اسلامیات

سیرت نبویﷺ کا رفاہی پہلو

اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھر ملے
سارے عالم میں جانا اور پہچانا جانے والا اور اپنی ایک خاص شناخت رکھنے والا خوبصورت شہر حیدرآباد آج آفات سماویہ سے دوچار ہے خلاق عالم کا قہرپانی کی شکل میں اس شہر کو لے ڈوبا جارہاہے دیواریں ٹوٹ چکی ہیں،  ملبے کے نیچےپچاسوں افراد ابدی  نیند سو چکے ہیں، ہر دن ز یر آب لاشیں مل رہی ہیں، دو دو دن سے گھروں میں محصور افراد بھو کے پیاسے تڑپ رہے ہیں، بعض محلہ وہ ہیں  جہاں جانے کے لیے راستے اب تک ہموار نہیں ہوئے ہیں، جن کی عمارتیں اونچی ہے وہ بالائی منزل پر گزر بسر کر رہے ہیں اور جن کی چھتیں ٹینوں کی ہے  وہ دربدر دوسرے ٹھکانوں کے متلاشی ہیں،
ہرصبح اخباروں کی سرخیاں  دل کو دہلا دے رہی ہے، سوشل میڈیا پر گردش کر رہی  ویڈیوز سے بخدا دل بے چین ہورہا ہے، کسی مقام پر ایک ماں اور بیٹی پر دیوار گر چکی  ہے،
 کسی مقام پر کشتی الٹ چکی ہے، کہیں زندہ انسان پانی کے بہاؤ میں بہتے ہوئے چلاتے ہوئے روتے ہوئے دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں،
 ایک چھت پر مسلسل چار دن سے ایک بزرگ اپنے گھر کی حفاظت میں موجود نظر آ رہے ہیں، بڑی بڑی روٹیں جن کی مثالیں دی جاتی تھی جن کی کشادگی پر فخر کیا جاتا تھا آج آج وہ کچرے کا ڈھیر بنی ہوئی ہیں، پانی میں بہتے ہوئے گاڑیاں خصوصا آٹو لہر کی شدت سے دب چکے ہیں ٹوٹ چکے ہیں، ناقابل استعمال ہو چکے ہیں، نہ جانے کتنے غریب انسانوں کے گھروں کے چولہے نامعلوم مدت تک کے لئے بند ہو چکے ہیں،اور نہیں معلوم دردوکرب میں ملوث کتنے واقعات ہماری آنکھوں اور اخباروں کی سرخیوں سے اوجھل ہیں۔
یہاں عرض یہ کرنا ہے کہ ان سیلاب زدہ علاقوں اور لُٹےپِٹے محلوں میں گھٹنوں اور کمر تک موجود پانی میں بجلی کے تاروں سے، کُھلے ہوئے مین ہولز کا خوف ہوتے ہوئے بھی  مفلوک الحال پریشان زدہ انسانوں تک سب سے پہلے مسیحا بن کر یا رات کی تاریکیوں میں جگمگاتے ستارے بن کر جوجماعت پہنچی اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہ ہمارے نوجوانوں کی جماعت ہے
سب سے پہلے نہ شہر کے ایم پی حاضر ہوئے، نہ ایم ایل لے نظر آئے، نہ کارپوریٹر دکھائی دیے، نہ بی ایچ ایم سی کے اہلکار آئے، نہ پولیس کے عہدِ دار، نہ کوئی پلاٹ لیڈر۔۔۔۔
 بلکہ سب سے اول دستہ سب سے پہلا طبقہ جو بغیر کسی غرض اور بے مطلب کے مجبور ولاچارانسانوں تک غزاؤں کو پہنچایا ان کے ساز و سامان کو بحفاظت  گھر سے باہر نکالا اور جو بن سکتا  اور ہوسکتا تھا وہ کیا، وہ خدمت خلق میں منہمک رہنے والے امت مسلمہ کے نوجوان ہیں
ہم سلام پیش کرتے ہیں ان نوجوانوں کو جنہوں نے رات دن رفاہی کام یعنی خدمتِ خلق کو انجام دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر عمل کیا۔
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کے لیے نافع ومفید ہو(کنز العمال: ج ۸ ص ۲۰۱، کتاب المواعظ)
نوجوانوں میں خدمت خلق کے اس  جذبے اور حوصلہ کو دیکھ کر اور سن کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا وہ دلاسا یاد آتا ہے جو آپ نے آپﷺ کے سامنے عرض کیا تھا۔
 آپ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نزولِ وحی کے وقت آپ کے رفاہی کاموں کو بیان کرتی ہیں:
 فَقَالَتْ خَدِيجَةُ کَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيکَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ
خدا کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم توصلہ رحمی کرتے ہیں‘ ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال واخلاق سے نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق بجانب امور میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔“
 (بخاری شریف جلد 1 حدیث 3)
سن 5 ہجری غزوہ احزاب میں بنفس نفیس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ اس خندق کے کھودنے میں برابر حصہ دار رہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صحابہ کرام یہ کام پسند نہیں کرتے  لیکن آپ نے امت کی تعلیم  کے لیے اس میں شرکت بھی کی اور خود اپنے ہاتھوں سے مٹی کو اٹھا اٹھا کر پھینکا بھی۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
 کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ خندق سے مٹی ڈھورہے تھے۔ یہاں تک کہ غبار نے آپﷺ کے شکم کی جلد ڈھانک دی تھی۔
  (بخاری شریف)
خدمتِ خلق کو انجام دینے والوں کے لیےانعام خداوندی:
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔
 “جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو اس سے دور کرے گا۔ اور جس شخص نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اور اس کے لئے آسانی مہیا کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے لئے آسانیاں مہیا کرے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد پر تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کے لئے تیار ہو۔”
(مسلم شریف)
ہر انسان جو اس آفت سماویہ میں جس طرح بھی مصیبت زدہ انسان کی تکالیف کو دور کر سکتا ہے  خواہ وہ مال کے ذریعے ہو یا خدمت و محنت کے ذریعے ہو انجام دینے کی کوشش کرے یقینا اس کا اجر باری تعالی کی طرف سے دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی ملے گا فرمانِ رسولﷺ ہے:
 ارْحَمُوا مَنْ فِي الأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاء. تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا
(
 أَبُو دَاوُدَ )
اور جو شخص صاحب حیثیت و استطاعت ہونے کے باوجود امت مسلمہ یا انسانیت کے درد اور دکھ سے اپنے دامن کو چھڑانا چاہے تو یادرکھیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے حدیث قدسی ہے:
اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگرتو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا۔ ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو ہی سارے جہانوں کا رب ہے۔
اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا۔ مگر تم نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے حضور پاتے۔
(مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض)
جینے کو تو سبھی جی لیتے ہیں دنیا میں مگر
زندگی تو نام ہے احساس کی بیداری کا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×