سیاسی و سماجیمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

حیدرآباد کی سیلابی صورتحال۔اور مثالی جذبہ خدمت خلق

شہر حیدرآباد شروع ہی سے مہمان نوازی، سخاوت ودریا دلی، باہمی تعاون ، فروغ ِ انسانیت کے حوالے سے مشہور ومعروف رہا ہے ، کہیں بھی کوئی آفت سماوی زلزلے، فتنے وفسادات، سیلاب باڑ وغیرہ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے ، شہر حیدرآباد کے باسیان اپنی داد ودہش اور سخاوت کا دروازہ کھول دیتے ہیں، یہ ملی سماجی اور فلاحی تنظمین لوگوں کے نقصانات کی تلافی اور پابجائی کرنے میں ہمہ تن مصروف ہوجاتی ہیں، شہر حیدرآباد میں جو سیلابی صورتحال پیدا ہوئی، اور شہر کے کئے علاقے سیلاب اور پانی کی زد میں آگئے، لوگوں کی گھروں اور سامان اور گھر کے استعمال کی اغذیہ اجناس کپڑوں، استعمال کے برتن فریج کولر وغیرہ کا بہت بڑا نقصان ہوا، کئی جگہ تو دیواریں بھی ڈہہ گئی، لوگوں کو کئی روز اپنے گھروں سے دور رہنا پڑا، گھر واپسی پر ان کے گھر بالکل ویران پڑچکے تھے ،سیلاب نے نہ صرف یہ کہ ان مکینوں کی رہائش کو کمزور کیا تھا، نقصان پہنچایا تھا، بہت ساری جگہوں پر گھروں کے سامان بہتے پانی کے نذر ہوگئے ، بلکہ آٹو ٹرالی ، کاروں سمیت بائیک وغیرہ بھی پانی کے نذرہوگئے ، بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا، ملی فلاحی تنظمیں ، خصوصا شہر حیدرآباد کی فلاحی تنظیموں نے خوب جدوجہد کی، باسیان حیدرآباد نے اپنی داد ودہش کے دروازے وا کردیئے، تنظیمی سطح پر جو کام ہوئے ، اس میں نہایت منظم اور مرتب انداز میں لوگوں کے لئے تحقیق اور سروے کے بعد ان متاثرین کی ممکنہ حد تک امداد کی کوشش کی ، ابھی بھی تنظیموں او رافراد کی جانب سے بڑے پیمانے پر متاثرہ لوگوں کے سروے کے بعد لوگوں تک ان کے نقصان کی تلافی کے لئے امداد کے پہنچانے کا کام بڑا سطح پر کیا جارہا ہے ۔جس میں مقامی سطح کے لوگوںخصوصا وہاں کے کارکنان وعلماء کا بڑا رول رہا ہے کہ انہوں نے ان تنظیموں کے تعاون سے مستحقین افراد تک ضروری امداد پہنچانے میں بڑی مدد کی ۔
خدمت خلق در اصل یہ خدمت خالق ہے ، خدمت خلق بھی دین کا ہی ایک شعبہ ہے ، حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں خدمت انسانیت کے بے شمار نمونے ملتے ہیں، قرآن میں بھی خدمت خلق کی تاکید کی گئی ہے ، مختاجوں فقراء ، ایتام اور بیواؤں اور سائلوں کے حقوق کی تاکید کی گئی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات کے ذریعہ مخلوق جو در اصل کنبہ خدا ہے ، ان کی امداد پر ابھارا، ارشادنبوی ہے ، تم میں بہتر شخص وہ ہے جو لوگوں کے نفع بخش ہو، اور یہ بھی ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے، اسی طرح نبوی ارشاد گرامی ہے : جو شخص اپنے بھائی کی دنیوی مصیبت میں سے کسی مصیبت کو دور کرتا ہے تو اللہ عز وجل روز قیامت اس کے وہاں کی مصیبت کو دور کرتے ہیں، یہ بھی ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ، مخلوق خداکاکنبہ ہے ، اللہ کو محبوب وہ شخص ہے تو اس کے اس کنبہ کے ساتھ بہتری کرے اور ایک ارشاد نبوی ہے : تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والاتم پر رحم کرے گا ۔
۱۔ہرفرد نے اپنی وسعت بھر متاثرین کی باز آبادکاری کے لئے مالی بلکے جسمانی تعاون بھی پیش کیا، مدارس کے طلباء کی تنظیمییں اور تبلیغی جماعت کے حضرات گھروں سے پانی نکلنے کے بعد صفائی وستھرائی کے لئے تمام سامان کو خود لے کر گھروں کی صفائی کا کام انجام دے کر اپنی انسانیت نوازی کا بڑا ثبوت پیش کیا، گھر میں سے کیچڑ کو نکالا، گھر کو صاف وشفاف انداز میں ضروری چیزوں کا چھڑکاؤ کر کے اس خدمت کو انجام دیا، جس کی وجہ سے علماء وطلباء اور تبلیغی جماعت کے حوالے ان کی انسانیت نوازی اور خدمت خلق کا جذبہ بے پناہ نے انسانی دلوں پر بڑا اچھااثر کیا ، نبوی سنت زندہ ہوئی کہ نبی کریم ﷺ لوگوں کی امداد رسی کرتے اوران کے بازار سے سامان وسودا وسلف لا کر دیتے ، ان کی ضروریات کی دیکھ ریکھ کرتے، بیماروں کی عیادت کرتے، بعض گھرانے کے لوگوں نے ان کی خدمت سے متاثر ہو کر ان کو کچھ رقم دینا چاہی تو انہوں نے انکار کردیا ۔
۲۔ تنظیمی سطح پر ’’صفابیت المال‘‘ نے روز اول سے ہی اپنی خدمات کا دروازہ کھول دیا، پہلے ہی مرحلے غذائی پاکیٹس وغیرہ کی خدمات انجام دی، لوگوںکو پانی سے نکالنے کے لئے اپنے کارکنان کو مصنوعی کشتیوں کے ذریعہ نکالنے پر معمور کیا، ابتدائی مرحلے میں بڑے تندہی کے ساتھ صفا کے کارکنان نے بڑی سطح پر زمینی خدمات انجام دی، پھر اس کے بعد مختلف علاقوں میں سروے کے بعد صفا کے روح رواں حضرت مولانا غیاث احمد رشادی صاحب دامت برکاتہم جو خدمت خلق کا جذبہ پے پناہ اپنے اندر رکھتے ہیں، دردر گھر گھر خود بھی گھوم پھر کے زمینی سطح پر لوگوں کے احوال سے واقف ہوتے ہیں، جس کا مشاہدہ اپنی بستی میں ان کی معیت میں کیا ہے تنہا میرے ساتھ دو گھنٹے تک سخت دھوپ میں مستحقین کی تحقیق وجستجو کرکے ان تک امداد پہنچائی، مولانا اولین مرحلے میں زیادہ متاثرین کے لئے 10000؍کا ٹوکن اور جزوی متاثرین کے لئے 5000 کا ٹوکن فراہم کیا، جس میں یہ سہولت رکھی گئی کہ کسی فنکشن ہال میں ڈیڑھ سے زائد مختلف اشیاء کو وہاں فراہم کر کے وہاں پر اپنی ضرورت کے سامان کے لئے شاپنگ کا موقع فراہم کیا، ورنہ براہ راست امداد پہنچانے میںضرورت کے لحاظ سے سامان کے حصول میں مشکل ہوسکتی تھی، جس کو انہوں نے متاثرہ علاقوں میں مکمل طور مرحلہ وار کروڑوں روپیئے کے اخراجات کے ذریعہ امداد فراہمی کا کام انجام دیا۔سمختلف مراحل میںپچاس لاکھ کے ٹوکنس تقسیم مرحلہ وار لوگوں میں تقسیم کئے گئے ۔ابھی تک بھی سلسلہ جاری ہے ، پورے متاثرہ علاقوں کا احاطہ کیا جارہا ہے ۔
اس کے علاوہ سیلاب سے متاثرہ 15 غریب لڑکیوں کی شادی کیلئے دوسرے مرحلہ میں فی کس 20000 روپئے جملہ 3,00,0000 (تین لاکھ)روپئے کی امداد دی گئی۔ صفا بیت المال انڈیا نے متاثرہ علاقوں کی ان غریب خاندانوں کی سروے ٹیم کے ذریعہ تحقیق کی اور آج دفتر صفا بیت المال پر ان لڑکیوں کے سرپرستوں کو بلایا گیا اور ان کے لئے امداد جاری کی گئی۔ فی کس 20000 روپئے کے علاوہ فی کس 50 کلو چاول بھی دیئے گئے۔ واضح ہوکہ صفابیت المال نے پہلے مرحلہ میں تیس متاثرہ غریب لڑکیوں کے لئے جملہ 6,00,000 (چھ لاکھ)روپئے اور 15 کنٹل چاول دئیے گئے۔ یہ ایسے خاندان ہیں جنہوں نے عرصہ سے اپنی معصوم بچیوں کی شادی کے لئے کپڑے، الیکٹرانک ایٹمس، فرنیچرس و دیگر اشیا جمع کئے تھے۔ ان کا یہ سارا ساز و سامان حالیہ سیلاب یا کیچڑ میں لت پت ہوگیا جو ناقابلِ استعمال ہوگیا۔ صفابیت المال تیسرے مرحلہ میں مزید غریب و متاثرہ لڑکیوں کی شادی میں امداد کرے گا۔
۳۔ جمعیۃ علماء ہند نے بھی بڑے وسیع پیمانے پر امداد فراہمی کا کام انجام دیا، متاثرہ علاقوں میں راشن، ضرورت کے ساز وسامان پہنچائے ، لوگوں کی چھان بین کے بعد وسیع طور پر خدمات انجام دی، جمعیۃ علماء ہند شاخ تمل ناڈ کی جانب سے ابھی 47لاکھ کی امداد حافظ پیر شبیر صاحب کے حوالے کی گئی ، ہنگامی طور پر تو جمعیہ نے اشیاء ضروریہ کا نظم کیا، مستقل میں سیلاب سے متاثرہ مکانات تعمیر نو (باز آبادکاری ) کا بھی ارادہ رکھتی ہے ، اس لئے اس وقت بہت سارے علاقے ابھی تک ہنوز زیر آب ہیں، جن میں عثمان نگر، سیف کالونی، احمد نگر ، محمد نگر، عبد اللہ نگر وغیرہ شامل ہیں ۔دار العلوم رحمانیہ سمیت دیگر مدارس اور فنکشن ہال وغیرہ کو لوگوں کی رہائش اور وقتی راحت وآرام کا سامان مہیا کیا گیا۔
70 سے زائد ایسے متاثرین جن کے چھوٹی اور بڑی دوکانیں تھیں جو بارش وسیلاب کی نذر ہوگئی۔ ان لوگوں کو دوکان وغیرہ کا سامان دلاکر ان کو روز گار سے مربوط کیا تاکہ یہ لوگ دوبارہ اپنے کاروبار سے وابستہ ہوجائیں ۔اسی طرح ایسے خواتین جو سلائی وغیرہ کرکے اپنا گھر چلاتی تھیں ایسی70سے زائد خواتین میں سلائی مشین کی تقسیم عمل میں آئی تاکہ یہ خواتین دوبارہ خود کفیل ہوسکے۔ پیاز،فروٹ اور ترکاری وغیرہ فروخت کرنے والے افراد جن کی ٹھیلہ بنڈیاں بارش کے پانی میں بہکہ کر چلے گئے تھییا خراب ہوگئے ایسے50 سے زائد افراد کونئے ٹھیلہ بنڈی کے ساتھ پیاز , فروٹ , اور ترکاری , چو ڑیاں , کانچ کا سامان اسٹیشنری اور کراکری کا سامان دیا گیا ۔ریاستی جمعیۃ علمائ کی جانب سے پہلے مرحلہ میں 17500 سے زائد متاثر لوگوں میں کھانے کے پیاکٹس وغیرہ کی تقسیم عمل میں آئی, دوسرے مرحلہ میں 6300 سے زائد خاندانوں میں راشن،کپڑے، چادر اور گھریلو سامان فراہم کیا گیا۔ تیسرے مرحلہ میں 170سے زائد افراد کو روزگار سے مربوط کیا گیا۔ اگلے مراحل میں آٹو موٹر گاڑی اور جن کے مکانات متاثر ہوئے ہیں ان کی جزوی مرمت کا کام سروے کے بعد کیا جائے گا ۔
۴۔اس طرح مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھی بڑے پیمانے پر متاثرین کی امداد کی ، تین قسم کے کٹس بیک وقت تقسیم کی گئیں،ین طرح کی کٹس میں مردانہ، زنانہ کپڑے، برتن،مشقاب، گلاس، کٹورے، گیاس کا چولہا، بکٹس، ٹب ، آئرن ، شطرنجی ، بیڈشیٹ، بلانکٹس وغیرہ جملہ 23 آئٹمس شامل تھے۔
۵۔جماعت اسلامی ہند کا طلباء کا شعبہ ایس آئی او کے تحت نواجوانوں کی بے مثالی خدما بھی منظر عام پر آئیں، اشیاء خورد ونوش کے علاوہ مکانات کی صفائی کا منظم کام اس تنظیم کے تحت انجام دیا گیا، مختلف سطح پر خوب خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔
۶۔قصد السبیل ٹرسٹ محبوب نگر کی جانب سے بھی مولانا نعیم کوثر صاحب نے بھی بڑے سطح پر امداد فراہمی کا کام انجام دیا، چھ چھ ہزار پر مشتمل کٹس متاثرہ علاقوں میں تقسیم کئے گئے ، متاثرین علماء وحفاظ کو بشکل رقم مساجد میں عوام سے ہٹ کر احتراما مساجد میں انتظام کیا گیا ۔
۶۔محترم اکرام الدین ابو ایمل صاحب جو گراؤنڈ رپورٹنگ کرتے ہیں، انہوں نے بھی اپنے وابستان کے ذریعہ مختلف قسم کی امداد ہر جگہ پہنچائی، لوگوں کو ترغیب دی، خدمت خلق کے کاموں پرابھارا، انسانیت نوازی کا درس دیا اور لوگوں کی ضروریات کو مختلف انداز میں پورا کیا۔
ایسے ہی بے شمار ان جی اوز ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن ، آل انڈیا بیت الامداد ٹرسٹ،امانات الخیر ٹرسٹ، مفتاح الخیر ٹرسٹ، امداد الفقراء فانڈیشن ، عنایہ چیر ٹیبل ٹرسٹ مختلف انداز سے اغذیہ اجناس، سامان ، میڈیکل کیمپس وغیرہ کے ذریعے امداد فراہم کی گئی ۔
تنظیموں اور ان کے کارکنوں اور انفرادی طور پر عوام نے بھی بڑی خوب خدمت کی جو بڑے اجر وثواب کے مستحق ہیں ، اللہ سب کو جزائے خیر دے ۔
مزید کرنے کے کام
۱۔ویسے قدرتی آفات یہ ہماری بداعمالیوں کے نتائج ہوتے ہیں، اس لئے اللہ کی طرف لو لگانے اور اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ، امر بالمعروف اور انہی عن المنکر کا بھی اہتمام کریں، لوگوں کو بھلائی کی دعوت دیں برائی سے روکیں۔
۲۔ مخلوق خدا جہاں بھی آفت ومصیبت اور بلیات میں گھر جائے ، مخلوق خدا کی مدد کے لئے دست تعاون دراز کریں، اجتماعی شکل میں مصیبت زدہ لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کا ساز وسامان کریں، یہ عمل اللہ عزوجل کو بہت پسند ہے ، ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق ضرور دے کچھ نہ کچھ سہی ، متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے آگے آئے، حضرت شاہ جمال الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے ایک دفعہ علماء سے بھی فرمایا تھا کہ اپنی حیثیت کے مطابق ضرور خرچ کریں۔
۳۔لوگوں کے لئے ان کی ضروریات کی اشیاء اور سامان کی فراہمی کریں، ابتدائی سطح میں جو کچھ بھی کام ہوا ہے ، وہ ہنگامی سطح کا کام تھا، اب اس کے بعد واقعی متاثرین کی واقعی امداد کے لئے گھر گھر پہنچ کر ان کی بپتا ااور کہانی سن کر ان کی واقعی ضروریات کی تکمیل کریں جیسے صفا بیت المال اور جمعیۃ علماء ہند کام کررہی ہے ۔
۴۔اپنی مرضی سے سامان کی فراہمی کی کوشش نہ کریں ؛ بلکہ لوگوں کی مرضی سے ان کا ضائع شدہ سامان کی بحالی اور فراہمی کا کام کریں،اس طرح ان کے درد کا مدوا ہوسکتا ہے ۔
۵۔متاثرہ علاقوں میں طبی کیمپس کے انعقاد کی کوشش کریں ،ادویہ فراہم کریں ۔
۶۔ابھی بہت سارے علاقے زیر آب ہیں، جو آہستہ آہستہ پانی کی زد سے خالی ہوںگے توان گھروں کی صفائی ومرمت کے کام میں تنظیمی اور انفرادی سطح پر کام کریں ۔
۷۔اس کے علاوہ اللہ کی طرف لولگائیں، اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ عزوجل ہمیں دنیا وآخرت دونوں جہاں کی کامیابی سے ہم کنار کرے اور ان مصائب ومتاعب سے ہمیں چھٹکارا اور نجات عطا فرمائے اور ہر طرح بیماریوں اورمصیبوں سے ہمیں نجات دے ، ہمیں اپنا فرماں بردار بندہ بنائے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×