بھوپال: 11؍جون (ذرائع) لاک ڈاؤن میں کورونا کے نام پر سوشل ڈسٹنسنگ کی بات تو کی گئی تھی لیکن بھوپال میں تو سوشل ڈسٹنسنگ کے نام پر مسلم طالبات کے ساتھ ہی امتیازی درجے کا سلوک کئے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ نو جون سے مدھیہ پردیش میں بارہویں بورڈ کے جب دوبارہ امتحان شروع ہوئے تو اندور کے بنگالی اسکول میں ایسا ہی شرمناک واقعہ پیش آیا جہاں مسلم طلبا کو اسکول کے اندر بیٹھ کر امتحان دینے سے انتظامیہ نے منع کردیا۔
اندور کے بنگالی اسکول میں بارہویں بورڈ کے امتحان کے لئے دوسرے اسکول کے طلبا کے ساتھ اسلامیہ کریمیہ کے طلبا کا بھی سینٹر بنایا گیا تھا۔ جب طلبا مقررہ وقت پر امتحان دینے کے لئے اندور کے نولکھا اندرا پریتما چوراہے کے پاس واقع بنگالی ہائی اسکول کے امتحان سینٹر پہنچے تو مسلم طلبا کو دوسرے طلبا کے ساتھ اندر بیٹھ کر امتحان دینے سے منع کردیا گیا ۔ مسلم طلبا کو پہلے اسکول کے گراؤنڈ میں بیٹھ کر امتحان دینے کو کہا گیا۔ جب مسلم طلبا نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو انہیں اسکول کے اندر دوسرے طلبا کے ساتھ تو نہیں بیٹھایا گیا بلکہ برآمدے میں الگ سے بٹھا کر ان کا امتحان لیا گیا۔
اندور کے بنگالی اسکول میں مسلم طلبا کے ساتھ کئے گئے امتیازی سلوک پر بھوپال مسلم ایم ایل اے عارف مسعود نے اپنی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ عارف مسعود نے معاملے کو لیکر سی ایم شیوراج سنگھ کو خط بھی لکھا ہے اور متعلقہ افسران اور اسکول انتظامیہ کے خلاف کاروائی کی بھی مانگ کی ہے۔ بھوپال کانگریس ایم ایل اے عارف مسعود کہتے ہیں کہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ صاحب بہت افسوس کے ساتھ آج پھر آپ کو ایک خط لکھ رہا ہوں ۔کیونکہ کووڈ کے چلتے ہم آندولن نہیں کر سکتے تو ہم خط کے ذریعہ عوام کے مسائل سے وقت وقت پر واقف کرا رہے ہیں۔ پہلے بھی لکھے گئے خطوط کا ابھی تک آپ نے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا ہے۔لیکن آج کا موضوع پہلے سے زیادہ حساس ہےکہ شکشا کے مندر میں جہاں سے سنسکار ملتے ہیں وہاں سے نفرت تقسیم کی جائے تو افسوس ہوتا ہے۔بارہویں بورڈ کے امتحان میں ایک سماج کے بچوں کو اسکول میں داخل نہیں ہونے دیا گیا بلکہ انہیں دوسرے طلبا سے الگ بیٹھا کر انکا امتحان لیاگیا۔آپ سوچئیے جن بچوں کے ساتھ دوئم درجے کے سلوک کیاگیا ہے ان بچوں نے کس کرب میں امتحان دیا ہوگا۔ امتحان دیتے وقت ان کاذہنی توازن کیسا رہا ہوگا۔ انہوں نے کتنی تکلیف میں امتحان دیا ہوگا۔اس کا احساس آپ کو بھی ہونا چاہیئے اور جو اندور کے بنگالی اسکول میں واقعہ پیش آیا ہے اس کا آپ نوٹس لیں اور ضلع ایجوکیشن آفسر کے خلاف فوری کاروائی کرتے ہوئے اس اسکول انتظامیہ کے خلاف بھی کاروائی کی جائے جس نے طلبا کے بیچ نفرت پھیلانے کا کام کیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس وقت بھید بھاؤ کرنے کے بجائے آپ مدھیہ پردیش کے مکھیا ہونے کے ناطے طلبا کو انصاف دینے کا کام کریں گے۔کیونکہ بابا صاحب کے بنائے ہوئے سنودھان میں سب کو سمان شکشا لینے کا ادھیکار ہے۔ایسے میں اندور کا ایک اسکول ایک سماج کے طلبا کو الگ اور دوسرے سماج کے طلبا کو الگ بیٹھا کر امتحان کا انعقاد کرتا ہے تو میں اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔
وہیں ایم پی بی جے پی کے نائب صدر رامیشور شرما کہتے ہیں کہ کانگریس اس کو نفرت کا رنگ دینے کا کام کر رہی ہے ۔ مسلم چھاتر جہاں سے پریکشا دینے کے لئے آئے تھے وہ کورونا کو لیکر ہاٹ اسپاٹ ایریا ہے۔ اس لئے اسکول پربندھن نے انہیں الگ بیٹھا کر پریکشا لی ہے تاکہ دوسرے چھاتروں کو کورونا مہاماری سے بچایا جا سکے ۔
وہیں مدھیہ پردیش کانگریس کے سینئر لیڈر وسابق وزیر قانون پی سی شرما کہتے ہیں کہ نفرت پھیلانا بی جے پی کی گھٹی میں شامل ہے۔ وہ محبت کی بات اور محبت کا کام کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ اگر ہاٹ اسپاٹ ایریا سے آنے والے چھاتروں کو الگ بیٹھاکر پریکشا لینے کی بات تھی تو مسلم چھاتروں کے علاوہ جو دوسرے سماج کے چھاتر آئے تھے ان میں سے بھی بہت چھاتر ہاٹ اسپاٹ ایریا سے آئے تھے ۔پھر ان چھاتروں کو الگ کیوں نہیں بیٹھایا گیا۔ صرف مسلم چھاتروں کو الگ بیٹھاکر پریکشا لینا ان کا منشا کا ظاہرکرتا ہے۔