اسلامیاتمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں

یہ حقیقت ہے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، آدمی نیکی کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ برائی سے بچ جاتا ہے ، اس کی نیکیاں خود اسے برائی اور بے حیائی سے روک دیتی ہے ، اس لئے اعمال صالحہ کا خوب اہتمام کیا جائے جن میں نماز سمیت تمام احکام شرع جو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق ہیں سارے کے سارے اعمال حسنہ میں داخل ہوجاتے ہیں، جن میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور روز آخرت کا یقین ، جنت دوزخ کے اچھے برے احوال، نیکیو ں پر ثواب اور برائیوں پر گناہ ، اسی طرح حقوق العباد میں اہل وعیال ، ما ں باپ ، بھائی بہن، چچا ، پھوپھی اور اصولی اور فروعی تمام رشتہ داریاں بلکہ بحیثیت ایک مسلمان کے ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ، جو ان کو اخوت اسلامی کی لڑی میں جوڑ دیتی ہے ، فرمایا، ’’ المسلم أخو المسلم‘‘ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،اور بحیثیت اانسانیت اور ایک باپ آدم کی اولاد کی حیثیت ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ الخلق عیال اللہ فی الأرض، أحب الخلق إلی اللہ من أحسن إلی عیالہ‘‘ تمام کی تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اور تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اللہ کی مخلوق کے ساتھ بھائی کرے ۔اسی لئے فرمایا ، کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ، کوئی کسی سے حسد نہ کرے ، کوئی کسی کو ذلیل نہ کرے ، تم آپس میں بھائی بھائی ہوجائیں ، نیکی ، بھلائی ، اچھأئی ، سچائی ، برائی ، جھوٹ ، دھوکہ دہی، کذب بیانی سب برابر نہیں ہوسکتے ، ارشاد خداوندی ہے ’’ دھوپ اور سایہ برابر نہیں ہوسکتے ‘‘ اسی طرح ااچھائی کی راہ پر چلنے والا اور برائی کی راہ کو اپنانے والا برابر نہیں ہوسکتے ، جھوٹ بولنے والا، دھوکہ دینے والا، دغاباز، کمینہ اور سچ بولنے والا، امانت داری کا لحاظ کرنے والا، دیانت دار ، راست باز سب برابر نہیں ہوسکتے ، بلکہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔نیکی برائی پر غالب آتی ہے۔
اسی لئے احادیث مبارکہ میں وارد ہے کہ : حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وضو کرے اور اچھی طرح وضوکرے ، پھر وہ پانچ نمازیں پڑھے تو اس کے گناہ اس طرح گرتے ہیں جیسا کہ یہ پتے گرتے ہیں، پھر آپ ؎ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’ إنّ الحسنات یذہبن السیئات‘‘ ( سورہ ہود : ۱۱۴) نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں۔(مسند احمد : ۳۹؍ ۱۱۱، ۱۲۱، حدیث: ۲۳۷۰۷)
اور ایک روایت میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: ہر نماز اپنے اگلے گناہ کو معاف کردیتی ہے ’’ کل صلاۃ تحطّ ما بین یدیھا من خطیئۃ‘‘ ( مسند احمد : ۳۸؍۸۴۹، ۴۹۰، حدیث: ۲۳۵۰۳)
اور ایک روایت میں ہے : فرمایا کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور کھڑا ہو کر ظہر کی نماز پڑھے تو فجر اور ظہر کے درمیان کے گناہ معاف ہوجائیں گے، پھر عصر کی نماز پڑھنے پر ظہر اور عصرکے درمیان کے گناہ معاف ہوجائیں گے، پھر مغرب کی نماز پڑھنے پر عصر اور مغرب کے درمیان اور پھر عشا کی نماز پڑھنے مغرب اور عشا کے درمیان کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہے اور کھڑا ہو کر وضو کر کے فجر کی نماز پڑھ لے تو فجر اور عشا کے درمیان کے گناہ معاف ہوجائیں گے اور یہ وہی نیکیاں ہیں جو گناہوں کو ختم کردیتی ہیں، لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ تو حسنات ہیں باقیات(جن کا تذکرہ قرآن میں بھی آتا ہے وہ) کیا چیز ہیں ؟ فرمایا وہ یہ کلمات ہیں۔ لاالہ الا اللہ و سبحان اللہ والحمدللہ و اللہ اکبر ولاحول ولاقو الا باللہ۔
اسی کو نبی کریم ﷺ نے ایک اور حدیث مبارکہ میں فرمایا: ’’ إن اللہ لا یمحو السی ء بالسیء ، ولکنہ یمحو السیء بالحسن‘‘ ( مسند احمد: ۶؍۱۸۹، حدیث: ۳۶۷۲)اللہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ، بلکہ اچھائی سے برائی کو مٹاتا ہے ۔
اسی کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ : ’’ میں نے نئی نکی سے جو پرانی برائی کی جگہ کی جائے طلب اور پانے کے اعتبار سے کوئی چیز اس سے بہتر نہیں دیکھی، کیوں کہ ارشاد باری عزوجل ہے ’’ إن الحسنات یذہبن السیئات‘‘ ( معجم الاوسط للطبرانی: حدیث: ۱۲۷۹۸)
اور اسی طرح حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے نصیحت فرمائے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ڈر جب تجھ سے برا عمل صادر ہوجائے تو اس کے بعد نیک عمل کر ، وہ اس برائی کو ختم کردے گا، راوی کا بیان ہے کہ میں عرض کیا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : کیا ’’ لا إلہ إلا اللہ ‘‘ نیکیوں میں شامل ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو سب سے افضل اور بربر نیکی ہے ’’ہی أفضل الحسنات‘‘ (مسند احمد، ۳۵؍۲۸۴، حدیث: ۲۱۳۵۴)
حضرت عقبہ بن عامر رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص گناہوں کے بعد نیکیاں کرتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس کے جسم پر لوہے کی تنگ زرہ ہو، جس کی وجہ سے اس کا گلا گھونٹا جاتا ہو ، اس کے نیک عمل کی وجہ سے اس کی ایک گرہ کھل جاتی ہے ، پھر اس طرح اس کی ساری گرہیں کھل جاتی ہیں ۔’’ حتي تنحلّ عقدہ کلھا‘‘(مسند احمد، ۳۸؍ ۸۳، حدیث: ۱۷۳۰۷)
اس طرح اور دیگر روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں، نیکیوں کا انجام دینا یہ برائیوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہوا کرتا ہے ، اسی کو فرمایا: ’’ إن الصلاۃ تنھی عن الفحشا ء والمنکر‘‘ (نماز بے حیائی اور برائی سے روک دیتی ہیں ) اور ایک شخص کا تذکرہ نبی کریم ﷺ کے سامنے ہوا کہ وہ رات میں چوری کرتا ہے اور دن میں نماز پڑھتا تو آپ ﷺ نے فرمایا : سینھاہ ما یقول ‘‘ (اس کی یہ نیکی اور نماز اس کو اس برائی سے روک دے گی )۔
اس لئے برائی کے خاتمہ کے لئے نیکیاں کی جائیں، ظلمت کو ختم کرنے کے لئے روشنی، دھوپ کو ختم کرنے کے لئے سایہ کی ضرورت ہوکرتی ہے ، تو اسی طرح برائیو ں اور بے حیائیوں کے خاتمہ کے لئے نیکی کی روشنی لانے ہوگی ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×