تعاون کریں؛ مگر ذلیل اور رسواء نہ کریں!

” مال” اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، جس کے ذریعہ انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کرسکتا ہے اور اپنے مقاصد میں بامراد ہوسکتا ہے، اسی طرح دنیا میں انسان کے لیے جینے کا سہارا بھی، اور اس کے بقاء کا ناگزیر ذریعہ بھی ہے، اور آخرت میں بھی اجر وثواب اور گناہوں کی تلافی کا باعث ہے؛ اسی وجہ سے بندہ پر زکاۃ و صدقات کو لازم کیا گیا اور اس کے بےشمار فضائل و فوائد کتاب وسنت میں وارد ہوئے ہیں، اگر اس کے کچھ فوائد نہ بھی ہوتے تو تب اس کی ادائیگی ہم پر لازم تھی؛ کیوں کہ یہ حکمِ خداوندی ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے اس کے دنیاوی فوائد سے نوازنے اور اخروی انعامات سے سرفراز کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے؛ جیسے آفات و مصائب ٹل جاتے ہیں، (مشکوٰۃ شریف:١/١٦٧) اور "صدقہ” قیامت کے دن ہمارے لئے حجت بنے گا۔(مسلم شریف:١/١١٨)
زکاۃ کی ادائیگی ایک اہم عبادت ہے؛ لیکن آج کل ہم نے اس کی ادائیگی کا جو طریقہ اختیار کرلیا ہے اس کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ سامنے آرہے ہیں، کہ ہر کوئی اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زکاۃ نکال کر ضروری اشیاء کی کٹس بناکر غرباء میں تقسیم تو کررہا ہے؛ لیکن ساتھ ہی ساتھ تصویر کشی کرکے سامنے والے کو اتنا ذلیل کردیتا ہے، کہ اس کے کئی ایک نقصانات وجود میں آتے ہیں، مثلاً آپ کی اس تصویر کشی کی وجہ سے جو واقعی ضرورت مند لوگ ہیں تو وہی لوگ اس تصویر کشی کے نتیجے میں ہونے والی ذلت و رسوائی اور شرمندگی سے بچنے کی خاطر اپنی خواہشات اور خوشیوں کو قربان کرکے گھروں میں ہی بیٹھ جاتے ہیں، اور پھر غیر مستحق لوگ اس کے حاصل کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں؛ حالانکہ مسئلہ یہ ہے کہ غیر مستحق کو زکاۃ دینے سے زکاۃ قطعاً ادا نہیں ہوتی،
اب ذرہ سوچنا چاہیے کہ جس عبادت کی ادائیگی کے لئے اتنی ساری محنتیں کی جارہے ہیں اگر وہی ادا نہ ہو تو پھر کیا فائدہ ؟
حد تو یہ ہے کہ بعض لوگ لمبی لمبی لائن لگوا کر کٹس تقسیم کرتے ہیں اور تصاویر کھینچتے ہیں؛ حالانکہ ان کو سوچنا چاہیے کہ اگر اسی لائن میں ان کی بہن ہو ، یا ان کی بیوی ہو، یا ماں کھڑی ہو تواس وقت وہ کیا کریں گے۔۔۔!!
بہت افسوس اور رونے کا مقام ہے۔
صرف یہی ایک نہیں ؛ بلکہ اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی غریب گھرانہ کی کوئی لڑکی اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے اس لائن میں کھڑی ہو اور اس لڑکی کا رشتہ طئے ہوچکا ہو؛ لیکن ابھی نکاح باقی ہو، اور آپ کی اس تصویر کشی کی وجہ سے اس کی فوٹو سوشل میڈیا کے ذریعہ لڑکے والوں تک پہونچ جائے تو اس کا کیا اثر پڑے گا، پھر رشتوں کے ٹوٹ جانے کی تک نوبت آجاتی ہے اور پھر یہ لڑکیاں مرتد ہو کر غیروں کے ساتھ بھاگنے پر مجبور ہوجاتی ہیں ، اور جب ارتداد کی خبریں سامنے آتی ہیں تو ہم بڑی بے غیرتی سے بلا جھجھک اس لڑکی پر طعن و تشنیع کرتے ہیں؛ حالانکہ اس کے ارتداد کی ایک وجہ ہم بھی ہوتے ہیں؛ لیکن اس طرف توجہ بھی نہیں جاتی، ہماری ایک ذرہ سی غفلت اور غلطی کی وجہ سے اتنے بڑے نقصانات وجود میں آتے ہیں اور ہم ہے کہ اس سے بالکل بے فکر اور غافل ہیں، بس اپنی خواہشات کی تکمیل میں لگے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم اچھا کام ہی تو کررہے ہیں، جی ہاں! کام تو اچھا ہی ہے؛ لیکن ہم نے جو طریقہ اپنایا ہے وہ غلط ہے اور یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ "دین” خواہشات کی تکمیل کا نام نہیں؛ بلکہ اسلام کی مکمل تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور اس کے تقاضوں کی پابجائی کا نام ہے، اسی طرح زکوۃ دے کر کسی غریب پر احسان بھی نہیں جتانا چاہیے؛ بلکہ غریب کا احسان ماننا چاہیے کہ اس نے ہمارا صدقہ قبول کرکے ہمارا فرض ادا کرنے میں تعاون کیا؛ کیوں کہ اگر غرباء نہ ہوں تو مالدار لوگ اپنے فریضے سے ہرگز سبک دوش نہیں ہوسکتے؛ لیکن افسوس ہے کہ آج کل بہت سے دین دار لوگ بھی اس کا لحاظ نہیں رکھتے، اور چندہ دے کر بے دھڑک احسان جتاتے ہیں اور انہیں حقیر اور ذلیل سمجھتے ہیں؛ حالانکہ ایسا کرنے سے نیکی برباد اور نقصان لازم آجاتا ہے؛ جیساکہ قرآن کریم میں ہے: اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ (البقرۃ:٢٦٢)
جو لوگ اﷲ کے راستہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں اورنہ ایذاء پہنچاتے ہیں ، (یعنی نہ طعنہ دیتے ہیں، نہ ان کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک کرتے ہیں ) ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر (محفوظ ) ہے، لہٰذا بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
لائحہ عمل: اسلام نے زکاۃ کی ادائیگی کے سلسلہ میں اپنے پیرو کاروں کو یہ اختیار دیا ہے کہ چاہے تو علانیہ ادا کرے چاہے تو خفیہ طور پر ادا کرے ؛ لیکن افضل اور بہتر ہے کہ خفیہ طور پر اور چھپا کر ادا کی جائے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ ۚ وَ اِنْ تُخْفُوْہَا وَ تُؤْتُوْہَا الْفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ؕ وَ یُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِکُمْ (البقرۃ: ١٧١)
یعنی اگر تم صدقہ ظاہر کرکے دو تب بھی اچھی بات ہے اور چھپاکر دو اور دو محتاجوں کو ، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے ، نیزاﷲ (اس کو ) تمہارے کچھ گناہوں کے لئے کفارہ بھی بنادیں گے،
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے طور پر اپنے علاقہ کے واقعی مستحق ضرورت مند احباب تک پہونچ کر امداد کردیں۔۔ بس کافی ہے، اتنا شور وغل کرکے کس کو دکھانا ہے۔۔؟ اللہ تو تنہائی میں بھی دیکھتا ہے؛ اس لیے اپنے اس عمل کا اللہ کو گواہ بناتے ہوئے ایسے چھپ کر مستحق کی امداد کردیں کہ اللہ اس اخلاص کی برکت سے بخشش کردے ؛ کیوں کہ "رحمت حق بہانہ می جوید”
آخر میں میں صاحبِ ثروت اور صاحبِ نصاب احباب سے یہی دردمندانہ اپیل کروں گا کہ وہ کسی کی محتاجگی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے اور انہیں ذلیل و رسواء نہ کریں؛ ورنہ اللہ کا یہ فرمان بھی یاد رکھ لیں : وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ ۔
پروردگارِ عالم ہمیں نیک راستہ کی ہدایت دے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ