سیاسی و سماجی

یہ آگہی مری رکھتی ہے بے قرار مجھے

نہ جاننے اور جاننے میں کتنا فرق ہے؟ بظاہر دو حرفوں کا لیکن ان دو حروف کا فاصلہ طے کرنے میں عمر بیت جاتی ہے. پھر جو کچھ جان لیا، نہ جانے ہوئے کے مقابلے اس کی کیا اہمیت ہے؟؟ جانے ہوئے کی بہ نسبت انجانے میں کتنی وسعت ہے!! آگہی ضروری ہے لیکن اس میں کتنی اذیت ہے.
جتنا آگہی میں اضافہ ہوتا ہے، یہ عقدہ کھلتا ہے کہ ہماری آگہی تیرگی سے زیادہ نہیں ہے. کم علمی کا یہ احساس بڑا اذیت ناک ہے. مطالعہ کرتے وقت اندرون سے مسلسل یہ آواز آتی ہے کہ ابھی تو "بہت کچھ” پڑھنا باقی ہے اور کم مائگی کا احساس بڑھتا ہی چلا جاتا ہے. غالب و میر سے لے کر جوش اور اقبال تک کو پڑھا. اردو کے دیگر مشاہیر کا کلام بھی نظر سے گزرا. لگا کہ شاید کچھ سیکھ لیا،حاصل کر لیا. مگر کائناتِ علم و فن میں نئے آفتاب و ماہتاب اور چمکتے دمکتے ستاروں کا ظہور ہوتا رہتا ہے. نئی روشنیاں، نئے رنگ افق پر کھلتے رہتے ہیں. احمد فراز، ناصر کاظمی، پروین شاکر، جون ایلیا، ابن انشا، عرفان صدیقی، افتخار عارف اور نہ معلوم کون کون سے عظیم ساحر سامنے آئے جنہوں نے خم ٹھوک کر کہا کہ ہمارے فسوں سے بچ کر دکھاؤ! ہر ساحر اپنے فن میں کامل نکلا، دل و دماغ کو اپنے سحر میں جکڑ لیا. آزاد، دریابادی، شورش، مناظر احسن، انظر شاہ، عامر عثمانی، پطرس، عصمت، ابن صفی، اسلم راہی، بشری رحمان…کچھ کو مکمل، کچھ کو تھوڑا کم پڑھا، ہر ایک کا رنگ جدا، طرز جدا، مگر جادو بیانی سب میں مشترک، رشید احمد صدیقی نے سب سے زیادہ "ظلم” کیا اور آخر میں حقانی القاسمی نے کام تمام کر دیا. قلمی خاکے، گنج ہائے گراں مایہ، ہم نفسان رفتہ، یادگار زمانہ ہیں یہ لوگ، میرے عہد کے لوگ، نقوشِ رفتگان، لالہ و گل، معاصرین، چند ہم عصر، چہرے یاد رہتے ہیں اور کچھ مزید کتابیں پڑھ کر یہ وہم ہوا کہ شاید اس پہلو سے کافی مطالعہ ہو گیا، تب اچانک غضنفر کی "خوش رنگ چہرے” سے ملاقات ہو گئی. اس کے الفاظ و معانی، اسلوب، فکر و نظر کی تازگی و تابندگی دیکھ کر دل پھر سے مسحور ہوا، اپنی کم علمی پر محجوب ہوا، ایک بار اور اعترافِ شکست پر مجبور ہوا. لاک ڈاؤن میں اسے پڑھ کر فارغ ہوا تھا کہ ایک کرم فرما نے "شگفتگی دل کی” اور "تصویر خانہ” کا لنک بھیج دیا، ان کی عنایت بیش بہا سے سلسلۂ غم دراز ہو گیا. یہ تو اردو کی ادبی، تنقیدی، تحقیقی نثری و شعری تخلیقات کا معاملہ ہے، باقی فنون کی تفصیل جان بوجھ کر ترک کر دی ہے کہ اس تحریر سے اپنی علمیت کا رعب جھاڑنا مقصد نہیں، بلکہ علمی نارسائی کا اظہار پیش نظر ہے. بہر حال جو بھی پڑھا وہ اس کے مقابلے جسے اب تک پڑھا نہیں جا سکا ایک فیصد بھی اپنا شمار و وزن نہیں رکھتا. اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مطالعہ کا یہی سب سے اہم فائدہ اور ثمرہ مجھے حاصل ہوا کہ اپنی علمی تنگ دامنی کا یقین و وجدان میسر ہو گیا ہے. کبھی بے دھیانی، غفلت، جذبات کی رو میں ہو سکتا ہے کہ زبان و قلم سے اس کے خلاف کوئی جملہ نکل جائے لیکن دل میں یہ بات نقش ہو چکی ہے. اللہ کرے تاعمر یہ نقش ترو تازہ رہے بلکہ گزرتے ایام کے ساتھ اس نقش میں مزید پختگی آئے. بقول جون ایلیا:

میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×