سیاسی و سماجی

مغربی تہذیب سے مرعوب نسلِ نو کی تباہی

یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب مسلمانان عالم مروور زمانہ کے ساتھ خود شناسی و خود اعتمادی کا جوہر کھو چکے تھے، مرعوبیت اور تنگ نظری ان پر مسلط ہوچکی تھی،ارباب اقتدار اور قائدینِ وقت کی سرد مہری نے اس وقت کے نظام سے لوگوں کو متنفر اور باغی بنا دیا تھا،مفکرین و محققین آپس میں دست و گریباں تھے عین اسی وقت میں اہل مغرب آپسی اختلافات و تنازعات کو بالائے طاق رکھ کر نئی زندگی، نئی قوت  نئے جوش اور نئے امنگوں کے ساتھ اہل اسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں اور مسلمان عالم کے اس اضمحلالیت اور زخم خوردگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تجدد پسند زہر آلود ہتھیاروں سے اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک حد تک کامیاب بھی ہوجاتے ہیں

بصد افسوس یہ حقائق ہیں تماشائے لب بام نہیں

پھر چاہے مخلوط تعلیم کا نفاذ ہو یا مشنری اسکولوں کا قیام، شراب و منشیات کی گرم بازاری ہو یا عریانیت و فحاشیت کا فروغ، شہوت اَنگیز تصویروں کی اشاعت ہو یا ہیجان خیز زنا کے مناظر سے لبریز فلمیں، جسم فروشی اور زنا کاری کی ترویج ہو یا فحش ناولوں اور بے ہودہ فلموں کا التزام، موسیقی اور رقص و سرور کی لت ہو یا دوشیزاؤں کو چراغ خانہ کے بجائے شمع محفل بنانے کی سازش، مغرب پوری طاقت و قوت اور مادیت (Materialism) کے ساتھ آزادی (freedom) کے پر فریب نعرے اور مساوات (Equality) کا جھانسہ دے کر، ترقی (development) اور انسانی حقوق (Human rights) کی نمائش کرکے پوری ملت اسلامیہ کو ذلت و رسوائی کے قعر عمیق میں ڈھکیل دیا اور تہذیبی و ثقافتی، دینی و فکری، تعلیمی و تربیتی، عسکری و جنگی یلغار کی زد میں لا کھڑا کردیا, سر سے پاؤں تک ملت اسلامیہ غلامی کے طوق پہنے جی رہی ہے، مغربی لباس پہن کر، مغربی زبان بول کر اور مغربی طور اور طریقے اِختیار کر کے آج ہمارے سر فخر سے بلند ہوجاتے ہیں،ہمارے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جب مغربیت کا مذہبی شعار ”ٹائی ”لگا کر اسکول جاتے ہیں تو اِس لباس کو دیکھ کر ہمارا دِل خوش ہوجاتا ہے بلکہ ہم اب ہر شعبہ زندگی میں مغربیت کے محتاج ہوگئے، ہمارے گھروں میں مغربی طور طریقے ہیں، ہمارے دماغوں میں مغربی اَفکار ہیں، ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں مغرب کا مرتب کیا ہوا نصاب ہے ،ہمارے بازاروں میں مغربی(product’s) سامان ہے اور پوری ملت اسلامیہ مغربی ممالک کے اَربوں اور کھربوں روپے کی قرض دار ہے ہماری معیشت مغرب کے قبضے میں ہے، ہماری تجارتی منڈیاں مغرب کے رحم و کرم پر ہیں الغرض موجودہ دور میں ملت اسلامیہ کے پورے وجود کا کنٹرول مانیں نا مانیں مغرب کے ہاتھوں میں ہے۔

دور حاضر میں اہل مغرب کی حیران کن ایجادات اور سائنسی ترقی کی وجہ سے غیر مغربی اقوام اس قدر مرعوب ہیں کہ اہل مغرب کی طرف سے آئی ہوئی ہر چیز آسمانی عطیہ سمجھ کر قابل قبول ہوتی ہے بلکہ اپنے زعم وگمان کے مطابق اسکی بے جا تشریح کرکے اس کی پرُزور حمایت کی جاتی ہے۔مثلاً  freedom,  Equality, human rights, development یہ سب اہل مغرب کی اختراع ہے۔اور اگر ان زہریلے جراثیم کی کوئی نشاندہی کرے تو اسکے سر تنگ نظری اور تعصب پرستی کا الزام تھوپ دیتے ہیں المیہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف عوام بلکہ خواص بھی اس طوفان بلا خیز میں بہہ رہے ہیں نہ صرف دنیا بلکہ آخرت بھی تباہ و برباد کررہے ہیں ہائے یہ کیسی بدبختی وہ حرماں نصیبی ہے کہ ہم جس مقصد کے لئے اس دنیا میں لائے گئے اس کو فراموش کرکے دنی دنیا اور ظاہری چمک دمک اور دنیا کی دلآویزی پر اپنے دین و ایمان کا سودا کرنے پر رضامند ہیں چنانچہ آج ضرورت ہے کہ ہم مغربی افکار سے واقفیت حاصل کریں، اسکو پڑھیں، غور و فکر کریں تا کہ ملحدانہ نظریات میں غرق قوم کو ایک آواز دے سکیں، کیوں کہ یہ ایک فکر ی یلغار ہے دنیا میں لذت پرستی اور ہوی و ہوس کے پیروی کی ایک خطرناک تحریک ہے اس فکر کا مقابلہ بھی فکر سے ہوگا ورنہ تو پھر جسم تو اہل اسلام کا ہوگا مگر روح مغربی ہوگی، وطن اسلامی ہوگا مگر اہل وطن کفر کی یورش میں ہوں گے، اور نئی نسل کے صرف نام اسلامی ہوں گے مگر ذہن میں کفر بھرا ہوگا لہذا راقم کی اس تحریر کا مقصد اُمت مسلمہ کے ضمیر کو جھنجوڑنا ہے بالخصوص عالمِ اِسلام کے تجدد پسند طبقہ اور مادی ذہنیت  رکھنے والے افراد کے لیے یہ تحریر آئینۂ حقیقت نما ہوگی اللہ کرے کہ یہ تحریر اُمت ِمسلمہ کے لیے نومِ غفلت سے بیداری کا سبب بن کر غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے میں معاون و مددگار ثابت ہو تاکہ اُمت مسلمہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکے اور اِس قابل ہوجائے کہ مغربی روش سے ہٹ کر اسلامی طرزِ زندگی کو اپنالے اور اسلامی شعائر کے زیر نگیں اپنی زندگی گزار سکے اور دینِ محمدی کو تمام دینوں پر پھر سے غلبہ حاصل ہو کر بعثت محمدی کا منشا پورا ہوجائے، آمین۔
اس پیغام کو سمجھنے کے لئے اسکے حقائق و واقعات، افکار و وجوہات ، ذرائع و وسائل اور منصوبہ بندی کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کا سد باب اور لائحہ عمل کو بھی سمجھنا ہوگا چنانچہ اس پس منظر میں راقم  الحروف نے ایک سلسلہ بہ عنوان مغربی یلغار نسل نو کی تباہی اسباب و تدارک ذرائع و سد باب بتوفيق خداوندی شروع کیا ہے، انشاء اللہ اس میں بالتفصیل حقائق اور وجوہات کو ذکر کیا جائے گا اور تدارک اور سدباب کے لیے لائحہ عمل بھی ہوگا چنانچہ مضمون کی اگلی قسط بہ عنوان مغرب کی فکری یلغار؛ وجوہات اور سد باب ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×