عمیق بے کساں، چارہ ساز دردمنداںﷺ
ماہِ ربیع الاول کی آمد آمد ہے، عمیقِ بے کساں، چارہ ساز دردمنداں ،فخرِ رسولاں ،نازشِ ہر دوجہاں، احمد ِمجتبیٰ ،محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو اللہ رب العزت نے اسی ماہ ربیع الاول (موسم بہار)میں لوگوں کی فلاح کے واسطے دنیا میں مبعوث فرمایا،دیکھتے ہی دیکھتے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عظیم الشان اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا، اس اس انقلاب کی بنیاد در اصل رنگ و نسل اورطبقاتی نظام سے بلا امتیاز انسانی ہمدردی، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق جیسے پاکیزہ اُصولوں پر رکھی گئی، آپ ﷺ نے رفاہی خدمات اور سماجی بہبود کے عمدہ ترین اصول منظم فرمائے، فرد کے جان، مال، عزت و آبرو کو تحفظ عطا کیا، مساکین کی تکالیف کے ازالے کو معاشرتی فرض قرار دیا، ہر شخص کے حقوق و فرائض کو متعین فرمایا، نہ صرف خدمت خلق و رفاہ عامہ کے لیے قانون سازی کی بلکہ عملاً اسکا نفاذ بھی فرمایا،یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ آج اُمتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت میں خدمتِ خلق اور رفاہِ عامّہ کا جتنا کام ہورہا ہے وہ آپ ﷺ ہی کی جامع تعلیمات اور عمدہ اصول کاپیش خیمہ ہے، ضرورت مندوں کی مدد، معاونت ، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے ۔ دوسروں کی مدد کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے، آفات سماوی میں انکی حاجت روائی کو دین اسلام نے کار ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کانسخہ بتایاہے۔
حضور اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ غریبوں اور مسکینوں مصیبت زدوں کے لیےسراپا رحمت اور لطف و عطاہے اور آپ ﷺ کی رحمتِ عمیمہ اور وسیعہ سے نہ صرف انسان مستفیداور بہرہ ور ہوئے؛ بلکہ تمام حیوانات، نباتات اور جمادات تک نے رحمت کا حصہ پایا، فقراء و
مساکین کو تکلیف میں دیکھ کر آپ ﷺ ان کے رنج و غم کامداوا فرماتے، مصیبت زدوں کی غمخواری فرماتے، محتاجوں کی اعانت کرتے،جہالت کے اس دور میں بھی آپ ﷺ ہی تھے جو دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتے تھے اور نوع انسانی کی بے لوث خدمات انجام دیتے تھے تبھی تو ابتدائے وحی کے وقت حضرت خدیجہ نے آپ ﷺ کا تعارف جن سنہرے اور جامع الفاظ میں کرایا ہے وہ یقیناً آپ ﷺ کے سماجی اور رفاہی خدمات کا تعارف ہے، فرماتی ہیں :خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رنج نہ دے گا ، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، آپ ناتوانوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، آپ ناداروں کے لیے کماتے ہیں ، آپ مہمان نوازی کرتے ہیں ، آپ حوادث کے زمانے میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں، سرکارِ دوعالم ﷺ نے خدمتِ خلق کو کس قدر اہم اور ضروری قرار دیا اور مصیبت زدہ انسانوں کی مددکرنے اور اس کے تئیں ہمدردی و خیر خواہی کا اظہار کرنے پر کیسی کیسی بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں،اس کا اندازہ احادیث مبارکہ اور آپ کی حیات طیبہ سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے
آپ کا ارشاد گرامی ہے :تم میں بہترین وہ ہے جس سے دوسرے انسان کو فائدہ پہنچے(کنز العمال)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی پریشانیاں دور کرے گا اور جو کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے گا اللہ اس کیلئے دنیا وآخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ دنیا و آخرت میں اسکے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا اور اللہ بندے کی اس وقت تک مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے۔‘‘( مسلم)۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے :
جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اسے اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔(بخاری و مسلم)
ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا
جوکسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے (اسے تسلی دے)اسے اتناہی ثواب ملے گا جتنا مصیبت زدہ کو
(ابو داؤد)
اس قسم کی بے شمار حدیثیں ہیں جن میں آپ ﷺ نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ‘غمخواری اور محبت کی تعلیم دی ہے اور یہ درس دیاہے کہ ایک مسلمان کو چاہئے کہ اپنے اندر دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرے،کوئی شخص کسی پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہے تو اپنی وسعت کے مطابق اسے پریشانی سے نکالنے کی کوشش کرے، جسمانی اور مالی جیسی بھی ضرورت ہو ہاتھ بٹائے۔
یہ ہدایات اور فرمودات نبوی ﷺ عام حالات میں توہمیں محتاجوں اور ضرورت مندوں کی امداد و اعانت کی تلقین کرتے ہی ہیں،
لیکن اگر کوئی ناگہانی آفت آجائے تب اس کی اہمیت اوربھی زیادہ بڑھ جاتی ہے اس وقت ہمارے ملک کا زرخیز علاقہ اور قدیم اور تاریخی شہر حیدرآباد کے ایک بڑے حصے میں مسلسل بارش کی وجہ سے قیامت کی کیفیت برپاہے، ہزاروں لوگ عجیب کشمکش سے دوچار ہیں، صورتِ حال اتنی سنگین ہے کہ دیکھ کرانسان کاکلیجہ منہ کوآجائے، موسلادھار بارش کی وجہ سے کئی لوگوں کی موت ہو گئی ہے،کئی لوگ بے گھر ہوچکے ہیں ،اس وقت ان کے پاس رہنے اور سونے کے لئے جگہ تک میسر نہیں ہے،لوگ دانہ دانہ کومحتاج ہیں۔
ایسے سنگین اور نازک حالات میں ہماری ذمہ داری کہ ہم خدمت خلق سے متعلق سیرت طیبہ کے پہلو پر خصوصی توجہ دیں
ہم اپنے انسانی،مذہبی و اخلاقی فریضہ کو محسوس کریں اور ان لوگوں کی اعانت کی ہر ممکن کوشش کریں جوآج سخت مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں۔
جس طرح نماز پڑھنا عبادت ہے اور اس پر اجرو ثواب حاصل ہوتا ہے ویسے ہی بندوں کی خدمت اور زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کا عمل بھی بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے بلکہ بسا اوقات خدمت خلق کا ثواب نفلی عبادتوں سے بڑھ جاتا ہے لیکن یاد رکھیں!! یہ اُسی وقت تک عبادت ہے جب اس سے کوئی غرض وابستہ نہ ہو۔ نہ ستائش، نہ تمغا، نہ سرٹیفکیٹ، یا کوئی سیاسی مفاد بلکہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی رضامندی اور اسکے بندوں کی خدمت پیش نظر رہے
ماہ ربیع الاول میں آپ علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا یہی پیغام ہے کہ اسوہ حسنہ کی روشنی میں خدمت خلق کو بطور عبادت ادا کرنے کریں تاکہ جہاں خدمت خلق سے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہو گی وہیں معاشرہ میں ایک دوسرے انسان کے دل میں باہمی احترام اور محبت پیدا ہو گی انسان کو خود اپنی ضرورت پورا کرنے میں جتنا سکون ملتا ہے اس سے کہیں زیادہ خدمت خلق کرنے والے انسان کو روحانی تسکین نصیب ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلوص کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مصیبت زدگان کی غیب سے مدد فرمائے