اسلامیات

عیدالفطر-اسلامی تہذیب وتمدن کا علمبردار

     دنیا میں ہر آباد قوم و ملت کے اپنے کچھ خاص تہوار ہوتے ہیں، جن سے ان کی قومی و ملی تہذیب و تمدن کا آشکارا ہوتا ہے، عید الفطر بھی مسلمانوں کا ایک خاص تہوار ہے، جس میں اللہ تعالی کی جانب سےرمضان المبارک کے اختتام پر روزے داروں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے، اور عید الفطر اسلامی تہذیب و تمدن کا علمبردار ہوتی ہے، سارے مسلمان میدان میں جمع جمع ہوکر رب کی بندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور مسلمان اس میں خوشی و مسرت کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں، حدیث پاک میں آتا ہے، کہ جب عید الفطر کی رات ہوتی ہےتو اس کا نام آسمانوں پر”لیلۃ الجائزہ” انعام کی رات سے لیا جاتا ہے، اور جب عید کی صبح ہوتی ہےتو اللہ تعالی فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتےہیں، اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں، کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت، اس کریم رب کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے، قصوروار کو معاف کرنے والا ہے، پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں، کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں، کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دیدی جائے، تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی، اور بندوں سے خطاب فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میری عزت کی قسم میرے جلال کی قسم، آج کے دن اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پرستاری کرتا رہوں گا، (اور ان کو چھپاتا رہوں گا) میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ تم نے مجھے راضی کیا اور میں تم سے راضی ہوگیا، بس فرشتے اس کے اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو افطار کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں، (الترغيب والترھیب حدیث: ١٦١٨)
اسلام ایک ایسا مبارک دین اور مذہب ہے جس کی مذہبی اقدار اور تعلیمات لہو ولعب سے کوسوں دور اور خرافات کے شائبہ سے بالکلیہ پاک ہیں، چنانچہ اسلامی شریعت نے جہاں انسانی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے متبعین کے لئے عید کا دن خوشی اور مسرت کے لئے تجویز کیا ہے، وہیں ان میں پُر عظمت عبادت دو گانہ نماز عید واجب کر کے خوشی کے جذبات کے ساتھ معرفت خداوندی اور شکر نعمت جیسے واجبات کی طرف بھی توجہ دلائی ہے، عید محض مذہبی تیوہار نہیں  بلکہ انعامات خداوندی کی شکرگزاری کا دن ہے، وہ منظر بڑا خوش نما  اور عبرت آمیز ہوتا ہے، جب ایک ہی دن، ایک ہی وقت میں، ایک ہی انداز میں، اور ایک ہی جذبے کے ساتھ دنیا کے قریے قریے، چپےچپے، شہر در شہر، مسجدوں میں، میدانوں میں،  سڑکوں پر، عید گاہوں میں، سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، بلکہ کروڑہا کروڑ فرزندان توحید بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو کر نہ صرف جذبات کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اسلامی اخوت کی شاندار مثال بھی پیش کرتے ہیں، جب اجلے اجلے لباس پہنے، بچے، بوڑھے، اور جوان عید کی خوشیاں مناتے ہیں، اور اپنے پروردگار کی تسبیح و تحمید میں مشغول نظر آتے ہیں، تو دیکھنے والے کا دل عظمت ایزدی سے سرشار اور روح ایمانی سرور سے مسرور  ہو جاتی ہے، رحمت کے فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں، بڑے بڑے مجامع میں عاجزی و انکساری اور تضرع وزاری کے ساتھ  دعا کے لئے اٹھنے والے ہاتھ رحمت خداوندی کے بے پایاں نزول کا سبب بن جاتے ہیں،
*صدقہ فطر ایک مذھبی فریضہ*
       روزے دار کتنا ہی اہتمام کرے روزے کے دوران کچھ نہ کچھ کوتاہی ہو ہی جاتی ہے،  کھانے پینے اور روزہ توڑنے والی باتوں سے بچنا تو آسان ہوتا ہے، لیکن لغو کلام، فضول مصروفیات، اور نامناسب گفتگو سے  مکمل احتراز نہیں ہوپاتا، اس لیے اس طرح کی  کوتاہیوں کی تلافی کے لئے شریعت میں رمضان المبارک کے ختم پر صدقہ فطر کے نام سے گویا کہ روزے کی زکوۃ الگ سے واجب قرار دی گئی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ فرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زکاۃ الفطر طھرۃ للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساکین من ادّاھا قبل الصلاۃ فھی زکاۃ مقبولة ومن ادّاھا بعد الصلاۃ فھی صدقة من الصدقات (ابوداؤد حدیث: ١٦٠٩) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو ضروری قرار دیا، جو روزے دار کے لئے لغو اور بے حیائی کی باتوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہے، اور مسکینوں کے لئے کھانے کا انتظام ہے، جو شخص اسے عید کی نماز سے پہلے ادا کردے تو یہ مقبول زکاۃ ہوگی، اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے-
اس روایت سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر واجب ہونے کے دو مقاصد ہیں (1) روزے کی کوتاہیوں کی تلافی، نمبر (2) امت کے مسکینوں کے لیے عید کے دن رزق کا انتظام، تاکہ وہ بھی اس روز لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں، اسی لئے پیغمبر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا. اغنوا ھم عن السؤال فی ھذا الیوم (منھاج المسلم: ٤٣٤) یعنی اس دن مسکینوں پر اتنا خرچ کرو کہ وہ سوال سے بے نیاز ہو جائیں، اس لیے صاحب وسعت مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ صدقہ فطر بروقت ادا کرنے کا اہتمام کریں جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا کہ نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا ایک مقبول صدقہ ہے، اسی بنیاد پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دو تین دن پہلے ہی صدقہ فطر ادا کر دیا کرتے تھے(ابوداؤد حدیث: ١٦١٠) اور یہ مناسب بھی ہے، تاکہ مستحقین پہلے ہی سے عید کی تیاری کرسکیں،
آخر میں عید الفطر کے اس پرمسرت موقع پر ہم اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو عید کی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کے روزے اور رمضان المبارک کی عبادتوں کو قبول فرمائے (آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×