سیاسی و سماجیمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

یہ ہم نے ملک کی کیسی تصویر بنادی ؟

آج ساری دنیا جن احوال سے دوچارہے، ایسے لگتا ہے کہ زندگی کا پہیا تھم سا گیاہے، ہر جگہ دنیا میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے ، لوگ گھروں میں محبوس ہیں، ہمار ملک بھی ساری دنیا کے ساتھ اس بیماری کا جوجھ رہا ہے، لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے، ڈیڑھ مہینے سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے ، اس وقت ساری دنیا کو مل کر اس مہاماری اور بیماری کرونا کا مقابلہ کرنا ہے ، ساتھ ہی ساتھ انسانیت کے بقا اور حیات کے لئے کام کرنا ہے، بلا تفریق مذہب وملت کہ نہ صرف اس بیماری کے دفاع کے لئے شانہ بشانہ کام کرنے کی ضرورت ہے ، بلکہ انسانیت کی بنیاد پر جب کہ یہ بیماری جس نے ساری دنیا میں اپنے پیر پسار دیئے اس کا مقابلہ کرنا ہے ، لیکن ہمارے ملک میں تبلیغی جماعت کو خصوصا کرونا کی بیماری کے نام پر نشانہ بنایا گیا، دلال میڈیا نے خوب واویلا اور ہنگامہ کیا، ویسے لا ک ڈاؤن کے بعد پھنسے ہوئے تبلیغی جماعت سے وابستہ حضرات جو سفری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے وہیں رک گئے تھے، وہاں ٹھہرے ہوئے لوگوں کو بہانہ بنا کر ساری تبلیغی جماعت بلکہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، ملک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد رہتی ہے ، انڈونیشا کے بعد دنیا کے کسی خطہ میں بڑی تعداد میں مسلمان بستے ہیں وہ تو ہمارا ملک ہندوستا ن ہے ، ویسے تو مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے ہمیشہ ہی ہر پارٹی نے بددیانتی سے کام لیا، مسلمانوں کو پشت پناہ بنا کر ووٹ وصول کئے ، لیکن موجود سرکارجس کا ہندوا توا ریکارڈ ہے ، تقریبا بر سر اقتدار حکومت کے عہدوں اور مناصب پر فائز حضرات آر یس یس سے آتے ہیں، انہوںنے موجودہ حکومت 2014میں برسر اقتدار آتے ہی فاشسٹ طاقتوں نے ہر طرف مسلمانوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا، مختلف علاقوں سے موجودہ سرکاری کی نمائندگی کرنے والے ایم ایل اے اور ایم پیز کے شر انگیز اور مسلمان مخالف بیانات کی بھر مار ہوگئی ، کبھی گاؤ ہتھیا کے نام پر، کبھی لو جہاد کے نام پر ، کبھی بیف کے نام پر ،کبھی مندر مسجد کے نام پر مختلف انداز سے مسلمانوں کو پریشان کرنا اور ان کا جینا دوبھر کرنا شروع کردیا، بلکہ بر سراقتدار حکومت کی ایک خاص پہچان یہ رہی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جتنا جو شخص زہر اگل سکتا ہے ، وہ حکومت کی نگاہ میں ہیرو بن جاتا ہے ، اس کو سر آنکھوں پر رکھاجاتا ہے ، اس صورتحال نے مزید اس وقت شدید بحران پیدا کیا جب سی اے اے اور این آر سی کے نام پر مسلمانوں کو ملک بدر کرنے یا انہیں ڈیٹیشن کیمپس میں رکھنے کی بات کی گئی ؛ بلکہ سی اے اے کو دونوں ایوانوں میں پاس کر لیا گیا، مسلمانوں کو خوف ستانے لگا کہ کہیں ہمیں اس سی اے اے اور این آر سی کے ذریعہ کے ذریعہ غیر ملکی قرار دے کر ہمیں ان قید خانوں میں محبوس نہ کیا جائے ، ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاجات ہوئے جس کا سلسلہ مسلسل جاری تھا، کرونا کی مہاماری اور بیماری کی وجہ سے سوشیل ڈیٹنسروبہ عمل لانے کے لئے ان احتجاجات کا سلسلہ تھما، جس میں بشمول مسلمانان ہند کے غیر مسلم برادری بھی بڑی تعداد میں شامل ہور ہی تھی، بلکہ اسٹیٹ کے سطح پر حکومتیںان بلوں کے خلاف قرار دادیںمنظور کرتی جارہی تھیں، اسی وقت سے عالمی سطح کے میڈیا پر ملک کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جانے لگا تا کہ مذہب کے نام پر شہریت کا دینا خصوصا یہ ترساتا ہے کہ اس کے پس پردہ مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیاجارہے ، پھر اسی دوران دہلی کے منظم فسادات ، جس میں مسلمانوں کا خوب جانی ومالی نقصان کیا گیا، خوب توڑ پھوڑ مچائی گئی، کرائی کے ٹٹو، دیش دروہی ، دنگائی ، فسادی ، خونی ، ہتھیاری تین دن تک دہلی میں فساد مچاتے رہے ۔
اس وقت بھی عالمی سطح پرمیڈیا میں خوب واویلا مچا اور مسلمانوں کے حوالے سے حکومت ہند کی نیت پر تشویش کا اظہار کیا گیا، گودی میڈیا ، دلال میڈیا نے الٹا چور کوتوال کو ڈانتے کے مصداق سارا ٹھیکرا مسلمانوں پر پھوڑنے کی کوشش کی ، آپ پارٹی کے قائد محمد طاہر کو بلی کا بکر بنایا گیا، کپل مشرا جیسے زہر اگلنے والے ، زہر اگلتے اور شعلے برساتے پھرتے رہے، پولیس تماشاں بین بنی بیٹھی رہی، پھر کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے بعد 28؍ مارچ سے مرکز تبلیغ نظام الدین میں ٹھہرے ہوئے لوگوں کو لے کر پھر ہندو مسلم کی جنگ چھڑی، مسلمانوں کے بائیکاٹ کی بات کہی گئی، مسلمانوں کو کرونا کا بم کہا گیا، نہ جانے کتنے تھیکے اور ہتک آمیز جملے بازیاں کی گئی ، خصوصا ہر موقع سے لیڈران زہر اگلتے ہیں، لیکن کرونا کی مہاماری کے موقع بھاؤں بھاؤں میڈیا اور ملک کا غدار میڈیا خوب زہر اگلتا رہا اور پھر جوابدہی کے کوشش کی گئی تو الٹا مسلمانوں کو کٹگھرے میںکھڑا کرنے کی کوشش کی گئی، اس صورتحال میں عالمی سطح پر آگ میں گھی ڈالنے کا کام مزید اس وقت کیاجب کٹر وادی سوچ رکھنے والے بھگتوں نے خلیجی ممالک میں بر سر روزگار رہتے ہوئے وہاں سے مسلمانوں کے خلاف ٹوئٹس کرنے شروع کردیئے، جس کی وجہ سے وہاں عرب اور خلیجی ممالک کے سعودی عرب، دبئی ، عمان سمیت کئی ایک ممالک کے لوگوں کے ان ان بھگتوں کے ٹوٹئیس کا سخت نوٹ لینے کا کا وہاں کی حکومتوں سے مطالبہ کیا، جس کے بعد وہاں کی شہزادیوں وغیرہ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے کئی ایک زہر افشانی کرنے والے ہندوستانیوں کو نوکری سے معزول کردیا، بہت ساروں کی تنبیہ کی گئی ، لیکن یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آرہا تھا، جس کے بعد بڑی شرم کا موقع تو اس وقت آیا جب ہماری ملک کے سیکولزم اور جمہوریت کا پارٹ دبئی کی شہزادی نے پڑھایا، اور کہا کہ یہ ہندوستان گاندھی کے سپنوں کا ہندوستان نظر نہیںآتا، جہاں کی انگنت بولیوں اور رنگ ونسل اور بھانت بھانت کے لوگوں کے بنا یہ گلدستہ ہندوستان جس کو بھگوادھاری رنگ دینے کی کوشش ہر سمت سے کی جارہی ہے ، گاندھی نے تو اہنسا، روادوی ، مساوات برابری کا درس دیا تھا، گاندھی جی کی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ، جس کے مناظر بسا اوقات مختلف طریقے سے برسر اقتدار جماعت کے لیڈروں کی جانب سے نظر آتے رہتے ہیں۔
ہندوستان میںخصوصا اقلیتوں پر مظالم کے خلاف نہ صرف خلیجی ممالک بلکہ دنیا بھر میں انتقامی رد عمل کا اندیشہ نظر آرہا ہے ، جس کو مختلف حالیہ واقعات وبیانات سے سمجھا جاسکتا ہے ، خصوصا دبئی کی شہزاری ہند القاسمی ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم پر مسلسل آواز اٹھارہی ہیںاور ٹویٹر پر مسلسل بیانات دے رہی ہیں، اپنے قریبی تازہ بیان میں ہند القاسمی نے نہایت ہی حیرت کے ساتھ یہ کہا ہندوستان میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں، اس پر مودی حکومت خاموش ہے بلکہ نفرت انگیز مہم چلانے والوں اور حملہ آوروں کی پشت پناہی کررہی ہے ، اس صورتحال کے پیش نظر انہوں نے سخت ترین الفاظ میں یہ بھی کہا کہ مظالم کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ہم خاموشی تماشائی بن کر بیٹھے نہیں رہیں گے، بلکہ ان مظالم کا سلسلہ بند ہونا چاہئے، یہ بات انہوں نے مختلف ٹی وی چینلوں اور اخبارت کو دیئے گئے انٹرویوں میں کہی ہے ، شہزادی ہند القاسمی نے یہ بھی کہا کہ اچانک ہندوستان میں یہ کیا ہورہا ہے ، جب یہ ملک گاندھی کے اصولوں پر وجود میں آیا ہے ،بلکہ انہوںنے جنوبی ہند سے شائع ہونے والے دی ویک کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں نازی جرمنی جیسی صورتحال پیدا ہورہی ہے ، جس کی وجہ سے اس کا خمیازہ ہندوستان بھر میں ہندوستانیوں کو اٹھانا پڑیگا، خاص طور پر اس کے اثرات یوروپ اور امریکہ میں رہائش پذیر ہندوستان پر مرتب ہوسکتے ہیں، بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ہندوستان سے ہندوازم کو ختم نہیں کرسکتے نہ اسلام کو ختم کرسکتے ہیں، صرف ہندوازم کی بات کرنایہ در اصل تمام دیگر مذاہب کو اچھوت بنانے جیسا ہے ، کیا یہ وہی ہندوستان ہے جس کا خواب گاندھی جی نے دیکھا تھا؟ بلکہ انہوں نے یہ کہا نہ تو یہ حقیقی ہندوستان ہے اور نہ ہندو ازم ہے ، انہوں نے یہ بھی کہا کہا کہ ہندوستان میں چین کی طرح حراستی کیمپ بنائے جانے کی بات ہورہی ہے ، ہندوستان کے خلیجی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہندوستان سے ایسی توقعات نہیں کی جاسکتی ، بلکہ بڑھ کر انہوں نے یہ بھی کہا کہ انڈونیشیا، بنگلہ دیش، ملیشیا جہاں ہندوستانیوں کی کثیر آبادی ہے ، کیا ان کے ساتھ اس طرح ظلم روا رکھاجاسکتا ہے ۔
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ۵؍ مئی کو سعودی حکام نے ایک ایشائی غیر مسلم کے خلاف اپنے شہری کے بد کلامی کرنے کی پاداش میں شہر ی کو گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا، جس میں ایک عرب باشندی نے غیر مسلم ایشائی باشندوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ڈالی، بلکہ اس کے ساتھ بدکلامی بھی کی، جس کی پاداش میں مواد کی نگرانی کرنے والے سنٹر کی جانب سے جائزہ لیا گیا اور اس شہری کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کئے گئے جس میں سرکاری عہدیداروں نے یہ کہا کہ اسلام کی دعوت کے نام پر غیر مسلم باشندوں پر جبر نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے ملک اور تارکین وطن کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری وزیر اعظم کاخلیجی ممالک میں بڑا احترام واعزاز کیاجاتا ہے ، جس کے نمونے کئی دفعہ دیکھنے میں آئے ، لیکن موجودہ صورتحال اور تارکین وطن کی وہاں بد زبانی اور بدکلامی نے یکسر صورتحال بدل دی ہے ، خلیجی ممالک کے لوگوں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر نظرکئے ہوئے ہیں، وہ خود بھی نہیں چاہتے ہندوستان کا سیکولرکردارختم ہو، یہاں نفرت کی کھیتی بوئی جائے بلکہ وہ خود بھی اسلام کے ساتھ وابستگی کے ساتھ سیکولرزم پر ایقان رکھتے ہیں، خود ہمارا ملک سیکولرزم اور جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار شمار ہوتا ہے ، لیکن کچھ سالوں سے صورتحال بدلی بدلی سی نظر آرہی ہے ، خصوصا بر سر اقتدار حکومت کے دوبارہ تخت نشیں ہونے کے بعد ملک کی سیکولر شبیہ کو خراب کرنے کے لئے نہایت بے باکی اور بے شرمی کے ساتھ زعماء اور قائدین سے لے کردلال میڈیا پوری محنت سے لگا ہوا ہے، ہمارے ملک کی صورتحال سے ساری دنیا بے خبر رہتی ہے ، ایسا نہیں، میڈیا اور ذرائع ابلاغ وترسیل کے فراوانی کے اس دور میں ہر چھوٹی سے لے کر بڑی خبر ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک میں آپسی بھائی چارہ، یگانگت ، ہم آہنگی کے ساتھ رہیں،بھید بھاؤ، چھوت چھات، مذہبی منافرت کو ہر گز جگہ نہ دیں، یہ عالمی سطح پر ہمارے ملک کے حق میں بالکل نہیں ہوگا، بلکہ یہ ہمارے ملک کے نقصان دہ ہوگا، سوائے ماحول کو مزیدخراب کرنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اس ملک کے ہندومسلمان اور دیگر مذاہب کے پیروکار یہی تھے ، رہیں ہیں، رہیںگے ، یہ ہندوستان اپنی ہمہ جہت تہذیب وثقاقت ، مزاج ومذاق ، روایا ت ورسوم ، زبان وبولیوں ، مذاہب کی نیرنگیوں کے ساتھ تا قیامت (انشاء اللہ ) باقی رہے ، یہ تخت نشیں لوگ آتے اور جاتے رہیںگے، اللہ عزوجل لوگوں کے درمیان دنوں کو بدلتے رہتے ہیں ، آج کوئی بر سر اقتدار ہے تو کل کوئی اس اقتدار کا جانشیں اور مالک بن سکتا ہے ، اس لئے کسی کوبھی ملک کے تئیں یہاں کے روایات واقدار، تہذیب وتمدن ،مذہب وزبان کے حوالے سے زبان درازی بحیثیت ملک کے شہری کے درست نہیں؟ ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×