اسلامیاتمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

بندے ہو رب کے تو رب سے مانگو

آج ایک واقعہ پر نظر پڑی ، بڑا عبرت خیز، دل کو جھنجوڑ نے والا، مناسب سمجھااسی واقعہ کی روشنی میں ایک تحریر قلم بند کی جائے، واقعات نہایت ہی زیادہ اثر انگیزی رکھتے ہیں، واقعات کے ذریعے بات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے ۔پہلے واقعہ سنئے ، پھر مضمون کی طر ف چلتے ہیں۔
ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر کسی ویرانے میں پہنچا جہاں ایک جھونپڑی تھی اس میں رہنے والے شخص نے مسافر سمجھ کر بادشاہ کی بڑی خدمت کی جس پر بادشاہ بہت خوش ہوا جب جانے لگا تو اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور کہا:تم مجھے نہیں جانتے کہ میں بادشاہ ہوںیہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو جب کبھی کوئی ضروت پیش آئے تو ہمارے محل آجانا دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھا دینا ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرادے گا یہ کہتے ہوئے بادشاہ چلا گیا کچھ دن بعد جب اس شخص کو کوئی ضرورت پیش آئی تو وہ بادشاہ کی طرف روانہ ہوا محل کے دروازے پر پہنچ کر کہا بادشاہ سے ملنا ہے دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اس کی کیا اوقات ہے بادشاہ سے ملنے کی کہنے لگا نہیں مل سکتے اس شخص نے پھر وہ انگوٹھی دکھائی اب جو دربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس۔۔۔۔؟ بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جو لیکر آئے گا ہم جس حالت میں ہوں اسے ہمارے پاس پہنچا دیا جائے چنانچہ دربان اسے ساتھ لیکر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا دروازہ کھلا ہواتھا اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے اب یہ جو شخص وہاں چل کر آیا تھا پھر اس کی نظر پڑی کہ بادشاہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے یہ دیکھ کر وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا دربان نے کہا مل تو لو اس شخص نے کہا اب نہیں ملنا کام ہوگیا اب واپس جانا ہے وہ شخص تھوڑی دور چلاگیا جب بادشاہ فارغ ہوگیا دربان نے کہا ایسا ایسا آدمی آیا تھا یہاں تک آیا پھر واپس جانے لگا بادشاہ نے کہا فورا لیکر آ وہ ہمارا محسن ہے واپس لایا گیا بادشاہ نے کہا آئے ہو تو ملے ہوتے ایسے کیسے چلے گئے؟ اس نیکہا کہ بادشاہ سلامت۔! اصل بات یہ ہیکہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کردیں گے مجھے ضرورت پیش آئی تھی میں آیا اور آکر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں تو میرے دل میں خیال آیا کہ بادشاہ جس سے مانگ رہا ہے کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگ لوں۔۔!!یہ ہے وہ چیز کہ ہمیں جب کبھی کوئی ضرورت پیش آئے بڑی ہو یا چھوٹی اس کا سوال صرف للہ پاک سے کیا جائے کہ وہی ایک در ہے جہاں مانگی ہوئی مراد ملتی ہے…
یہ بڑا عبرت خیز واقعہ ہے کہ جب بادشاہ وقت ، حاکم وقت بھی رب کا محتاج ہے ، اس سے وہ بھی مستغنی نہیں تو جس سے بادشاہ سوال کررہا ہے اس سے براہ راست سوال کیاجائے ، وہ سوال کرنے پر خوش ہوتا ہے ، عدم سوال پر ناراض ہوتا ہے ، ’’مجھ سے مانگو، سوال کرو، میں تمہارے مانگے اور دعا کرنے کو قبول کرتاہوں، بیشک جو لوگ مجھ سے مانگنے میں تکبر کرتے ہیں، ان کو ذلیل کر کے جہنم میں داخل کردیں گے ‘‘ (غافر : ۶۰)۔
اسی کی مصداق یہ آیت کریمہ ہے ،
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اے لوگو! تم اللہ کے محتاج و فقیر ہو اور اللہ تو غنی و بے نیاز ہے اور بذات خود لائق حمد و ثنا ہے۔ وہ بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج و فقیر۔ اب اگر ہم اللہ کے سوا کسی اور کے آگے دست سوال دراز کرتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے کہ ایک بھکاری دوسرے بھکاری سے بھیک مانگ رہا ہو اور یہ ایک نامعقول بات ہے۔ مانگیں اس سے جو کسی کا محتاج نہیں، بلکہ سب اس کے محتاج ہوں۔ ہم نماز کی ہر رکعت میں اللہ تعالی سے کیا کہتے ہیں؟ یہی نا کہ یااللہ! ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ اب اگر ہم نماز کے باہر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلادیں تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم اپنی نمازوں میں اللہ تعالی سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھ کسی اور کے آگے پھیلانے کے لئے نہیں بنائے، یہ ہاتھ اسی کے آگے پھیلانا چاہئے۔
حضرت امجد حیدرآبادی نے خوب کہا ہے:
ہر چیز مسبب سبب سے مانگو
منت سے ، خوشامد سے ، ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو
بندے ہو اگر رب کے ، تو رب سے مانگو
مؤمن کو چاہئے کہ فقر و فاقہ سے ہرگز نہ گھبرائے۔ فقر و فاقہ پیغمبروں کی میراث اور خاصہ خاندان نبوت ہے، اس لئے فقر و فاقہ کی شکایت نہ کرے، صبر و شکر کے ساتھ اس کو پوشیدہ رکھے۔ سوال سے بچ کر حیا کی حفاظت کرے، جو ایمان کا حصہ ہے۔
سوال کی مذمت احادیث کی روشنی میں
احادیث مبارکہ میں سوال کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے ، بلکہ چھوٹی سی چھوٹی چیز کو بھی اللہ سے مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے ، حدیث مبارکہ میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ،کام کی ترغیب ، سوال کی مذمت کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت زبیر بن عوام، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص رسی لے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر اٹھا کر اس کو بیچے اور اللہ تعالی اس کی عزت کو محفوظ رکھے، تو یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے مانگے اور وہ اسے دیں یا نہ دیں۔ (صحیح البخاری: حدیث: ۱۴۱۴)
ایک دوسری روایت میں لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی مذمت کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی برابر مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے روز ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر کوئی لوتھڑا گوشت نہ ہو گا”۔ (سنن النسائی، حدیث: ۲ ۴۹۶)
کس کے لئے سوال کرنا جائز ہے ؟
ابن زنجویہ نے اپنے مشہور کتاب’’الأموال ‘‘ میں لکھا ہے کہ مانگنے اور دست سوال دراز کرنے کی مذمت کے حوالے سے نہایت سخت احادیث وارد ہوئی ہیں، اس لئے صدقہ لوگوں کے اموال کا میل کچیل ہوتا ہے ،نہایت ضرورت مند کے لئے یہ حلال ہوسکتا ہے، ضروت مند وہ شخص شمار ہوتا ہے ، جس کے پاس اپنے اہل وعیال کے لئے رات ودن کاکھانا میسر نہ ہو، ا سی لئے اللہ عزوجل لوگوں کے اموال کو ان کے مابین سوائے صاحب مال کی رضامندی کے حرام کردیا ہے ، ا س لئے کہ اگر آدمی مانگتا سوال کرتاہے ، اس سوال کرنے کو ناپسند ہی کیاجاتا ہے ، اگر دیتے بھی ہیں تو بغیر طیب خاطر ، پزمردگی اور بے مزگی کے ساتھ، اس کی وجہ سے مانگنے والے کے لئے مانگا ہوا مال کا استعمال درست نہیں معلوم ہوتا، اگر مانگنا ہی تو صالحین اور نیکوکاروں سے سوال کرو، اس لئے صدقہ لوگوں کامیل کچیل ہوتاہے ، صالحین کا میل کچیل دیگر لوگوں کے میل کچیل سے بہتر ہوتا ہے ، البتہ ہدیہ،ہبہ، قرض ، عاریت کا سامان، عطیہ یہ مانگنے اور ممنوع مسئلے کے تحت داخل نہیں، ان چیزوں کے معیوب ہونے کے متعلق ان کے مکروہ ہونے سے متعلق ہمیں کوئی روایت نہیں ملی، بلکہ خود ادوار صالحین کے لوگ ضرورت پر قرض لیتے، بطور عاریت، بطور منحہ اور عطیہ لیتے ؛ بلکہ یہاں تو قرض نہ دینا، بطور عاریت کسی چیز نہ دینا، ہدایا، تحائف کا تبادلہ آپس نہ کرنا ہی قال مذمت ہے (الأموال ابن زنجویۃ : ۳؍۱۲۲، مرکز الملک فیصل السعودیۃ) ۔
البتہ سائل کا بھی حق ہے :
البتہ سوال کی مذمت کے باوجود اگر کوئی سوال کرنے آتا ہے تو سائل کا حق ہے ، اس کا خیال کرنا ، اس کو دینا چاہئے ، اس کو چھڑکنا ، منع کرنا، اس کو دینے سے کترانا مناسب نہیں، اس لئے کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : ’’ وأما السائل فلا تنھر‘‘ (الضحی ۱۰) سائل اور مانگنے والے کو جھڑکے نہیں
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ’’ سائل اور مانگنے والے کا حق گرچہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے ‘‘ ۔
مطابقِ نیت صدقہ کا ثواب
سامنے والے کی حالت حیثیت ، اس کی وجاہت شرافت رذالت پر نہیں نظر نہیں کرنا چاہئے ، خواہ کوئی بدمعاش، بد قماش ، چور اچکا ، اصلاح نیت، درستگی قلب کے ساتھ دیا ہوا مال اللہ کے یہاں مقبول ہی نہیں ہوتا، بلکہ لوگوں کی اصلاح اور انکی درستگی احوال کا ذریعہ بن جاتا ہے :
’’‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک مرتبہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے اپنے دل میں یا کسی اپنے دوست سے کہا کہ میں آج رات میں اللہ کی راہ میں کچھ مال خرچ کروں گا ، چنانچہ اس نے اپنے قصد و ارادہ کے مطابق خیرات کے لئے کچھ مال نکالا، تاکہ اسے کسی مستحق کو دے دے اور وہ مال اس نے ایک چور کے ہاتھ میں دے دیا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ چور ہے کہ جس وجہ سے خیرات کے مال کا مستحق نہیں ہے جب صبح ہوئی اور لوگوں کو الہام الہی کے سبب یا خود اس چور کی زبانی معلوم ہوا تو بطریق تعجب لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج کی رات ایک چور کو صدقہ کا مال دیا گیا ہے۔ جب صدقہ دینے والے کو بھی صورتحال معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ اے اللہ! تیرے ہی لئے تعریف ہے باوجودیکہ صدقہ کا مال ایک چور کے ہاتھ لگا اور پھر کہنے لگا کہ آج کی رات پھر صدقہ دوں گا تاکہ وہ مستحق کو مل جائے چنانچہ اس نے صدقہ کی نیت سے پھر کچھ مال نکالا اور اس مرتبہ بھی غلط فہمی میں وہ مال ایک زانیہ کے ہاتھ میں دے دیا، جب صبح ہوئی تو پھر لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج تو ایک زانیہ صدقہ کا مال لے اڑی وہ شخص کہنے لگا کہ اے اللہ! تعریف تیرے ہی لئے ہے اگرچہ اس مرتبہ صدقہ کا مال ایک زانیہ کے ہاتھ لگ گیا اور پھر کہنے لگا کہ آج کی رات پھر صدقہ دوں گا چنانچہ اس نے پھر کچھ مال صدقہ کی نیت سے نکالا اور اس مرتبہ پھر غلط فہمی میں وہ مال ایک غنی کے ہاتھ میں دے دیا، جب صبح ہوئی تو پھر لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج کی رات تو ایک دولت مند کو مل گیا۔ جب وہ شخص سویا تو خواب میں اس سے کہا گیا کہ تو نے جتنے صدقے دئیے ہیں سب قبول ہوگئے۔ کیونکہ صدقہ کا جو مال تو نے چور کو دیا ہے۔ وہ بے فائدہ اور خالی از ثواب نہیں ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے چوری سے باز رہے اور صدقہ کا جو مال تو نے زانیہ کو دیا ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے زنا سے باز رہے اور صدقے کا جو مال تو نے دولت مند کو دیا ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے عبرت حاصل کرلے اور اللہ تعالی نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔(بخاری ومسلم الفاظ بخاری کے ہیں)
صدقہ دینے والے نے اللہ کی تعریف یا بطریق شکر کی کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے صدقہ تو دیا اگرچہ وہ غیر مستحق ہی کے ہاتھ لگا یا پھر بطریق تعجب یا اپنے دل کے اطمینان کے لئے اس نے اللہ کی تعریف کی۔ بہر کیف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی اسرائیل کے اس شخص کا یہ واقعہ اس لئے بیان فرمایا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر صدقہ و خیرات بہر نوع بہتر اور باعث ثواب ہے جس کسی کو بھی صدقہ دیا جائے گا ثواب ضرور پائے گا۔ (مشکاۃ ، حدیث : ۳۷۴)
دینی کاموں کے لئے چندہ کرنا سوال نہیں ، وہ اعانت ہے
مدارس ، مکاتب ، دینی اداروں ، تنظیموں ، بیت المال وغیرہ کے لئے چندہ کرنا یہ سوال کرنا نہیں ؛ بلکہ یہ دین کی اعانت وخدمت ہے، دین کی نشر واشاعت میں حصہ لینا ہے ، لیکن مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ فرماتے ہیں: کہ اس میں استغناء سے کام لیا جائے ، زیادہ اصرار نہ کیاجائے ، جس سے دین کی بے وقعتی ہوتی ہو، نی کریم ﷺ اپنے دور مبارک میں ہنگامی حالات اور ہنگامی وضرویات میں لوگوں سے چندہ طلب کرتے ، ہنگامی ضرورتوں کو پورا کرتے ؛ بلکہ اسطرح شخصی ضروریات کا سامان بھی کرتے ، حضرت جریر صسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ اکی خدمت میں ایک جماعت پیش ہوئی، جو ننگے پیر اور ننگے بدن تھی، جو چیتے کے کھال کی طرح کا صوف یا عبا پہنے ہوئے تھے اور تلواریں حمائل تھیں، ان میں سے زیادہ تر قبیلہ مضر کے لوگ تھے ، ان کے چہروں سے فاقہ کشی کی حالت ٹپکتی تھی، ان کی حالتِ زار دیکھ کر آپ ا کا چہرۂ انور سرخ ہوگیا ، حضرت بلال ص کو حکم دیا کہ وہ اذان دیں، جب صحابہ کرام ثجمع ہوئے تو حجرے میں داخل ہوئے ، پھرتشریف لاکر صحابہ کرام ث کے سامنے سورۃ النساء اور سورۃ الحشر کی آیات تلاوت فرمائیں جن کا مدعایہ ہے کہ اللہ کریم نے تمام انسانوں کو خواہ وہ امیر وکبیرہوں یا فقیر وصغیر ایک انسانِ آدم سے پیدا کیا ؛ لہٰذا تمام اولاد آدم آپس میں بھائی بھائی ہیں، اور انہیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے ، اور انسان کو ڈرنا چاہئے کہ کل وہ قیامت کے دن کیا کچھ اپنے کریم کے سامنے ( خرچ کر کے ) لے جارہا ہے ، صحابہ کرام ث کو یہ سن کر اثر تو ہونا ہی تھا، آن کی آن میں اناج وکپڑوں کا ڈھیر لگ گیا ایک انصاری صحابی ص نے درہموں کا ایک توڑا جو اس قدر وزنی تھا کہ ان سے اٹھایا نہ جاتا تھا لا کر پیش کیا، جو ان فاقہ کشوں میں تقسیم کر کے ان کے افلاس کا علاج ہنگامی بنیادوں پر کیا گیا ۔
ور ایک روایت میں حضرت ابو موسی اشعری ص سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: کہ جب رسول اللہ اکے پاس کوئی سائل یا حاجت مند شخص اپنی ضرورت اور حاجت کی طلب میں آتا تو آپ افرماتے : ’’ اشفعوا توجروا ، ویقضی اللہ علی لسان نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم ما شاء‘‘ (۲) سفارش کر کے اجر حاصل کرو، اور اللہ عز وجل اپنی نبی کے زبانی اپنی چاہت کے مطابق فیصلہ فرماتے ہیں۔
اس کے علاوہ نبی کریم اکے دور مبارک میں چندہ کا طریقہ یہ تھا کہ لوگوں سے اجتماعی یا انفرادی طور پر تعاون کی اپیل کی جاتی تھی، اور لوگ اپنی مرضی سے کبھی نقدی ادا کرتے تھے ، اور کبھی سامان کی شکل میں تعاون کرتے تھے ۔
بہر حال سوال کرنا اور مانگنا یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے ، آدمی اپنی محنت ووتگ ودو اور جستجو سے کھائے ، اپنے حلال کسب ومعاش کو اختیار کرے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو گھر کے سامنے فروخت کر کے ایک روپیہ گھر میں دینے کے لئے کہا اور دوسرے روپئے سے دست مبارک سے کلہاڑ ی کا دستہ لگا کر اس کو محنت وجستجو کرنے کی ترغیب دلائی کہ آٹھ دن تک لکڑیاں کاٹ کر لانا اور اس سے گذر وبسر کرنا ، اس لئے کسی کے سامنے دست سول دراز کرنے کو درست نہیں سمجھاجاتا، بلکہ آدمی بنفس نفیس خود سے محنت کرے ،اللہ سے برکت اور خیر وعافیت اور حال رزق کے راستوں کے کھلنے کے دعا گو ہو ۔
بندے ہو رب کہ تو رب سے مانگو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×