اسلامیات

ماہ محرم؛ ماہ محترم

اسلامی سال کا پہلا مہینہ ماہ محرم الحرام ہے جو بے شمار خصوصیات اور گوناگوں فضائل سے آراستہ ہے اس ماہ میں جہاں ایک طرف بے پناہ فضیلتیں ہیں تو وہیں دوسری طرف اس کی تاریخ میں ایسے بے مثال واقعات رونما ہوئے ہیں جو اس ماہ کو ممتاز بنادیتے ہیں؛ امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ و السلام ہی سے اس ماہ کی یادیں وابستہ نہیں بلکہ ابتداء آفرینش سے ہی اس ماہ میں ایسی ویادگاریں ہیں جو اس ماہ کو امتیاز بخشتے ہیں
اس ماہ کی فضیلت ان واقعات اور حادثات کا رونما ہونا نہیں بلکہ اشہر حرم کو خود خلاق عالم نے وجود کائنات سے ہی ہر ممتاز اور افضل بنایا،چنانچہ ارشاد باری ہے :
ترجمہ :مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔”(سورۃ التوبۃ:36)
مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے، اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے، سابق شریعتوں میں ان مہینوں کے اندر قتل و قتال بھی ممنوع تھا ۔ مزید آگے چل کر فرماتے ہیں:
امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچا لے تو باقی سال کے مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے، اس لئے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے ۔(معارف القرآن مولانا مفتی محمد شفیع صاحب
تفسیر خازن میں لکھا ہے:
"وإنما سمیت حرما لأن العرب في الجاھلیة كانت تعظمھا  و تحرم فيھا القتال حتي لو أنأاحدھم لقي قاتل أبيه وابنه وأخيهِ في هذه الاربعة الاشھر لم يھجه ولما جاء الإسلام لم يزدھا إلا حرمة وتعظيما ولأن الحسنات والطاعات فيھا تتضاعف وكذلك السيئات أيضا أشد من غيرھا فلا تجوز انتھاك حرمة الأشھر الحرم”
ترجمہ :”یعنی ان کا نام حرمت والے مہینے اس لئے پڑ گیا کہ عرب دورِ جاہلیت میں ان کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور ان میں لڑائی جھگڑے کو حرام سمجھتے تھے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنے یا بیٹے یا بھائی کے قاتل کو بھی پاتا تو اس پر بھی حملہ نہ کرتا۔ اسلام نے ان کی عزت و احترام کو اور بڑھایا۔ نیز ان مہینوں میں نیک اعمال اور طاعتیں ثواب کے اعتبار سے کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ اسی طرح ان میں برائیوں کا گناہ دوسرے دنوں کی برائیوں سے سخت ہے۔ لہٰذا ان مہینوں کی حرمت توڑنا جائز نہیں۔
اہل عرب جنگ و جدال اور دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے مگر  ملت ابراہیمی کے اثر سے اشہر حرم میں جنگ و جدال اور قتل و قتال سے دور رہا کرتے تھے حتی کہ اشہر حرم کی فضیلت سلسلے میں اہل علم کا اختلاف بھی رہا ہے
قال ابن رجب: "وقد اختلف العلماء في أي الأشهر الحرم أفضل؟ فقال الحسن وغيره: أفضلها شهر الله المحرم، ورجحه طائفة من المتأخرين،
علامہ ابن رجب فرماتے ہیں : "علماء کرام میں اختلاف ہوا کہ اشہر حرم میں کونسا مہینہ افضل ہے ؟ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ان سب میں سب سے افضل اللہ کا مہینہ محرم الحرام ہے، متأخرين علماء نے اسی کو راجح قرار دیا ہے
ماہ محرم اور روزوں کی اہمیت
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی ماہ محرم الحرام کے روزوں کی فضیلت و اہمیت وارد ہوئی ہے
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
ترجمہ :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:” عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور جو محرم کے روزے رکھے اسے ہر روزہ کے عوض تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔”(المعجم الصغير)
     اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یعنی جو شخص ماہ محرم  کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ (الترغیب والترہیب ۲/۱۱۴)
 قرآن و حديث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ محرم الحرام اور بقیہ اشہر حرم کی فضیلت و اہمیت کا تعلق منجانب اللہ ہے اور فی نفسہ اشہر حرم میں فضیلت و اہمیت ہے ان واقعات اور حادثات کا رونما ہونا ماہ محرم کے افضل ہونے پر دلیل نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن قیم نے زاد المعاد کے شروع میں اور حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ نے قبلہ نما میں بیان کیا ہے
(تقریر بخاری علامہ شبیر احمد عثمانی)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ محرم الحرام کا مہینہ عظمت و فضیلت والے مہینوں میں سے ہے اوراللہ تعالیٰ کی خاص تجلیات وانوار اس مہینہ میں نازل ہونے کی وجہ سے اس مہینہ کو خاص طورپر اللہ کا مہینہ فرمایا گیا ہے۔
ماہ محرم کو نسبت خداوندی کا شرف
اس مہینہ کو اللہ پاک نے خاص فضیلتیں عطا فرمائی ہیں کیونکہ اشہر حرم میں سب زیادہ حرمت و فضیلت محرم الحرام کو حاصل ہے اِسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اِسے شَہْرُاللّٰہِ اس مہینہ کو اللہ کی طرف منسوب کرکے فرمایا اَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَھْرُاللّٰہِ الْمُحَرَّمُ،حالانکہ تمام مہینوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہیں لیکن یہ مہینہ بہت محترم اور مبارک ہے اِس لیے حضور نے اِسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے شَھْرُ اللّٰہِ فرمایا
ماہ محرم ماہ ہجرت
جہاں یہ مہینہ عظیم الشان تاریخی واقعات کا حامل ہے، وہیں اس میں مہتم بالشان واقعات بھی رُونما ہوئے ،اُن میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت ِمدینہ کا واقعہ بھی اِسی محترم مہینہ کی ایک یادگار ہے، روایات میں آتا ہے کہ نبوت کے تیر ہویں سال محرم الحرام میں نبی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی نیت فرمائی پھر کچھ دنوں بعد یعنی ٢٦ صفر المظفر کو ہجرت کے لیے روانہ ہوئے ،
ماہ محرم ماہ شہادت
علاوہ اَزیں اِس مہینہ کی عظیم یادگار وں میں سے سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ بھی ہے جو یکم محرم الحرام کو پیش آیا ، افسوس ہے کہ آج محرم الحرام کو شہادت حسین سے منسوب کردیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی آبیاری اور سرسبزی کے لئے سابقین اولین صحابہ نے بھی بہت ساری قربانیاں دیں ہیں جن کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے،
 لہٰذا اس مبارک مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت بہت  توجہ کے ساتھ کرنی چاہیے اور ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اس مبارک مہینے کے  برکات اور ثمرات حاصل ہو اور اسلامی سال کی ابتداء بقیہ مہینوں کے لیے نیک فال ثابت ہو۔ ان فضائل کا مقتضی تو یہ تھا کہ اس مہینے میں ہم زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت واطاعت میں مشغول قرب خداوندی حاصل کرتے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جب نیا اسلامی سال شروع ہوتا ہے تو بہت سے لوگوں کی طرف سے اس کی ابتداء اللہ جل شانہ کے حکموں کو پورا کرنے اور رسول اللہ کے طریقوں پر چلنے کے بجائے اللہ کے حکموں کو توڑنے اور رسول کے طریقوں کی خلاف ورزی سے کی جاتی ہے ۔ ہر طرف شرک وبدعات اورمن گھڑت کاموں کا دَورشروع ہو جاتا ہے خاص طورپر محرم کی یوم عاشوراء میں خود ساختہ رسومات وبدعات کو انجام دے کر ثواب حاصل کرنے کے بجائے بہت سے لوگ الٹا گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس مہنے میں گناہ کرکے سخت عذاب مستحق ہوتے ہیں (اللھم احفظنا منہ)
ماہ محرم الحرام؛ بدعات و رسومات
جہاں ایک طرف اس مہینہ کو عظمت و حرمت، فضیلت و اہمیت حاصل ہےتو وہیں دوسری طرف ہم نے اس ماہِ محترم میں بہت سے بدعات اور غلط رسومات کو فروغ بھی دیا ہے؛اس ماہ دکھ اور مصیبت سے تعبیر کیا جاتا ہے سیاہ لباس پہن کر ماتم کرنا، رونا، پیٹنا، تعزیہ کا جلوس نکالنا، نکاح کو منحوس سمجھنا اور مجالس منعقد کرنا ان سب کاموں کو ہم نے ایصال ثواب کا ذریعہ سمجھا ہوا ہے، جبکہ یہ کام نہ صرف نبی علیہ السلام کے فرامین عالی اور ارشادات گرامی کے خلاف ہیں بلکہ جگر گوشہ بتول نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اس مقصد کو پامال کرنا بھی ہے جس کے لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردی، اہل تشیع کی نقالی اور دیکھا دیکھی میں بہت سارے صحیح العقیدہ مسلمان ان گنت بدعات و خرافات میں مبتلا ہو گئے ہیں؛اس قسم کی تمام چیزیں اوران کے بارے میں مختلف فضائل،موضوع اور گھڑے ہوئے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں اوران چیزوں کا اسلام اور شریعت محمدی سے کوئی تعلق نہیں اور بعض رسومات تو ان میں شرک کے قریب تر ہیں ،اس لئے اس قسم کی تمام بدعات سے بچنا ضروری ہے.
آج ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم ماہ محرم الحرام کی آمد پر ہم اِس کی عظمت و فضیلت سے فائدہ اٹھائیں اور زیادہ سے زیادہ اللہ جل شانہ کی عبادت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی اطاعت کو لازمی بنائیں، اِس ماہ میں رونما ہونے والے عظیم الشان واقعات سے نصیحت و عبرت حاصل کریں، کیونکہ اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ عبادت و عبرت کا ہے، اِس کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ خصوصاً اِس میں ہر قسم کے محرمات و منکرات، خرافات و رسومات، بدعات اور معاصی سے مکمل اجتناب کریں تا کہ اِس کا اثر پورے سال بلکہ زندگی بھر باقی رہے۔
اللھم وفقنا لما تحب و ترضی عدد ما تحب و ترضی یا کریم

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×