اسلامیات

رمضان کا تھکا مسافر تھکا ہے ایسا کہ سوگیا

       خاصان خدا کی دعائے سحر گاہی کا ثمرہ، علماء حق کے جذبہ ایثار و قربانی کا مظہر، مجاہدین اسلام کے جہد و اخلاص کی نمایاں برکت، علم معرفت کا حسین امتزاج، عبادت و بندگی کا حسین سنگم، مسلمانان عالم کے حیات ملّی کی صراط مستقیم، اور اس دور پُر فتن میں دینی آثار و اقدار اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا محافظ و علمبردار ماہ رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ گزرا، اور اس ماہ مبارک میں امت مسلمہ پُر زور و ہمہ تن اللہ کے اوامر کو بجالانے اور نواہی سے اجتناب کرنے میں مصروف رہی، اور ماہ رمضان المبارک  میں سرکش شیاطین بھی قید کیے جاتے ہیں، اور ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر  اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر بڑھا دیا جاتا ہے، اور اکثر مسلمان تو رمضان کی مبارک ساعتوں میں لڑائی جھگڑے، گالم گلوج سے بھی بالکلیہ گریز کرتے رہے، ایثار و ہمدردی محبت و بھائی چارہ کو اختیار کئے ہوئے تھے، اور ناچ گانے، فلم بینی جیسے معاصیات سے پرہیز کرتے رہے، علاوہ دیگر ایام کے ماہ رمضان المبارک میں لباس بھی سنتی رہا، معاملات میں نرمی نظر آتی تھی، مسجدیں آباد تھیں، تہجد کا اہتمام رہا، تلاوت قرآنی کی کثرت رہی، جس کی وجہ سے گھروں میں برکتیں اور وسعتیں تھیں، شب قدر کی سعادتیں ہمیں نصیب ہوئیں، اور بعض اللہ کے نیک بندے عید کی رات میں( جس کا نام آسمانوں پر” لیلۃ الجائزہ” ہے) عبادتوں میں مصروف رہے، اور صدقہ فطر کا اہم فریضہ ہم نے ادا کیا، اور عید کی مبارک خوشیاں ہمیں میسر آئیں، مگر جب رمضان المبارک کا مہینہ جیسے ہی ختم ہوا، اور عید کی پر مسرت مبارکبادیاں مکمل ہوگئیں، تو پھر اللہ کے گھر کو آباد کرنے والے صرف چند لوگ باقی رہ گئے،تو ہم خود غور کریں کہ کیا ہم صرف رمضان کے مسلمان ہیں؟ کیا دین اسلام صرف رمضان کے حد تک محدود ہے؟کیا  روز محشر میں صرف رمضان المبارک کے بارے میں ہی سوال کیا جائے گا؟ کیا قرآن مجید غیر رمضان میں صرف تختیوں میں سجانے کے لیے ہے؟ کیا نماز صرف رمضان المبارک میں پڑھی جانے والی عبادت ہے؟ یا پھر ہمارے اندر سے جنت کا شوق اور جہنم کا خوف ختم ہوگیا؟ یا تو پھر عبادت کا شوق صرف رمضان المبارک کا مہمان تھا؟ یا پھر رمضان کا تھکا مسافر تھکا ہے ایسا کہ سوگیا؟ حالانکہ حدیث شریف میں آتا ہے، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:إنما یدخل الجنة من یرجوھا وإنما یجنَّب النار من یخافھا وإنما یرحم الله من یرحم (شعب الایمان ٤٧٣/١) جنت میں وہی آدمی داخل ہوگا جس کے اندر جنت کا شوق ہو گا، اور جہنم سے وہی آدمی بچایا جائیگا جس کے اندر جہنم کا خوف ہوگا، اور اللہ تعالی اس آدمی پر رحم کریں گے جو دوسروں پر رحم کرتا ہوگا، اب ہم خود اپنے گریبان میں جھانک کر غور کریں کہ ہمارے اندر کتنا جنت کا شوق ہے؟ اور کتنا ہم جہنم سے خوف کرتے ہیں؟ اگر اپنے اندر جنت کا شوق  اور جہنم سے خوف ہوتا تو ہم صرف رمضان کے مسلمان نہ ہوتے! اور ہماری مسجدیں رمضان کے بعد ویران نہ ہوتیں! اور ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کے اوامر پر چلنا اور منہیات سے بچنا آسان ہوتا! مساجد ہمیشہ آباد رہتیں! اور گھروں میں پریشانیاں اور مصیبتیں داخل نہ ہوتیں! کیا ہمیں اللہ کے سامنے حاضر ہونا نہیں ہے؟ کیا روز محشر قائم نہیں ہوگا؟ یا پھر ہمارا حساب کتاب نہیں ہوگا؟ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ (سورة مؤمنون ١١٥)
کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا گیا ہے؟ اور تم ہمارے پاس لوٹائے نہیں جاؤ گے؟
 جا بجا قرآن مجید میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے، اور زندگی کا مقصد پیش کیا گیا، اس کے باوجود امت مسلمہ دنیا کو ہی اپنا مقصد بنا کر ر ب کی نافرمانی میں لگی ہے، پھر شکایت رہتی ہے کہ ہمارے کاروبار میں برکت نہیں ہے، ہمارے گھر پر سایہ ہوگیا ہے، ساری چیزوں کا حل اللہ تعالی نے اپنے دین متین پر چلنے اور اس پر جمے رہنے میں رکھا ہے، حتی کہ بیماریوں سے شفاء قرآن مجید کی آیات کے اندر رکھا ہے، اس سلسلے میں بے شمار واقعات ہیں اگر طویل مضمون کا خدشہ نہ ہوتا تو ذکر کردئیے جاتے-
حرف آخر
      بالخصوص ایسے لوگوں سے میں دست بستہ التماس کرتا ہوں، جو بُرے آدمیوں کی صحبت اور دوستی میں لگے رہتے ہیں، ہمیں تو برے آدمیوں کی صحبت اور دوستی سے اجتناب کرنا چاہیے، برا آدمی وہ ہے جو ہم کو گانا سننے یا فلم بینی یا پھر کسی اور گناہ کی طرف دعوت دے، خواہ وہ آدمی اپنا قرابت دار یا قریبی دوست ہی کیوں نہ ہو، وہ درحقیقت ہمارا دوست نہیں بلکہ ہم کو تباہی کے دہانے پر لے جانے والا شخص ہے، ایسے ہی دوست کے بارے میں انسان قیامت کے دن افسوس کرے گا اور کہے گا کہ :یَا وَیْلَتـ’ی لَیْتَنِيْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً (سورة فرقان :٢٨)
ہائے میری بربادی! کاش کہ میں فلاں شخص کو دوست  نہ بنایا ہوتا-
 دنیا میں ہم اپنی آخرت کی تیاری کر سکتے ہیں، ہم اپنی آخرت کو دنیا میں سنوار بھی سکتے ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے برباد بھی کر سکتے ہیں، کتنا اچھا ہے کہ ہم اپنی آخرت دنیا میں ہی بنا لیں، تا کہ میدان محشر میں کف افسوس نہ ملنا پڑے، ہم اپنے کردار کو اتنا بلند کریں کہ دوسرے لوگ دیکھ کر کہیں کہ اگر امت ایسی ہے تو نبی کیسے ہوں گے-
 ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہم کو دین پر چلنے اور اس پر جمے رہنے کی توفیق عطا فرمائے( آمین)
            abdurrazzaq825@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×