اسلامیات

اپنی عبادت کو عبادت بناؤ………احسن المجالس نوی پیٹ سے مولانا عبدالقوی صاحب مد ظلہ العالی کا بصیرت افروز خطاب

فرمایا کہ امام اعظم ابو حنیفہ رح جن کے علوم سے دنیا کا اک معتد بہ طبقہ استفادہ کررہا ہے اور پوری دنیا میں آپ کی اقتدا کرنے والے پھیلے ہوے ہیں امام صاحب نے فرمایاکہ پوری پانچ لاکھ ذخیرہ احادیث سے میں نے صرف پانچ حدیثوں کا انتخاب کیا جو گویا کہ 5/لاکھ کا عطر اور خلاصہ ہے .امت کوعمل کرنے اور سمجھنے میں سہولت کی خاطر میں نے اس کو اخذ کیا ہے اور نچوڑ پیش کرنے کی کوشش کی ہے (1)پہلی حدیث .انماالاعمال باالنیات ..سارے اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے کوئ عمل خواہ چھوٹا ہوں کہ بڑا اللہ کی رضاکے لےء کیاجانا چاہےءاللہ پاک بندوں کے اعمال میں نیتوں کو تلاش کرتے ہیں کہ بندہ کس نیت سے عمل کیا آیا خالص میرے لےء یا میرے علاوہ کسی اور کے لےء یا میرے ساتھ کسی اور کو بھی اس میں شریک کیا جو عمل خالصۃ لللہ ہوگا عند الللہ وہی مقبول ومعتبر ماناجاے گا ….عمل اچھا ہوں اور نیت بھی اچھی ہوں تووہ عمل مقبول ہوگا اس پر ثواب مرتب ہوگا اگر عمل اچھا ہوں لیکن نیت خراب ہےتو اس نیت کی وجہ سے اچھا عمل بھی خراب ہوجاتا ہے اس پر کوئ اجر وثواب مرتب نہیں ہوتا ہے غیر مقبول عمل کہلاے گا ..اگر عمل خراب ہواورنیت اچھی ہوں تو صرف اچھی نیت کی وجہ سے خراب عمل اچھا نہیں ہوگا وہ خراب کا خراب ہی رہے گا بہرحال نیتوں کا ہمارے اعمال میں بڑا دخل ہوتا ہےاور پھر نیتوں کی درستگی سے اجر وثواب بڑھتا رہتا ہے مثلا کسی نے گھر سے نماز کی نیت کرکے نکلا اور ساتھ میں یہ بھی نیت کرلیا کہ اگر کوئ بیمار ملے گا تو عیادت کرلوں گا .کوئ سائل ملے گاتو اس کی مدد کروں گا یا کوئ مسلمان ملے گا تو سلام کرلوں گا وغیرہ لیکن نماز کے لےء راہ چلتے ہوے اپنی نیت کے مطابق کوئ بھی عمل نہ ہوسکا نہ مسلمان ملا نہ بیمار ملا نہ سائل ملا مگر چونکہ نیت اچھی تھی تو ایک نماز والے عمل پر تین تین اجر اس بندہ کو مل جائیں گے محض اپنی نیت کے اچھا ہونے کی بناء پر ثواب میں اضافہ ہوتا گیا اس لےء اپنی نیتوں کو درست کرلینا بہت ضروری ہےآج امت کا اکثر طبقہ محض اپنی ناموری اور دکھلاوے جھوٹی شہرت کے لےء اپنے اعمال کو خراب کررہا ہے ان کا کوئ عمل عنداللہ مقبول نہیں ہورہا ہے عوام توعوام علماء اور خواص اچھے خاصے لوگ بھی اس شہرت والی بلاء میں گرفتار نظر آتے ہیں حد تو یہ ہیکہ مکہ اور مدینہ جیسی مقدس جگہیں بھی اس ریا کاری سے خالی نہیں نظر آتی ہیں آج شیطان نے ہماری عبادتوں کو عبادت باقی نہیں رکھا ہے ہر جگہ تصویر کشی ہورہی ہے اپنی ریاکاری اور دکھلاوے اور شہرت وناموری کی غرض سے صلوۃ الاستسقاء پڑھای جاتی ہے اس کی بھی ویڈیو اور تصویرنکالی جارہی ہے ہاں نماز میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو شرکت کی دعوت واطلاع کی غرض سے تو درست ہوسکتا ہے لیکن نماز ہوجانے کے بعد باقاعدہ طور پر فلاں عالم صاحب نے نماز پڑھای خطبہ دیا رقت انگیز دعاء کی وغیرہ ان تمام چیزوں کی اب کوئ ضرورت نہیں ہے بلاوجہ کا گناہ ہمارے سر آرہا ہے اور عمل سارا کاسارابرباد ہوگیا اب لوگ حج کو جاتے ہیں وہاں جاکر طواف کرتے ہوے ملتزم سے چمٹتے ہیں اور سیلفی لیکر یا کسی دوسرے کے ذریعہ سے فوٹولے کر لوگ اپنی حج جیسی عظیم عبادت کو بھی برباد کررہے ہیں ہمارے ہر عمل کا مقصود صرف اور صرف اللہ کی رضا ء ہونی چاہےءہاں ملی قومی سیاسی رفاہی ضرورت کے تحت اگرفوٹو لی جاے تو پھر بھی کچھ بات سمجھ میں آتی لیکن عبادات میں ان سب چیزوں کی چنداں ضرورت نہیں ہےعبادات کو تو کم ازکم اللہ کے لےء کریں .چھوٹاسے چھوٹا عمل اگر اللہ کی رضاء کے لےء ہوں تو وہ نجات کا سبب بن سکتا ہے لیکن بڑا سے بڑا عمل اگر ریا کاری اور شہرت کے لےء کیا گیا تو وہ مقبول ومعتبر نہیں ہوگا اس حدیث پاک میں بتایا جارہا ہے کہ عمل نیت اور انجام اگرعمل اچھا اور نیت اچھی تو انجام بھی اچھا ہوگا جیسے اس حدیث کے دوسرے جز میں کہا گیا فمن کانت ھجرتہ الی اللہ ورسولہ فھجرتہ الی اللہ ورسولہ …..ہجرت ایک عمل الی اللہ ورسولہ نیت اور فھجرتہ سے اس کا انجام کہ وہی ہجرت عنداللہ مقبول ہوگی جو اللہ ورسول کے لےء ہوں …وہی ہجرت ہجرت ہے جو اللہ ورسول کے لےء ہے ………اس لےء ریا کاری سے شہرت اوردکھلاوے سے اپنے اعمال کو پاک کرنا چاہیے ریا کار کی پیشانی پر قیامت کے دن لکھا ہوا ہوگا…. آئس من رحمۃ اللہ… اللہ کی رحمت سے مایوس انسان ہے جو ریا کاری کرکے عمل کو تباہ وبرباد کرلیا اور جس کو دکھانے کے لےء کیا تھا اسی سے ثواب لینے کے لےء کہ دیا جاے گا ……(2)دوسری حدیث .من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ ..اسلام کا حسن اور خوبصورتی یہ ہیکہ بندہ لا یعنی چیزوں کو ترک کردے..لایعنی کہتے ہیں ہر ایسا کام جس میں نہ دنیا کا فائدہ ہوں نہ آخرت کا .مومن کی خوبی اور اسلا م کی خوبصورتی یہ ہیکہ وہ لایعنی کو ترک کردیتا ہے فضولیات میں وہ کبھی نہیں لگتا خواہ وہ فضول قول کے اعتبار سے ہوں یا عمل کے اعتبار سے ہر ایک کو ترک کردیں ہاں البتہ مال کو مال کی شکل میں اس کی حفاظت کرنا لازمی ہے چونکہ یہ مال قیام للناس یے ضرورت کے واسطے مال کا جمع کرکے رکھنا کوئ برا نہیں ہے مال کو بے تحاشہ خرچ نہ کریں مال میں فضول خرچی بھی گناہ ہے مال کی حفاظت سے مالی پوزیشن اور وقار مستحکم ہوتی ہے (3)تیسری حدیث ہے لا یؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ…اپنے بھای کے لےء وہی پسند کرو جو اپنے لےء پسند کرتے ہو اس حدیث کا تعلق حقوق سے یے کہ جس طرح ہم اپنے حقوق میں دوسروں کی جانب سے کوتاہی اور کمی کو برداشت نہیں کرتےاسی طرح دوسروں کے حقوق میں ہم کسی طرح کی کمی کو پسندنہ کریں اس سے اخلاقیات بنتے ہیں ..(4)چوتھی حدیث ہے المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ..مسلمان کامل تو وہی ہے جس کی زبان وہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ہمارے قول وعمل سے کسی دوسرے مسلمان کو کوئ تکلیف نہ ہونے پاے اس حدیث کا تعلق حقوق العباد سے ہے (5) پانچوی حدیث ہے .الحلال بین والحرام بین وبینھما امور مشتبھات ….حلال اور حرام دونوں بھی واضح ہیں لہذا حلال کو اختیار کرو اور حرام سے اجتناب کرو اور جو مشتبہ چیزیں ہیں ان کو بھی ترک کردو چونکہ مشتبہ سے بچنا اپنے دین اور عزت کو بچانے کے برابر ہے اس لےء ہر مشتبہ سے اجتناب کرنا چاہیے………

9505057866

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×