہ تھا اس کا اندازہ ان حضرات کے اس عمل سے لگائیے۔ایک دن حضرت عمر ؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے ،وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓاپنی زبان کھینچ رہے ہیں۔حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ ہائیں!اللہ آ پ کو بخشے ،یہ کیاکررہے ہیں؟حضرت صدیقؓ نے فرمایاکہ اس نے مجھے ہلاکت کے مواقع میں پہنچادیاہے،اس لئے کھنچ رہا ہوں۔(مشکوۃ مع مظاہر حق جدید:۴/۴۴۱)حضرت طاؤس نے فرمایاکہ میری زبان درندہ ہے،اگر اسے چھوڑدوں گاتو مجھے کھاجائے گا۔حضرت حسنؒ نے فرمایا کہ وہ شخص اپنے دین میں عقل مند نہیں ہے جو اپنی زبان محفوظ نہیں رکھتا ۔ایک بزرگ نے فرمایا کہ اگر تم کواپنی باتوں کی کتابت کے لئے کاغذخریدنے پڑتے تو اس کی قیمت کے بوجھ کی وجہ سے زیادہ بولنے سے رک جاتے ۔حضرت ربیع بن خثیم ؒ نے بیس سال تک دنیا کی بات نہیں کی اور جب بھی کوئی بات کرتے تو ایک دوات اور کاغذ اور قلم پاس رکھ لیتے تھے،جو بھی بات کرتے اس کو لکھ لیتے ،پھر شام کو اپنے نفس سے محاسبہ کرتے تھے کہ فلاںفلاں بات کس ضرورت سے کہی اور بقد رِ ضرورت کہی یا ضرورت سے زیادہ۔(زبان کی حفاظت:۱۴۲)
حضرت امام شافعی ؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص آکر ان سے سوال کرتا تو بعض اوقات امام صاحب دیر تک خاموش رہتے ،کوئی جواب نہ دیتے۔کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت !اتنی دیر ہوگئی،آپ کچھ بول ہی نہیں رہے ،کوئی جواب نہیں دے رہے ہیں !جواب میں فرمایا:حتی اعرف ان الفضل فی السکوت او فی الکلام ۔میں اس لئے خاموش ہوں کہ یہ دیکھ لوں کے خاموش رہنا زیادہ بہتر ہے یا بولنا زیادہ بہترہے۔( اصلاحی مجالس:۱/۱۴۴)
الغرض زبان جہاں بڑی نعمت ہے وہیں اس کی بڑی ذمہ داری بھی ہے۔زبان سے ظاہر ہونے والے بہت سے گناہ ہیں ،جس کو ہم نے یہاں ذکر نہیں کیا ،زبان کی حفاظت کے سلسلہ میں نبی کریمﷺ سے اور بھی ارشادات منقول ہیں ،اور صحابہ وبزرگان ِ دین کے سبق آموز واقعات بھی ہیں ،ان تمام کا احاطہ نہیں کیا گیا۔فتنوں کے اس دور میں انسان کے لئے بہت بڑی سعادت کی بات ہوگی کہ وہ اپنی زبان کا صحیح استعمال کرنے والا بن جائے ،ایک مومن کامل کی علامت ہی نبی کریمﷺ نے یہ بتائی ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے ،جب مسلمان ان باتوں کو پیش ِ نظررکھے گا تو پھر ہر لفظ سوچ سمجھ کر نکالے گا،اپنی زبان سے نکلنے والوں باتوں کے ذریعہ ظاہر ہونے والے نتائج پر غور وفکرکرے گا۔بدبختی اور بدنصیبی کی بات ہے کہ زبان کو بے لگام چھوڑدیا جائے اور ،جیسے چاہے اس کا استعمال کیا جائے،آداب اور فرقِ مراتب کو ملحوظ رکھے بغیر قینچی کی طرح زبان استعمال کرتے ہوئے عظیم شخصیات کو مجروح کرنے اور لعن طعن کرنے کو کمالِ علم وہنر سمجھاجائے۔اس وقت یہی فتنے ہیں جس میں لوگ مبتلاہوئے جارہے ہیں،علم وتحقیق کے نام پر بے جااور غیر ضروری باتیں خود بھی کررہے ہیں اور لوگوں کو اپنی پُرفریب باتوں میں الجھا رہے ہیں۔ایسے پُر خطر حالات میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی زبان کو فتنہ انگیزی کے لئے استعمال نہ کریں،ہماری زبان کے بول تعلیمات ِ دین اور مسلمات ِ اسلام پر حملے کرنے والے نہ ہوں۔زبان کے ذریعہ خیر پھیلانے والے بنیں،شر کو دفع کرنے والے بنیں،اتحاد کی دعوت کوعام کرنے والے بنیں،اختلاف وانتشار کو بڑھنے سے روکنے والے بنیں۔ورنہ کل قیامت کے دن خدا کے حضور ا س زبان کی بے جا بکواس اور ہفوات کا جواب دینا پڑے گااور اگر کسی صحابہ ٔ رسول ﷺ یا خداکے نیک بندوں کے خلاف زبان درازی کی گئی تو دنیاوآخرت میں انجام ِ بد سے دوچار ہونا پڑے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×