اسلامیات

ماہ صفر؛ماہ ظفر

توحید دین اسلام کا بنیادی عقیدہ:
 تو حید کا صحیح تصور انسان کو ایک طرف تو دَر در کی غلامی سے بچاتا ہے اوردوسری طرف توہمات سے بھی نجات دلاتا ہے،یہی وہ چیز ہے جو آج ہر جگہ مفقود ہے کیا خاص کیا عام، کیا عالم کیا جاہل، کیا بڑا کیا چھوٹا ہر کوئی توحید کے صحیح تصور سے نا واقف اور نا آشنا ہے اسی وجہ سے انسان مصائب میں مبتلا اور توہمات کا قیدی وغلام بنا ہوا ہے،  یہی توحید کی حقیقت اور واقفیت ہی انسان توہمات اور بدعات و خرافات سے بچاتی ہیں توہمات کہتے ہیں خواہ مخواہ کسی وہم اور انجانے خوف میں مبتلا ہونا اور نفع نقصان کو اللہ پاک کی ذاتِ عالی کے علاوہ کسی اور کے ساتھ وابستہ کر لینا مثلاً کسی چیز یا شخص یا جانور یا پرندہ یا مہینہ، دن اور گھڑی کو نامبارک منحوس اور اشبھ سمجھ لینا یاکسی خاص پتھرکی انگوٹھی یا نمبر سے کامیابی ونفع کی اُمید قائم کر لینا، یہ سب توہمات ہیں جنکی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے
ماہِ صفر کے توہمات؛ دور جاہلیت میں
قبل از اسلام  جاہلیت کے تاریک ترین دور میں لوگ طرح طرح کے عجیب و غریب توہمات اور خرافات میں مبتلا تھے جیسے
(1)سفر میں جانے سے قبل پرندے کو اُڑانا؛ اگر وہ دائیں جانب اُڑتا تو اِسے نیک فال تصور کرتے اور اور اپنا سفر پورا کرتے  لیکن اگر بائیں طرف اُڑتا تو بد فالی اور بدشگونی کے نام پر  سفر پر جانے سے رک جاتے تھے،
(2) اُلو کو منحوس پرندہ خیال کرنا؛ وہ پرندہ  جب بھی کسی کے مقام پر بیٹھتا  تو یہ تصور کرتے تھے کہ یہ گھر میں آفت آجائے گی، منحوسیت چھا جائے گی افسوس یہ ہے کہ آج بھی بہت سے لوگوں میں یہی غلط رواج ہے جسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے
(3)  ”صفر المظفر ” اسلامی سال کا دوسرا مہینہ اسے بھی اہل عرب ناکامی کا پیش خیمہ سمجھتے تھے اُن کا یہ توہم اور خیال تھاکہ اِس ماہ میں جو تجارت اور کاروبار کیا جائے گا اس میں نقصان ہی ہوگا، اور جو اس ماہ میں سفر کیا جائے گا وہ نامراد اور سقر (جہنم یعنی مصیبت کا سبب) ہوگا، جو شادی ہوگی وہ دیر پا نہیں ہوگی وغیرہ وغیرہ،
در اصل ان توہمات اور خرافات کی اصل وجہ اور اِس کی بنیاد وہ نحوست تھی جو گناہوں کی وجہ سے فتنوں، وباؤں ،امراض و مصائب و حوادثات کی شکل میں کبھی کسی دور میں اس مہینہ میں پیش آئی تھی اور اِس وجہ سے جاہل لوگوں نے عقیدہ گھڑ لیا کہ صفر کا مہینہ نحوست و مصیبت کا مہینہ ہے۔ جبکہ اسلام ان توہمات بد اعتقادیوں اور بد شگونیوں کی کسی طرح اجازت نہیں دیتا
ماہ صفر کے توہمات موجودہ دور میں:
افسوس صد افسوس!! ایمان و عقیدہ کی کمزوری نے، جہالت اور غیروں کی صحبت نے جہاں بہت سے اہل اسلام نے برادرانِ وطن سے زندگی کے دوسرے اہم شعبوں اور سماجی رسومات میں ہندو  تہذیب و ثقافت اور معاشرت کو قبول کیا وہیں اپنے افکار ر و نظریات اور عقائد میں بھی بہت سے مسلمان اُن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے،چنانچہ آج بھی بہت سے مسلمان طرح طرح کے توہمات میں مبتلا ہیں جیسے
(1) بلی راستہ کاٹ دے تو سفر ملتوی کر دینا چاہیے،
(2) یہ سمجھنا کہ قدرتی طور پر مصائب اور مشکلات، بلائیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں،
(3)ماہ صفر میں نکاح اور سفر وغیرہ کو منحوس سمجھنا بالخصوص صفر کی تیرہ تاریخ کو ”تیرہ تیزی” اور” آخری بدھ” کو منحوس دن تصور کیا جاتا ہے
افسوس! زمانہ ٔ جاہلیت کے لوگوں کی طرح مختلف توہمات، خرافات اور وساوس اور غلط عقائد میں آج بھی اپنی زندگی کے شب وہ روز گذار رہے ہیں حالانکہ اِن سب باتوں اور صفر سے متعلق بے جا توہمات کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے متعدد مستند اور صحیح حدیثوں میں تر دید فرمائی ہے،
*توہمات صفر کی نفی قرآن و سنت سے*
قرآنِ پاک میں باری تعالیٰ کا فرمان ہے :
( قُلْ لَنْ یُّصِیْبَنَا اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰنَا وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ) ١
”کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا ہمیں اُس کے سوا کچھ نہیں پہنچ سکتا، وہی ہمارا سرپرست ہے اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔”
اس آیاتِ کریمہ پر جس کا ایمان کامل ہوگا وہ مسلمان کبھی فضول توہمات اور بے جا خرافات میں مبتلا نہیں ہو سکتا، جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی جانب سے ہوتا ہے
 رحمت دو عالم  نے ماہِ صفر کے متعلق اُن تمام خرافات اور توہمات کی کلی طور پر نفی فرمادی بلکہ اِس کے علاوہ بھی جو توہمات تھے اُن سب کی بھی تردید فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا : لَاعَدْوٰی وَلَاھَامَةَ ولا نوی وَلَا صَفَرَ تعدیہ: یعنی ایک کی بیماری  بغیر حکمِ الٰہی  کے خود بخود کسی اور کو لگ جانا، کسی چیز سے بدفالی اور نحوست لینا، اُلو وغیرہ کو منحوس سمجھنا اور صفر کے جملہ توہمات سب کے سب باطل اور بے حقیقت ہیں آپ نے صفر کے منحوس ہونے کی نفی فرما کر اُس کے” مظفر” ہونے کو واضح فرمادیا، معلوم ہوا کہ اسلام میں ماہ صَفر صِفر نہیں بلکہ ماہ ظفر ہے
مصائب اور مشکلات کی اصل وجہ
اسلام نے ماہ صفر کے ساتھ مظفر یا خیر کا لفظ لگایا تواُس کی یہی ایک وجہ ہے کہ یہ ماہ منحوس نہیں بلکہ ماہ مبارک ہے، خیر و برکت پُر اور ظفر سے بھر پور ہے نحوست سے اس کا کوئی تعلق نہیں،  :نحوست، مصائب و مشکلات، آفات و بلیات کی اصل وجہ تو آج ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے وہ اَعمال افعال ہیں جن میں ہم بکثرت مبتلا ہیں، من مانی زندگی، خواہشات کی پیروی، خدا فراموشی، اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دوری وغیرہ،  سارا وبال انہیں معصیات  سے آتا ہے
( وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ) ١
”اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے ہی پہنچتی ہے اور بہت سے کاموں سے تو وہ در گزر ہی کرتا ہے۔ ”
الحاصل آفات وبلیات کی اصل وجہ معاصی اور خواہشات کا اتباع ہے جس سے اجتناب ضروری ہے  ان بدشگونیوں اور بد فالیوں میں اپنے عقائد کو تباہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے!!
اللہ پاک پاک ہمیں دین مستقیم پر قائم فرمائے اور ہر طرح کے بدعات و خرافات، اور من گھڑت رسومات اور توہمات سے ساری امت کی حفاظت فرمائے آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×